فوج مخالف کون ہوتے ہیں؟


ظاہر ہے کہ فوج جن کے خلاف نبرد آزما ہوگی وہی فوج مخالف عناصر ہوں گے جیسے تحریک طالبان پاکستان فوج کی مخالف تھی اور ہے یا جیسے داعش اور اور دوسری جنگجو تنظیمیں شامی فوج کی مخالف ہیں۔ یہ بھی ہوتا ہے کہ جہاں کے لوگ علیحدگی پسند یا ان کے خیال میں آزادی خواہ تنظیموں کو حق بجانب سمجھتے ہوں تو ان تنظیموں کے اراکین کے خلاف کارروائی کرنے والی فوج کی مخالف ہو جاتے ہیں جیسے مقبوضہ کشمیر کے بیشتر عوام ہندوستانی فوج کے مخالف ہیں۔ اسی طرح فلسطینی اسرائیل کی فوج سے نفرت کرتے ہیں۔

فوج پر تنقید کرنے والا کسی طور فوج مخالف کہنے کا سزاوار نہیں ہو سکتا۔ اگر عائشہ صدیقہ پاکستانی فوج کے کاروبار میں ملوث ہونے کو فوج کے حقیقی کردار سے روگردانی قرار دیتی ہیں تو وہ فوج کے خلاف نہیں بلکہ فوج کے اس عمل کی مخالف ہیں جو ان کے خیال میں فوج کے لیے نامناسب ہے۔ مارشل لاء کو جمہوریت دشمنی قرار دینے والے لوگ ہر ملک بشمول پاکستان میں اکثریت میں ہوتے ہیں، وہ فوج مخالف نہیں ہوتے بلکہ فوج کی ہئیت مقتدرہ کی غیر آئینی سرگرمی کے مخالف ہوتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو مارشل لاء حکام تو سزا دے سکتے ہیں اور دیتے بھی ہیں مگر سول عدالتیں اس رویے کو جرم نہیں سمجھتیں، چنانچہ سزا بھی نہیں دیتیں۔ یہ اور بات ہے کہ فوجی حکام آئین میں ترمیم کا کوئی آرڈیننس جاری کرکے عدالت کو ایسا کرنے پر مجبور نہ کر دیں مگر قوانین میں ایسے آرڈیننس کو عدالتوں کی جانب سے رد کیے جانے کی گنجائش ہوتی ہے یا کم از کم باحمیت عدلیہ ایسے کسی عمل کی راہ میں دیوار بن سکتی ہے۔ ایسا ایک بار پاکستان میں ہو چکا ہے۔

پھر ایسا کیوں ہے کہ کچھ ملکوں بشمول پاکستان میں فوج پر تنقید کرنے والوں کو ”فوج مخالف“ کہا اور سمجھا جاتا ہے۔ آسان سا جواب تو یہ ہے کہ بار بار مارشل لاء لگائے جانے کے سبب ایسا ”مائنڈسیٹ“ بن گیا ہوا ہے لیکن ایسا نہیں ہے۔ ایک مثال لے لیجیے کہ پچھلے دنوں ایک خود رو تحریک میں شامل لوگوں نے نعرہ لگایا ” یہ جو دہشت گردی ہے، اس کے پیچھے وردی ہے“۔ اگرچہ یہ نعرہ نیا نہیں مگر موجودہ حالات میں جب فوج ضرب عضب کے تحت دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کیے چلی جا رہی ہے یہ نعرہ کچھ متضاد لگا۔ وجہ یہ ہے کہ نعرہ وضاحت نہیں ہوتا۔ اگر نعرے لگانے کی بجائے جلسوں میں یا ابلاغ کے دوسرے ذرائع کے توسط سے جو آج مین میڈیا کے علاوہ بھی دستیاب ہیں، وضاحت کی جائے کہ افغانستان میں سوویت یونین کے خلاف امریکہ کی ”پراکسی وار“ کے دوران دہشت گردوں کی، جنہیں تب آزادی خواہ جہادی کہا جاتا تھا، پاکستانی فوج کی اشرافیہ نے کس طرح ان کی حمایت کی تھی تو نعرہ لگانے کی ضرورت نہیں رہتی جبکہ آج پاکستان کی فوج خود اس عمل کو غلطی قرار دے چکی ہے اور وہ بھی سر عام۔

تو ہر ایسے شخص کو جو فوج پر تنقید کرتا ہو ”فوج مخالف“ قرار دینا درحقیقت اس ان لکھی پالیسی کا حصہ ہوتا ہے جس میں فوج کو کسی وقت بھی اقتدار ہاتھ میں لے لینے یا بالواسطہ اقتدار پر اثر انداز ہونے کی گنجائش بحال رکھی جانی ہوتی ہے۔ اس طرح کی ایک ” ان لکھی“ بندش کو میڈیا کی زبان میں ”سیلف سنسر شپ ” کا نام دیا جاتا ہے۔ اسے میڈیا کے کارپردازان منجملہ مدیران و صحافی احتیاط سمجھتے ہوں گے مگر درحقیقت یہ ایک پوشیدہ خوف ہوتا ہے ملازمت چھن جانے سے لے کر کسی مصیبت میں گرفتار ہو جانے تک کا۔ یہ سمجھنے کے لیے کہ ایسا کیوں ہوتا ہے آپ کو سیگمنڈ فرائڈ ہونے کی ضرورت نہیں ہوتی۔

ایک اور مثال لیجیے۔ ہمارے ہاں فوج کا شعبہ تعلقات عامہ دھڑا دھڑ خبریں اور تصویریں نشر کرتا ہے جو چینلوں اور اخباروں پر فوری نمایاں مقام پاتی ہیں۔ روس کی فوج کا بھی شعبہ تعلقات عامہ ہے جو شام کی جنگ سے متعلق اپ ٹو ڈیٹ کرتا ہے۔ متعلقہ شعبے کا سربراہ مین سرکاری چینل پر آ کے ملک شام میں کی جانے والی کارروائیوں کی جزئیات تک بتاتا ہے۔ ویسے بھی جنگ کے دوران خبر پر فوج کا حق ہوتا ہے۔

پاکستان آرمی کے چیف جنرل باجوہ روس کے سہ روزہ سرکاری دورے پر تھے۔ یہاں ان کی روس کے اعلٰی فوجی حکام بشمول بری فوج کے سربراہ کرنل جنرل اولیگ سالیکوو اور چیئرمین جوائینٹ آرمی کرنل جنرل ولیری گیرا اسیموو سے ملاقاتیں ہوئیں مگر اس بارے میں کسی روسی چینل پر نہ تو کوئی خبر تھی نہ ہی کوئی تصویر۔

تاس روس کی پرانی اور مستند نیوز ایجنسی ہے۔ آپ بھی دیکھ سکتے ہیں tass.ru۔ اس کے متعلقہ اخباری مندرجات میں ملکی، بین الاقوامی، معیشت وغیرہ کے خانوں کے ساتھ ایک خانہ Армия یعنی آرمی بھی ہے۔ میں نے کل یعنی 25 اپریل کی شام اس خانے کو کلک کیا۔ فوج سے متعلق خبروں میں روس کے وزیر دفاع جنرل شائیگو کی سرگرمیوں اور اہم عسکری تعیناتیوں کی خبروں کے علاوہ ایسی کوئی خبر نہیں تھی جس میں جنرل باجوہ کے دورہ روس کا ذکر ہو۔ اسی حصے کے بائیں جانب فوج سے متعلق تمام گذشتہ خبریں ہوتی ہیں۔ سکرول کیا، گذشتہ پیر کے روز تک کی خبریں دیکھیں۔ مطلوبہ خبر نہیں مل پائی۔

ایسا کیوں؟ بھائیو، فوجی سربراہوں کی ملاقاتیں بہت اہم ہوتی ہیں مگر اس سے متعلق خبر اہم نہیں ہوتی جبکہ پاکستان کے چینل چیخ چیخ کر اس دورے سے متعلق ISPR کی دی گئی خبریں نشر کر رہے تھے۔ یہ ہوتا ہے فرق ایک جمہوریت کی جانب گامزن ملک کے میڈیا کا جمہوریت کے بارے میں متذبذب ملک میں۔ اس تذبذب کی وجہ جاننے کے لیے بھی آپ کو ماہر عمرانیات ہونا درکار نہیں۔

اب ایسے رویوں کو اگر قابل مذمت گردانا جائے تو فوج میں اور فوج سے باہر موجود ”شاہین“ مذمت کرنے والوں جن میں لامحالہ میں بھی شامل کیا جاؤں گا بلا جھجھک ”فوج مخالف“ قرار دے ڈالیں گے۔ عام لوگ بیچارے جمہوریت سے وابستہ سیاست دانوں کو ”بدعنوان جمہوری عناصر“ خیال کرتے ہیں وہ تو کراچی کے عام سماجی معاملات کو حل کروانے کی خاطر بھی کراچی کو فوج کے تحت کر دیے جانے کا مشورہ دیتے ہیں، یہ جانے بغیر کہ فوج کی ضرورت مشرقی اور مغربی سرحد پر زیادہ ہے، اس لئے وہ ”شاہینوں“ کی کہی بات کو سچ جان کر مجھ ایسوں کے پیچھے ڈنڈا بلکہ بھالا لے کر پڑ جائیں گے۔ وہ کریں بھی تو کیا کریں انہیں تو ”شکریہ راحیل شریف“ یا ” آپ کی ضرورت ہے“ کے بینر لگانے پر لگایا ہوا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).