درختوں کے دیوانے جرمن


سڑک کے بالکل وسط میں استادہ یہ چھوٹا سا درخت میرے گھر سے تقریبا دو سو میڑ دور ہے۔ چند برس پہلے جب میں اس علاقے میں شفٹ ہوا تھا تو یہ ایک چھوٹا سا، ننھا منھا سا پودا تھا۔ پہلی مرتبہ اسے دیکھ کر مجھے حیرانی ہوئی کہ صرف اس ایک چھوٹے سے پودے کے لیے سڑک کا رخ بائیں جانب موڑ دیا گیا ہے؟ ہر ڈرائیور کو یہاں گاڑی آہستہ کرنا پڑتی ہے، ٹریفک کی روانی متاثر ہوتی ہے، احتیاط سے گزرنا پڑتا ہے، خلل آتا ہے، یہاں پہلے ہی اتنے درخت ہیں، تو اس چھوٹے سے پودے کی حفاظت کے لیے اتنا انتظام کرنے کی کیا ضرورت ہے؟

ابھی چند ماہ پہلے یہ ہوا کہ قصبے کی ٹرین کی پٹڑی مرمت کے مرحلے سے گزر رہی تھی۔ شہری انتظامیہ نے اس سڑک سے متبادل بس گزارنے کا فیصلہ کیا لیکن راستے میں یہ پودا رکاوٹ تھا۔ دو محکموں کی میٹنگ ہوئی، فیصلہ ہوا اور ایک دن اس پودے کو یہاں سے اکھاڑ دیا گیا۔ اس کی جگہ تارکول اور بجری سے سڑک بنا دی گئی اور چند ہفتوں کے لیے بسوں کی آمدو رفت کا سلسلہ شروع ہو گیا۔

میں یہی سمجھا کہ انتظامیہ نے ماحولیاتی اور جنگلات کے تحفظ کے ادارے سے اجازت لے کر سڑک کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے سیدھا کر دیا ہے اور پودے کو کاٹ دیا ہے۔
ابھی چند ہفتے پہلے بہار کا آغاز ہوا تو شہری انتظامیہ دوبارہ سرگرم ہوئی، دوبارہ سڑک توڑی گئی، وہاں اس پودے کی دوبارہ جگہ بنائی گئی، گاڑیوں کے لیے دوبارہ سفید رنگ سے نئی لائنیں لگائیں اور دوبارہ پرانا پودا لا کر اسی مقام پر نصب کر دیا، جہاں یہ گزشتہ برس تھا۔
بظاہر شاید آپ کو یا مجھے یہ بیوقوفی لگے کہ صرف ایک چھوٹے سے درخت کے لیے اتنا بجٹ خرچ کرنا کہاں کی عقل مندی ہے؟

لیکن یقین جانیے عقل مندی یہی ہے۔ انتظامیہ نے وہاں کار پارکنگ بنا کر فیس وصول کرنے، سڑک بنانے اور توڑنے کے پیسے بچانے کی بجائے، اس چھوٹے سے پودے کو زندگی بخشنے کا فیصلہ کیا ہے۔ شہری انتظامیہ کو اچھی طرح معلوم ہے کہ موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے اس شہر کے بچوں کا مستقبل ان درختوں کی زندگی سے جڑا ہوا ہے۔ انتظامیہ کو پتا ہے کہ ماحول کا صاف رہنا انسانی صحت کے لیے کس قدر ضروری ہے اور درخت سانس کی کتنی بیماریاں ختم کریں گے، یہ وہ سرمایہ کاری ہے جس سے ہسپتالوں کا بوجھ کم ہوگا۔ یہ لوگ اس بات سے آگاہ ہیں کہ ایک دن یہ پودہ اس قصبے میں ایک گھنٹے کے دوران تقریبا ڈھائی کلوگرام کاربن ڈائی آکسائڈ کم اور بارہ سو لیٹر آکسیجن پیدا کرے گا۔

جرمنی کا بتیس فیصد حصہ درختوں سے ڈھکا ہوا ہے لیکن اس کے باوجود ہر سال درختوں کی حفاظت کے لیے نئے قوانین متعارف کروائے جا رہے ہیں، عملی طور پر جرمن حکومت اور عوام درختوں اور ان کے حقوق کے حوالے سے انتہائی حساس ہیں۔

اس بات کا اندازہ آپ اسی سے لگا لیجیے کہ جرمنی میں یکم مارچ سے تیس ستمبر تک درخت اور اس کی توانا ٹہنیاں کاٹنے پر پابندی ہے۔ اس دوران صرف مخصوص حالات میں ہی درخت کاٹنے کی اجازت دی جاتی ہے، مثال کے طور پر اگر کسی درخت کے گرنے یا ٹریفک میں خلل آنے کا قوی امکان ہو یا مکان کی تعمیر کا مسئلہ وغیرہ ہو۔

ان مہینوں میں اس وجہ سے درخت کاٹنے پر پابندی ہے کیوں کہ زیادہ تر پرندے اسی عرصے میں اپنی افزائش نسل کرتے ہیں، چڑیوں، فاختاؤں، دیگر پرندوں اور گلہریوں کے بچے وغیرہ بغیر کسی خطرے کے نشو ونما پا سکتے ہیں۔ ٹہنیوں پر لگنے والے پھولوں سے شہد کی مکھیوں اور ایکو سسٹم کا حصہ دیگر کیڑے مکڑوں کی زندگیاں جڑی ہوئی ہیں۔

اسی طرح اپنے ذاتی باغیچے میں بھی کوئی درخت کاٹنے سے پہلے شہری انتظامیہ سے اجازت لینا پڑتی ہے۔ معائنہ کرنے والی ٹیم پہلے یہ دیکھتی ہے کہ کاٹا جانے والا درخت کہیں اس فہرست میں تو شامل نہیں ہے، جن کا تحفظ ضروری ہے۔ اگر کسی درخت پر کسی پرندے کا گھونسلہ ہے تو وہ درخت کاٹنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ اسی طرح ایک مخصوص موٹائی اور لمبائی والے درخت نہیں کاٹے جا سکتے، چاہیے وہ آپ کے باغیچے میں ہی کیوں نہ ہوں۔

اس کے علاوہ سڑکوں اور کھلے مقامات پر لگے درختوں کو سب سے زیادہ تحفظ حاصل ہے۔ بغیر اجازت درخت کاٹنے والوں کو مختلف صوبوں میں مختلف جرمانہ کیا جاتا ہے۔ خلاف ورزی کرنے والے شخص کو دس ہزار یورو ( تقریبا تیرہ لاکھ روپے) تک جرمانہ ہو سکتا ہے۔ درختوں کی حوالے سے جرمنی میں درجنوں قوانین اور ان کی شقیں موجود ہیں، جن کے تحت یہ فیصلہ کیا جاتا ہے کہ کس نسل کا درخت کب، کیسے اور کس وقت کاٹا جا سکتا ہے۔

اسی طرح جنگل میں آگ جلانے پر تو سارا سال ہی پابندی ہے لیکن یکم مارچ سے تین اکتوبر تک سیگریٹ پینے کی اجازت بھی نہیں ہے۔
امی جی چند برس پہلے یہاں آئیں تو ہرے بھرے درخت دیکھ کر اور رنگ برنگے پرندوں کی آوازیں سن کر بہت خوش ہوئیں۔ پھر مجھے کہتیں کہ امتیاز ”یہاں پر اتنے پیارے اور ہرے بھرے (سنگھنے) درخت ہیں، ہوا چلتی ہے تو سکون آ جاتا ہے لیکن یہ انگریز درختوں کے نیچے چار پائیاں ڈال کر کیوں نہیں بیٹھتے؟ ‘‘

میں امی جی کی یہ بات سن کافی دیر مسکراتا رہا۔ پھر مجھے خیال آیا کہ یہ امی جی نے اپنی اس خواہش کا اظہار کیا ہے، جو اب وہ پاکستان میں پورا نہیں کر سکتیں۔ گھر کے صحن میں لگے بکائن اور نیم کے وہ درخت تو کب کے کٹ چکے ہیں، جن کے نیچے بیٹھ کر محلے کی خواتین ہاتھ سے بنے چھابے، پراندے اور سویاں بنایا کرتی تھیں۔

درختوں سے گھرا ہوا شہر برلن 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).