“کھول دو” پر مقدمہ اس لئے چلا کیونکہ منٹو ڈپٹی کمشنر نہیں تھا


سعادت حسن منٹو کے افسانے “کھول دو” کا ذکر کیا جائے تو کچھ بندگان ریا پر قومی مفاد کی چادر دریدہ کی کوتاہ دامنی نیز تنگی چشم حسود کے باعث تشنج طاری ہو جاتا ہے۔ الزام لگایا جاتا ہے کہ منٹو نے مسلم لیگ کے شاہین بچوں اور راتوں رات تحریک پاکستان کے چھکڑے پر سوار ہونے والے موقع شناس کارکنوں کی کردار کشی کے لئے یہ افسانہ لکھا تھا۔ منٹو جیسے “ننگ ملت” کی تحریر کو اسی زاویے سے دیکھنا چاہیے۔ قدرت اللہ شہاب اور ان جیسے مشتے چند بندگان صدق و صفا کے بارے میں البتہ ایسا کوئی اشتباہ نہیں ہوتا۔ قدرت اللہ شہاب خوش نصیب تھے کہ دنیائے فانی کی نعمتوں سے کماحقہ شاد کام ہونے کے بعد طلاقت لسانی کے بل پر توشہ آخرت کا بھی اہتمام کر گئے۔ اتفاق سے قدرت اللہ شہاب کی خود نوشت سوانح میں ایک حصہ “ڈپٹی کمشنر کی ڈائری” کے نام سے شامل ہے۔ ذیل میں اسی کا ایک اقتباس پیش کیا جا رہا ہے۔ منٹو کی موت کے ٹھیک 50 برس بعد اکتوبر 2005 میں پاکستان میں قیامت خیز زلزلہ آیا۔ ہزاروں بندگان خاکی نے مٹی اوڑھ لی۔ اس دوران اپنے گھرانوں سے بچھڑنے والی سینکڑوں کم سن بچیوں پر ایک اور قیامت گزر گئی۔ کچھ تو دو برس بعد اسلام آباد کے ایک مدرسے سے برآمد ہوئیں اور بیشتر کے ساتھ مذہبی سیاست کے پردے میں سکول کالج چلانے والے بندگان ریا نے وہ معاملہ کیا جسے لکھنے کے لئے منٹو کا آہنی قلم چاہیے تھا۔ جز قیس اور کوئی نہ آیا بروئے کار۔۔۔ افسوس کہ 2005ء آتے آتے ہمارے درمیان کوئی منٹو تو کیا ہوتا، قدرت اللہ شہاب بھی باقی نہیں بچا تھا۔ تو چلیے، ڈپٹی کمشنر کی دبیز چرم ڈائری کا اقتباس ہی دیکھتے ہیں۔

٭٭٭     ٭٭٭

ایک روز ایک ملاقاتی آیا جس کا نام عبداللہ تھا آتے ہی اس نے زور سے السلام علیکم کہا اور بولا کسی نے بتایا کہ آپ بھی جموں کے رہنے والے ہیں ۔میرا بھی وہاں بسیرا تھا بس یونہی جی چاہا کہ اپنے شہر والے کے درشن کر آؤں اور کوٕئی کام نہیں ۔ میں نے اسے تپاک سے بٹھایا اور کرید کرید کر اس کا حال پوچھتا رہا جسے سن کر میں سر سے پاوں تک لرز گیا۔ جموں میں عبداللہ کوئی دکان تو نہیں تھی لیکن وہ اپنے گھر پر ہی رنگریزی کا کام کر کے گذر اوقات کیا کرتا تھا بیوی تین بیٹیوں کو چھوڑ کر فوت ہو گئی تھی 9 برس کی زہرہ، 12 برس کی عطیہ اور سولہ برس کی رشیدہ۔ اکتوبر 1947ء میں مہاراجہ ہری سنگھ نے اپنی ذاتی نگرانی میں جموں کے مسلمانوں کا قلع قمع کرنے کا پروگرام بنایا تو مسلمان خاندانوں کو پولیس لائن میں جمع کر کے اس بہانے بسوں اور ٹرکوں میں سوار کرادیا جاتا تھا کہ انہیں پاکستان میں سیالکوٹ کے بارڈر تک پہنچا دی جائے گا راستے میں راشٹریہ سیوک سنگ کے ڈوگرہ اور سکھ درندے بسوں کو روک لیتے تھے جوان لڑکیوں کو اغوا کرلیا جاتا جوان مردوں کو چن چن کر تہہ تیغ کر دیا جاتا اور بچے کچھے بچوں اور بوڑھوں کو پاکستان روانہ کردیا جاتا۔

جب یہ خبریں جموں شہر میں پھیلنا شروع ہوئیں تو عبدا للہ پریشان ہو کر پاگل سا ہو گیا اس کی زہرہ ، عطیہ اور رشیدہ پر بھی جوانی کے تازہ تازہ پھول کھل رھے تھے۔ عبداللہ کو یقین تھا کہ اگر وہ ان کو ساتھ لےکرکسی قافلے میں روانہ ہوا تو راستے میں اس کی تینوں بیٹیاں درندہ صفت ڈوگرہ جتھوں کے ہتھے چڑھ جائیں گی اپنے جگر گوشوں کو اس افتاد سے بچانے کے لیے عبداللہ نے اپنے دل میں پختہ منصوبہ تیار کر لیا نہا دھو کر مسجد میں کچھ نفل پڑھے قصاب کی دکان سے ایک تھز دھار چھری مانگ لایااور گھر آکر تینوں بیٹیوں کو عصمت کی حفاظت اور سنت ابراہیمی کے فضائل پر بڑا موقر وعظ دیا۔ زہرہ اور عطیہ کم عمر تھیں اور گڑیا گڑیا کھیلنے کی حد سے آگے نہ بڑھی تھیں وہ دونوں اپنے باپ کی باتوں میں آگئیں دلہنوں کی طرح سج دھج کر انہوں نے دودو نفل پڑھے اورپھر ہنسی خوشی دروازے کی دہلیز پر سر ٹکا کر لیٹ گئیں عبداللہ نے آنکھیں بند کئے بغیر اپنی چھری چلائی اور باری باری دونوں کا سر تن سے جدا کر دیا عجب اتفاق تھا کہ اس روز آسمان کے فرشتے بھی اس قربانی کے لیے دو دنبے لانے سے چوک گئے۔ چنانچہ دہلیز پر زہرہ اور عطیہ کی گردنیں کٹی پڑی تھیں کچے فرش پر گرم گرم خون کی دھار یں بہہ بہہ کر بیل بوٹے کاڑھ رہی تھیں کمرے کی فضا میں بھی ایک سوندھی سوندھی سی خوشبو رچی ہوئی تھی اور اب عبداللہ اپنے ہاتھ میں خون آشام چھری تھامے رشیدہ کو بلا رہا تھا لیکن رشیدہ اس کے قدموں میں گری کپکپا رہی تھی، تھر تھرا رہی تھی گڑگڑارہی تھی۔

اگر وہ پڑھی لکھی ہوتی تو بڑی آسانی ے اپنے باپ کو للکار سکتی تھی کہ میں کوئی پیغمبر زادی نہیں ہوں اور نہ تم کوئی پیغمبر ہو کیونکہ ہمارا دین تو صدیوں پہلے کامل ہو چکا ہے۔ پھر تمہیں کیا مصیبت پڑی ہے کہ خواہ مخواہ میری گردن کاٹ کر ادھوری سنتیں پوری کرو لیکن رشیدہ انجان تھی کم عقل تھی اور فصاحت و بلاغت کی ایسی تشبیہات اور تلمیحات استعمال کرنے سے قاصر تھی وہ محض عبداللہ کے قدموں پر سر رکھے بلک بلک کر رو رہی تھی ، ابا۔۔۔ابا۔۔۔ آپا ۔۔۔۔آپا۔۔۔۔ رشید کی گڑگڑاہٹ پر عبداللہ کے پاوٍں بھی ڈگمگا گئے اس نے چھری ہاتھ سے پھینک دی۔ بہروپیوں کی طرح اس نے رشیدہ کو ایک بد صورت سی بڑھیا میں ڈھال دیا اور کلمہ کا ورد کرتے ہوئے اسے ساتھ لے کر ٹرک میں بیٹھ گیا جب ٹرک والے نے قافلے کو سوچیت گڑھ اتارا اور وہ لوہے کا پھاٹک عبور کر کے پاکستان میں داخل ہو گئے تو یکایک عبداللہ کو زہرہ اور عطیہ کی یاد آئی جن کے سر جموں میں دروازے کی دہلیز پر کٹے ہوئے پڑے تھے اور جو پھٹی پھٹی منجمد آنکھوں سے چھت کی طرف دیکھتے دیکھتے دم توڑ گئی تھیں وہ کمر تھام کر سڑک کے کنارے بیٹھ گیا اور رشیدہ کو گلے سے لگائے دیر تک دھاڑیں مار مار کر روتا رہا۔

سیالکوٹ کے مہاجر کیمپ میں آکر رفتہ رفتہ رشیدہ کی زلفیں پھر لہرانے لگیں اس کی سرمگیں آنکھوں میں پھر وہی پرانی چمک جگمگانے لگی لیکن ہولے ہولے عبداللہ نے محسوس کیا کہ اس چمک میں جو شبنم کی سی تازگی اور ستاروں کی سی پاکیزگی جھلکا کرتی تھی وہ ماند پڑ رہی ہے اور ایک دن اس نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا کہ ناموس ملت کے جن انمول آبگینوں کو وہ ڈوگروں اور سکھوں کے نرغے سے بچا لایا تھا وہ خدا کی مملکت میں سر بازار بک رہے ہیں۔ آدھی آدھی رات گئے جب رشیدہ واپس آتی تو اس کا دامن پھلوں مٹھائیوں رنگ برنگ کپڑوں پاوٍڈر اور کریم وغیرہ کے خوبصورت پیکٹوں سے بھرا ہوتا تھا۔ عبداللہ غضبناک ہو کر اسے مارتا پیٹتا اور رشیدہ کو پچھاڑ کر اس کا گلا گھونٹنے لگتا۔ جب رشیدہ کا سانس اکھڑنے لگتا اور اس کی آنکھیں باہر نکلنے لگتیں تو اچانک اسے جموں کی وہ خون آلود دہلیز یاد آجاتی جس پر وہ زہرہ اور عطیہ کی بے نور آنکھوں کو چھت کی طرف گھورتے چھوڑ آیا تھا۔ عبداللہ کے ہاتھ رعشہ کھا کر لرز اٹھتے۔ اس کا سر لٹو کی طرح اس کی گردن پر گھومنے لگتا اور وہ رشیدہ کو چھوڑ کر کیمپ کے دوسرے کنارے پر بیٹھا ساری رات روتا رہتا۔

ایک روز رشیدہ نے ترس کھا کر خود ھی اپنے باپ کو روز روز کی اذیت سے نجات دے دی ا س نے کیمپ چھوڑ دیا اور راتوں رات کسی کے ساتھ فرار ہو کر نجانے کہاں غائب ہو گئی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).