خیبر پختونخوا کا مردان میں ایک مثالی جیل خانہ


جیل چلیں؟ او بھائی خیر تو ہے، جیل بھی کوئی جانے کی جگہ ہے۔ یہ وہ عام تاثرات ہیں جو کہ جیل کے بارے میں عام سننے میں آتے ہیں۔

جیل، ایک ایسی جگہ جہاں کوئی بھی نہیں جانا چاہتا کیونکہ ہمیں یہی دیکھایا اور سنایا جاتا ہے کہ جیل میں قیدی چکی چلاتے ہیں اور پتھر بھی توڑتے ہیں۔ جب بھی بچے پر گھر میں والدین کوئی پابندی لگاتے ہیں تو ان کا پہلا جملہ یہ ہوتا ہے کہ
”گھر کو بھی جیل بنایا ہوا ہے“
لیکن ہماری خام خیالی اور حقیقت میں کتنا فرق ہے یہ جاننے کے لیے مجھے سینٹرل جیل مردان جانا پڑا۔

پشاور کے بعد مردان خیبر پختونخواہ کا دوسرا بڑا شہر ہے جہاں پر رقبے اور قیدیوں کی گنجائش کے لحاظ سے صوبے کی سب سے بڑی جیل ہے۔ اس جیل میں خواتین قیدیوں، نا بالغ لڑکوں اور مردوں سمیت تقریبا 1720 کے قریب قیدی رہتے ہیں جن کے لیے الگ الگ حصے مختص ہیں۔ خواتین کے بیریکس میں کچھ قیدیوں کے ساتھ ان کے بچے بھی رہاۂش پذیر ہیں۔
جیل میں نا بالغ لڑکوں کے احاطے میں داخل ہوتے ہی لگا کہ کسی سکول کء کلاس میں داخل ہو گئے ہوں چونکہ دو کلاس روم میں لڑکے ایسے ہی پڑھ رہے تھے جیسے کہ ایک سکول یا کالج میں پڑھتے ہیں۔

ان نابالغ لڑکوں کو پڑھانے کے لیے دو استاتذہ تعینات تھے جو کہ خود بھی قیدی تھے لیکن تعلیم یافتہ ہونے کی وجہ سے وہ جیل کے اندر اپنے باقی دوستوں کو پڑھاتے تھے۔ کچھ لمحے ان کے ساتھ گزارنے سے پتہ چلا کہ یہاں کوئی جیل والی فیلنگ نہیں تو آگے بڑھنے کا سوچا اور ان کے سونے کی جگہ جیسے ”بیرک“ کہتے ہیں وہاں اس خیال سے پہنچی کہ یہاں پر نا ان قیدیوں کے پاس بستر ہوگا نا کمبل، نا لاۂٹ اور نا ہی تکیہ۔

بیرک میں داخل ہوتے ہی لگا کہ میں کسی ہاسٹل کے کمرے میں داخل ہوگئی ہوں کیونکہ پہلی نظر جس قیدی پر پڑھی اور ایک پاؤں دوسرے پاؤں پر ڈال کر اپنی دھن میں مست چائے پی رہا تھا۔

مضمون کا بقیہ حصہ پڑھنے کے لئے “اگلا صفحہ” کا بٹن دبائیں

سبا رحمان

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3

سبا رحمان

سبا رحمان مومند ایک فوٹو جرنلسٹ ہیں اور اور اس وقت پورے فاٹا اور صوبہ خیبر پختنخواہ سے وہ واحد ایک لڑکی فوٹو جرنلسٹ ہیں جو کہ فوٹو جرنلزم جیسے شعبے سے وابستہ ہیں اور انہوں نے اپنی یہ تعلیم نیشنل جیوگرافک کے ہیڈ کواٹر واشنگٹن ڈی سی امریکہ میں ماہر فوٹو جرنلسٹ سے حاصل کی۔ نیشنل جیوگرافک کے ماہر فوٹو جرنلسٹ کے ساتھ پاکستان اور امریکہ دونوں جگہوں پر کام بھی کیا۔ انہوں نے پشاور یونیورسٹی سے شعبہ صحافت میں ماسٹر کی ڈگری حاصل کی اوراپنے صحافتی کیرئیر کا آغاز لندن کے ریڈیو بی بی سی اردو سے کیا۔ وہ آج کل بھی بی بی سی اردو، ٹی آر ٹی ورلڈ اور عرب نیوز کے لیے فری لانس فوٹو جرنلسٹ کے طور پہ کام کرتی ۔

saba-rahman-momand has 5 posts and counting.See all posts by saba-rahman-momand