عذرا چوہدری، ڈھاکے کی مالا اور امی کے نام ایک خط


پہلا خط امی کا تھا۔ میرے ایم آر سی پی (MRCP) پاس کرنے پر بہت خوش تھیں اور اب میری شادی طے کردی گئی تھی، کسی جنرل جمال اختر چودہری کی دختر نیک اختر عذرا چوہدری کے ساتھ۔ خط کے ساتھ ایک فیملی گروپ فوٹو تھا جس میں جنرل صاحب اپنی وردی اور تمغوں کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے۔ ساتھ میں ایک خوبصورت سی، معصوم سی چھوٹی سی لڑکی تھی جو عذرا تھی، میری ہونے والی دلہن۔ اور بھی باتیں تھیں کہ جنرل صاحب ابھی تک جنرل ہیں اور پاکستان جیسے ملک میں اوپر والے پر بھروسا اتنا کام نہیں کرتا ہے جتنا کسی جنرل سے رشتہ داری کام آتی ہے۔ امی نے یہ بھی لکھا تھا کہ جنرل صاحب نے باتوں باتوں میں یہ بھی کہا ہے کہ وحید جیسے ہی لاہور پہنچے گا ویسے ہی کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج میں اس کا تقرر کرادیا جائے گا۔ میں تو ہمیشہ خواب یہی دیکھتا تھا کہ لاہور پہنچ کر میں اے پی (اسسٹنٹ پروفیسر) بن جاﺅں۔ آج کل چاہے ایف آر سی ایس ہو یا ایم آر سی پی، اگر کسی سرکاری ہسپتال اور خاص طور پر اگر میڈیکل کالج سے وابستگی نہیں ہے تو شہر میں نام پیدا کرنا مشکل ہوجاتا ہے۔ اگر نام نہ ہو تو مریض نہیں آتے، اگر مریض ہی نہیں آئیں گے تو پھر روپیہ پیسہ کہاں سے آئے گا۔ میں بہت سے اچھے فزیشن، سرجنز کو جانتا ہوں جنہوں نے اپنے امتحانات میں اعزازات حاصل کئے۔ لندن، ایڈنبرا، گلاسکو، ڈبلن میں تمغے جمع کئے مگر جب پاکستان واپس پہنچے تو تعلقات نہ ہونے کی بنا پر میڈیکل کالج میں نوکری حاصل نہ کرسکے۔ وہ اچھے ڈاکٹر ہیں، بہترین سرجن ہیں، اپنے کام میں بہت سے پروفیسروں سے آگے ہیں مگر شہرت، دولت، دونوں سے محروم ہیں۔ میں نے امی کی بھیجی ہوئی تصویر پر پھر نظر ڈالی، ٹیبل لیمپ جلا کر عذرا کو ایک بار پھر غور سے دیکھا۔ بہت سارے حروف آہستہ آہستہ حرکت کرنے لگے۔ جیسے سینمامیں ٹائٹل حرکت کرتا ہے۔ کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج۔ اسسٹنٹ پروفیسر آف میڈیسن۔ شہرت، دولت، بڑی سی کار بڑا سا مکان، گولف کلب، لاہور جمخانہ، مستقبل اپنے دامن میں بہت ساری آسائشیں لئے مسکرا رہا تھا۔ میں بے اختیار مسکرادیا۔ تصویر میں عذرا نہیں تھی، جنرل جمال اختر چوہدری تھے، جنرل جمال چوہدری نہیں تھے، شاندار جگمگاتا ہوا مسقبل تھا۔ میں نے مسحور ہوکر خط کو چوم لیا۔ میری امی، میری اچھی امی۔

امی نے لکھا تھا کہ جنرل صاحب کا ایک اپارٹمنٹ لندن میں بھی ہے اور آنے والی چھٹیوں پر عذرا اس اپارٹمنٹ میں ہی رہے گی۔ ان کا حکم تھا کہ میں ضرور اس سے مل لوں۔میں نے سوچا تھا کہ ضرور ملوں گا اور آنے والے خوش آئند دنوں کا سوچ کر میرا دل زور سے دھڑکا تھا۔

امی نے جنرل صاحب کے بنگلوں، زمینوں اور خاندانی کاروبار کا بھی ذکر کیا تھا۔ میں خود بھی جنرل صاحب اور ان کے خاندان سے مسحور سا ہوگیا تھا۔ مجھے ایسا لگا تھا جیسے میری گردن خودبخود تھوڑی سی اکڑگئی ہے۔ میرا دل چاہا کہ اڑتا ہوا لاہور پہنچ جاﺅں، اپنی امی کے پاس، اس شہر میں جو سارے جہان سے اچھا ہے، اپنے لوگوں کے درمیان جو سب لوگوں سے اچھے ہیں۔ ابھی دولہا بن جاﺅں اور لے آﺅں اپنی دولہن عذرا کو اپنے پروں میں چھپا کر۔

دوسرا خط رومان الرحمان کا تھا ڈھاکے سے۔ لفافے کے پیچھے کونے میں ہمیشہ کی طرح چھوٹا چھوٹا لکھا ہوا تھا۔ ”رومان، دھان منڈی۔“ میں بہت دنوں سے اس خط کا انتظار کررہا تھا۔ رومان میرا بہترین دوست تھا۔ پانچ سال کا طویل عرصہ ہم دونوں نے ساتھ گزارا تھا۔ میرا داخلہ ڈھاکہ میڈیکل کالج میں مغربی پاکستان کے کوٹے پر ہوا تھا اور پہلے دن سے ہی ہم لوگوں کی دوستی ہوگئی تھی۔ رومان دھان منڈی میں رہتا تھا۔ پہلے دن پہلی کلاس میں وہ میرے برابر بیٹھا ہوا تھا۔ کلاس شروع ہونے سے پہلے اس نے مجھ سے اردو میں پوچھا تھا ”کیا نام ہے آپ کا؟“ میں نے بتایا تھا ”وحید الرحمان۔“

ارے یہی تو میرے بڑے بھائی کا نام ہے۔“ پھر ہم لوگ دوست ہوگئے تھے۔ وہ بہت اچھی اردو بولتا تھا۔ پانچ سال کے عرصے میں ان گنت دفعہ اس کے گھر آیا گیا تھا۔ ہم دونوں ہاسٹل میں روم میٹ بن گئے تھے۔ کبھی مجھے پیسوں کی ضرورت پڑتی تھی تو اس سے لے لیتا تھا۔ جب لاہور چھٹیوں پر جاتا تو واپسی پر اس کے ماں باپ، بھائی بہن کے لئے ویسے ہی تحفے لے کر جاتا تھا جیسے ڈھاکے سے لاہور جاتے ہوئے ڈھاکے کی پنیر، ڈھاکے کی جانماز اور ڈھاکے کا پان اپنے گھر والوں کے لئے لے جاتا تھا۔ اس کا گھر مشرقی پاکستان میں میرا دوسرا گھر تھا۔ رومان کے ساتھ رہتے رہتے میں بنگلہ بولنے لگا تھا، اتنی ہی اچھی جتنی اچھی اردو بولتا تھا۔ اس کا خط بہت ساری پرانی یادیں سمیٹ کر لے آیا تھا۔ گزرا ہوا وقت کسی فلم کی طرح ذہن کے پروجیکٹر پر چلنے لگا۔ مجھے یاد آیا ایک دن رومان کہنے لگا کہ ”بندھو تم اردو اچھی بولتے ہو آج تم کو عجیب ہی اردو سناﺅں گا۔“ وہ مجھے پرانے ڈھاکے میں رشوملائی کھلانے لے گیا تھا۔ جیسے ہی اس چھوٹی سی دوکان میں ہم نے قدم رکھا ایک آواز آئی تھی۔

”ارے باہر رکشا کھڑس ہوگا۔ میاں جبار کھڑس کھڑس میرا شکل دیکھس، کب جاہس اور جاکر رکشا والے کو پیسہ دیدہس۔ دیکھس نہیں کہ ڈاکٹر لوگ اتادور سے اس دوکان میں آھس ہیں۔“

یہ ان لوگوں کی اردو تھی۔ پھر ہم لوگ اکثر کوشش کرتے تھے کہ کہس داہس آہس کرس کھاہس؟ کی طرح اردو بولیں، مگر رشوملائی جتنی میٹھی، جتنی اچھی تھی اس سے کہیں زیادہ یہ کٹی اردو مشکل تھی۔ ڈھاکہ، ڈھاکہ ہائے ڈھاکہ۔ اسی ڈھاکے سے بہت دنوں بعد رومان کا خط تھا۔ الیکشن کے فوراً بعد مجھے رومان کا خط ملا جس میں الیکشن کی تفصیلات تھیں۔ بہت سارے اندیشوں کا ذکر تھا۔ وہ بہت سارے لوگوں کی طرح گھبرایا ہوا تھا۔ میں نے اسے فوراً ہی جواب دے دیا تھا۔ پھر اس کا دوسرا خط آیا تھا جس میں منشی گنج اور نواکھلی میں بہاریوں کے قتل کی خبریں تھیں اور ڈھاکہ میں فسادات کی تھی۔ اس کا جواب بھی میں نے دے دیا تھا۔ پھر اس نے لکھا تھا کہ فوج آگئی ہے۔ ابھی سب کچھ ٹھیک ہے، مگر لگتا ہے بہت کچھ خراب ہوجائے گا۔ اس کا جواب بھی میں نے دیا تھا۔ پھر اس کا کوئی خط نہیں آیا تھا۔

پھر مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بن گیا۔ اس تمام عرصے میں ریڈیو، اخبار اور ٹیلی ویژن پر وہ سب کچھ میں نے دیکھ لیا تھا جو نہ دیکھنے کی تمنا تھی، نہ سکت، نہ حوصلہ مگر دیکھنا پڑگیا تھا۔ عوامی لیگ کے انسانوں کے سمندر جیسے جلسے، فسادات، آگ، انسانوں کا خون، بہاری عورتوں کا اغوا، اور کلکتے میں فروخت کی داستانیں، فوج کے ہاتھوں بنگالیوں کے قتل عام کے قصے، الشمس البدر کے ہاتھوں مرنے والے دانشوروں کے کٹے ہوئے سروں کے تصویر، مکتی باہنی کے ہاتھوں سے بنا ہوا خون کا دریا۔ بی بی سی کے کیمرے جذبات و احساسات سے عاری تھے اور وقت بھیانک خواب کی طرح گزرگیا تھا۔ اور اب رومان کا خط تھا، ویسا ہی ہمیشہ جیسا، لفافہ اسی شہر غدار کی مہر کے ساتھ، وہی تحریر تھی، صرف ٹکٹ بدل گئے تھے کیونکہ وقت بدل گیا تھا۔ مجھ میں ہمت نہیں تھی کہ لفافہ کھولوں، نہ جانے کیا لکھا ہوگا۔ کیسی باتیں ہوں گی، کس کے بارے میں کیا خبر ہوگی، بے قراری کے کیا کیا واقعات ہوں گے، شاید وحید بھائی کے قتل کی خبر ہو۔ شاید ان کا گھر بھی جل گیا ہوگا۔ دماغ کے کسی خانے میں لمحوں کے اندر ان گنت خدشے کلبلائے۔ اف خدایا! اتنے دنوں کے بعد وہ خط آیا جس کا انتظار تھا اور میں وہی خط کھولنے سے گھبرا رہا تھا۔

باقی تحریر پڑھنے کے لئے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیے

ڈاکٹر شیر شاہ سید
Latest posts by ڈاکٹر شیر شاہ سید (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2