چوتھے صنعتی انقلاب کی دستک: کیا آپ تیار ہیں؟
ٹیکنالوجی اور معیشت ہم دم اور ہم قدم ہے- دونوں ایک دوسرے کی معاون اور مددگار ہیں- ہم عموما دیکھتے ہیں کہ جب معیشت عروج پر ہوتی ہے تو ٹیکنالوجیل ترقی بھی عروج پر ہوتی ہے اور جب معیشت کی رفتار دھیمی پڑتی ہے تو سائنس و ٹیکنالوجی میں نئے امکانات کے کھوج کی رفتار بھی سست پڑ جاتی ہے- ہم نے یہ سب گزشتہ مالیاتی بحران 2008 سے پہلے اور بعد میں اپنی آنکھوں سے دیکھا- اسی طرح سائنس و ٹیکنالوجی اور علوم و فنون کی دوڑ میں بھی وہی ممالک آگے ہیں جو معاشی ترقی کی دوڑ میں آگے ہیں-
قرائن بتاتے ہیں کہ ہم اس وقت ایک نئے ٹیکنالوجی کے انقلاب کے دہانے پر کھڑے ہیں جس نے ہمارے معیار زندگی، تصور خودی، ثقافت، معیشت اور سیاست سمیت زندگی کے ہر پہلو کو بدل دینا ہے-معیشت کی زبان میں ہم چوتھے صنعتی انقلاب میں داخل ہونے کو ہیں-
پہلا صنعتی انقلاب اٹھارویں صدی کے آخر میں اس وقت برپا ہوا جب ہم نے پانی اور بھاپ کی توانائی سے مشینوں کو چلانا سیکھا- اس وقت ہماری پیداواری قوت انتہائی کم تھی- جب ہم نے بجلی (الیکٹرک پاور) پیدا کر لی تب ہم بڑی بڑی مشینوں سے زیادہ پیداوار حاصل کرنے کے قابل ہوئے یوں ہماری معیشت میں یک لخت بہت زیادہ اضافہ ہوا- اسے دوسرا صنعتی انقلاب کہتے ہیں جس کا دورانیہ مؤرخین کے نزدیک انیسویں صدی کی آخری تہائی سے بیسویں صدی کی ابتداء تک ہے- تیسرے صنعتی انقلاب نے الیکٹرونکس اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کی مدد سے بیسویں صدی کی ابتداء میں جنم لیا جس سے جہاں معیشت زیادہ سے زیادہ گلوبلائزڈ ہوئی وہیں پیداوار میں بھی مزید اضافہ ہوا جس نے تمام ممالک بالخصوص ترقی یافتہ ممالک میں معیار زندگی کو بدل دیا- چوتھا صنعتی انقلاب جس کا ہم جلد سامنا کرنے والے ہیں وہ بائیولوجیکل، فزیکل اور ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کے ملاپ سے نئی کارآمد صنعتی ٹیکنالوجی کی شکل میں سامنے آ رہا ہے-
وجود میں آنے والی نئی ٹیکنالوجی پیداوار کے تمام روایتی طریقوں کو بدل رہی ہے- اس کا جنم پہلے والے صنعتی انقلابوں کی طرح اپنی بنیاد میں نہ خام سرمایہ پر ہے اور نہ ہی خام محنت پر، بلکہ اس کا جنم اپنی اساس میں علم بالخصوص سائنس و ٹیکنالوجی پر ہے جس میں سرمایہ و محنت نے ایک ناگزیر مددگار کا کردار ادا کیا ہے- یہی سبب ہے کہ آنے والے عہد میں وہ ممالک جن کی معیشت سرمایہ و لیبر (capital & labor intensive ) سے ترقی پا کر علم و تخلیق (Economy of Information ) پر منتقل ہو چکی ہے وہ اس کا زیادہ فائدہ اٹھائیں گے اور ترقی پزیر ممالک پھر پیچھے رہ جائیں گے جو ہنوز تخلیقی سرمایہ اور تخلیقی محنت سے مجموعی طور پر محروم ہیں-
سوال یہ ہے کہ وہ کون کون سے علوم ہیں جو اس صنعتی انقلاب کو جنم دے رہے ہیں ؟ وہ علوم ہیں : آرٹیفیشل انٹیلیجنس (مصنوعی مشینی ذہانت)، روبوٹ، انٹرنیٹ، خودکار گاڑیاں، 3D پرنٹنگ، بائیو ٹیکنالوجی، نینو ٹیکنالوجی، مٹیریل فزکس، توانائی کی سائنسز، کوانٹم مکینکس اور کوانٹم کمپیوٹرز وغیرہ- اگر ہم پاکستانی یہ جاننے میں متجسس ہیں کہ ہم اس صنعتی انقلاب کے بعد کہاں کھڑے ہوں گے تو ہمیں اول خود سے یہ سوال کرنا چاہئے کہ آخر ان علوم میں ہم کہاں کھڑے ہیں؟ تو جواب یہ ہے کہ ہم ہنوز اپنی ذہانت، ثقافت، معیشت اور سیاست میں پسماندہ ہیں- لگتا یہی ہے کہ ہم نے پچاس سال بعد بھی عالمی نظام کو گالیاں دینی ہیں جس نے بقول ہمارے، ہمیں محروم رکھا ہوا ہے ورنہ تو ہم سائنس و ٹیکنالوجی کے آغا وقار ہیں-
اس سے ہمارے جیسے ملک کے لئے جہاں لیبر فورس کی بہتات ہے، سب سے بڑا نقصان یہ بھی ہو گا کہ چونکہ مزدور کا کام اب مشینیں کریں گی یہاں تک کہ کلرکی بھی کوانٹم کمپیوٹنگ کی ٹیکنالوجی سے کمپیوٹر کریں گے تو ہماری اکثریتی آبادی بے روزگار رہے گی- تخلیقی ذہن کی مانگ ہو گی اور خام محنت کا کوئی وقار نہ ہو گا- سوال یہ ہے کہ کیا ہماری حکومتیں اس کے لئے تیار ہیں اور تعلیم و صحت کے لئے انقلابی اقدامات کئے جا رہے ہیں تو جواب نہیں میں ہے۔ ہم اپنی آنے والی نسل کو محروم چھوڑ جائیں گے جو ہماری طرح آوارہ بدزبان اور تنگ ذہن ہو گی- یہ ناکام ریاست کی وہ فصل ہے جو ہمارے بعد آنے والوں نے کاٹنی ہے- یاد رکھئے ایک طرف وہ ذہنی فرسٹریشن میں اپنے عہد کو گالی دیں گے تو دوسری طرف وہ ہمیں اپنے آباؤ اجداد کو گالیاں دیں گے جو بصیرت و بصارت سے محروم تھے-
اس چوتھے صنعتی انقلاب کی مزید جھلکیاں ملاحظہ فرمائیں-
گلوبلائزیشن میں مزید جدت آئے گی، ٹرانسپورٹ اور کمیونیکشن کی لاگت میں مجموعی طور پر کمی آئے گی، عالمی تجارت میں رکاوٹیں کمزور پڑ جائیں گی، لاجسٹکس اور \”گلوبل سپلائی چین\” سستی اور آسان ہو جائے گی- یہ جو آف شور سکینڈلز کا شور ہے اسی تناظر میں کل آئی ایم ایف کی چیئر پرسن کرسٹینا لیگارٹ نے کہا ہے کہ گلوبل ٹیکس نافذ کیا جائے تاکہ کوئی اپنی آمدن کو ٹیکس سے نہ بچا سکے- یہی گلوبل ٹیکس ہی عالمی تجارت میں رواج پائے گا-
حیران کن سیاسی تبدیلیاں وقوع پزیر ہوں گی جسے تاریخ کے وہ طالب علم اچھی طرح سمجھ سکتے ہیں جنہوں نے ورلڈ وار سے پہلے اور بعد کی دنیا کو تفصیل سے پڑھا ہے- اس وقت دنیا کے چالیس فیصد لوگ سوشل میڈیا استعمال کر رہے ہیں جس سے حکومتی پالیسیوں پر عوامی اثرورسوخ میں اضافہ ہو رہا ہے- اس سے ہمیں ایک دوسرے کے نقطہ نظر اور کلچر کو سمجھنے کا موقع مل رہا ہے- یوں ماہرین کے بقول انٹرنیٹ کی ٹیکنالوجی میں مزید اضافہ اور بہتری سے تمام ممالک میں جہاں ٹھوس جمہوری اقدار فروغ پائیں گی، وہیں اس کا بھی زیادہ امکان ہے کہ ریاستی ادارے ٹیکنالوجی کے استعمال سے شہریوں کی آزادی پر زیادہ سے زیادہ اثر انداز ہوں گے، جیسے سیکورٹی کے نام پر شہریوں کی ذاتی زندگی کی نگرانی- انسانی آزادیوں، مساوات، اور انصاف کے جہاں ان گنت زاویے ترقی پائیں گے وہیں ان میں نئے مسائل بھی جنم لیں گے اور عوام کی ریاست سے آرزوں میں تبدیلی آئے گی-
ماہرین کا کہنا ہے کہ اس سے نہ صرف ہماری روزمرہ کی سرگرمیاں بدل جائیں گی بلکہ اس سے ہمارے یہ تصورات بھی بدل جائیں گے کہ ہم کون ہیں؟ ہماری شناخت، نجی زندگی، تصور ملکیت، ہمارے خرچ، محنت اور فرصت کے اوقات، ہماری مہارتیں، روزگار، شہری زندگی، حلقہ احباب، خاندانی تعلقات اور اقدار سمیت ہر چیز بدل جائے گی جس کا مشاہدہ ہم نے ہر گزرتے صنعتی انقلاب کے دوران کیا-
ذیل میں ایک ویڈیو کا لنک دیا جارہا ہے جسے ورلڈ اکنامک فورم نے ترتیب دیا ہے- اسے دیکھیں سنیں اور مستقل کے چیلنجز کا سامنا کرنے کے لئے تیار رہیں۔ اس تحریر کی مدد سے تمام قارئین سے گزارش ہے کہ اپنے بچوں کو بہتر تعلیم دینا آپ کی لازمی ذمہ داری ہے- اگر یہ ذمہ داری بہتر انداز سے سرانجام نہ دی تو آپ کے بچے بہتر مستقبل کے امکانات سے محروم رہ جائیں گے- وقت کی دھار کو سمجھئے، بدلتی تاریخ کا مشاہدہ کیجئے اور اپنا لازمی کردار ادا کیجئے-
- حماس اسرائیل قضیے میں چند گزارشات - 19/05/2021
- مولانا طارق جمیل سے اختلاف کس بات کا ہے؟ - 03/05/2021
- کیا اسٹیٹ بنک کی آزادی ضروری تھی؟ - 28/03/2021
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).