خواجہ آصف کی نااہلی اور الزامات کا شدید موسم


سپریم کورٹ کی طرف سے سابق وزیر اعظم نواز شریف کے علاوہ مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر نہال ہاشمی اور پاکستان تحریک انصاف کے سابق جنرل سیکرٹری اور قومی اسمبلی کے رکن جہانگیر ترین کی نااہلی کے فیصلوں کے بعد اب اسلام آباد ہائی کورٹ نے ملک کے وزیر داخلہ ، مسلم لیگ (ن) کے ممتاز رہنما اور نواز شریف کے قریب ترین ساتھی خواجہ آصف کو بھی قومی اسمبلی کی نشست سے نااہل قرار دیتے ہوئے منتخب ارکان اور حکومت کے اعلیٰ عہدوں پر فائز لوگوں کو نااہل قرار دینے کی روایت کو آگے بڑھایا ہے۔ گزشتہ ایک سال کے دوران عدالتیں ملک کے وزیر اعظم اور وزیر خارجہ سمیت چار اراکین پارلیمنٹ کو نااہل قرار دے چکی ہیں اور ان میں سے ایک کے سوا سارے فیصلے آئین کی شق 62 ون ایف کے تحت کئے گئے ہیں۔ سینیٹر نہال ہاشمی کو توہین عدالت پر سزا ملنے کی وجہ سے اپنی نشست سے محروم ہونا پڑا تھا ، اس لئے ان کا معاملہ سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی سے مماثلت رکھتا ہے جنہیں سوٹزرلینڈ حکومت کو اس وقت کے صدر آصف زرداری کے خلاف خط نہ لکھنے کے الزام میں توہین عدالت کا مرتکب قرار دیا گیا تھا۔ ان فیصلوں پر ملک کے عوام اور تاریخ کے فیصلے تو بعد میں آئیں گے لیکن فوری طور پر یہ بات واضح ہوئی ہے کہ اس وقت ملک کے آئین میں منتخب ارکان اسمبلی کے اخلاق کو پرکھنے کے لئے جو معیار مقرر ہے، اس کے ہوتے اور عدالتوں کی طرف سے واضح قانونی حکمت عملی اختیار کئے جانے کے بعد یہ طے ہو گیا ہے کہ جب تک پارلیمنٹ ان متنازعہ آئینی شقات کو ختم نہیں کرتی اور ’صادق و امین‘ کے بارے میں سپریم کورٹ کی مخصوص سخت تشریح موجود ہے، ملک کی کسی بھی عدالت اور عدالتی بنچ کے پاس شکایت سامنے آنے کی صورت میں متعلقہ رکن کو نااہل قرار دینے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہو گا۔

مریم نواز سمیت مسلم لیگ (ن) کے رہنماؤں نے اس فیصلہ کو ایک سوچی سمجھی سازش قرار دیتے ہوئے اگرچہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلہ کو ہدف تنقید بنایا ہے لیکن درحقیقت سپریم کورٹ کی وضاحت اور پاناما کیس میں نواز شریف کے خلاف فیصلہ اور پھر آئینی شق 62 ون ایف کے تحت نااہلی کی مدت کا تعین کرنے کی درخواستوں پر فیصلہ میں اس نااہلی کو تاحیات قرار دینے کے بعد، کسی زیریں عدالت کے پاس کوئی دوسرا فیصلہ دینے کی گنجائش موجود نہیں تھی۔ یہ بات بھی نوٹ کرنے کی ضرورت ہے کہ پاناما کیس کی سماعت پاکستان تحریک انصاف کی پیٹیشن پر شروع کی گئی تھی لیکن بعد میں عدالت نے از خود نوٹس کی شق 184 (3) کو بھی اس معاملہ میں متعارف کروادیا تھا۔ اس طرح سپریم کورٹ نے بنیادی حقوق کے تحت حاصل اختیارات کو استعمال میں لاتے ہوئے ملک کے وزیر اعظم کو نااہل قرار دیا۔ اس بات کا فیصلہ آنے والا کوئی فیصلہ یا پارلیمنٹ کی طرف سے آئینی شقات پر نظر ثانی اور ترمیم کے ذریعے ہی ہو سکے گا کہ یہ فیصلہ کس حد تک درست تھا اور سپریم کورٹ نے ملک کے وزیر اعظم کو نااہل قرار دینے کے لئے کسی مقدمہ میں انہیں قصور وار ٹھہرائے جانے سے پہلے ہی ، عہدے سے معزول کرنے کے لئے بنیادی حقوق کا تحفظ کرنے کے اختیار کو استعمال کرتے ہوئے کس حد تک صائب اقدام کیا تھا۔ لیکن جب تک یہ فیصلہ برقرار ہے، اسے قانونی لحاظ سے کمزور یا سیاسی لحاظ سے متعصبانہ تو کہا جاسکتا ہے لیکن اس کے نفاذ کو روکنا ممکن نہیں ہے۔ اس لئے جو زبانیں آج اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلہ پر تند و تیز بیان جاری کرتے ہوئے اسے ’فکسڈ میچ‘ قرار دینے پر اصرار کررہی ہیں، انہیں ہائی کورٹ کے دلائل اور اس تبصرہ پر بھی غور کرنا چاہئے کہ اگر سیاست دان پار لیمنٹ میں اس قسم کے امور طے نہیں کریں گے اور ان کے بارے میں عدالتوں سے رجوع کیا جائے گا اور ان سے فیصلے مانگیں جائیں گے تو عدالتیں قانون کے مطابق ہی فیصلہ کرنے پر مجبور ہوں گی۔

خواجہ آصف نے اس فیصلہ کے خلاف سپریم کورٹ جانے کا عندیہ دیا ہے لیکن اس قانونی جنگ میں انہیں موجودہ سپریم کورٹ سے ریلیف ملنے کا کوئی امکان نہیں ہے۔ اس لئے گزشتہ برسوں کے دوران اہم ترین عہدوں پر فائز رہنے والا شخص فی الحال تاحیات نااہل تصور ہو گا کیوں کہ سپریم کورٹ طے کرچکی ہے کہ شق 62 ون ایف کے تحت نااہلی تاحیات ہے۔ ایسا شخص نہ صرف یہ کہ کسی اسمبلی کا رکن منتخب نہیں ہو سکتا بلکہ وہ کسی سیاسی جماعت کے عہدہ پر بھی فائز نہیں ہو سکتا۔ نواز شریف کو مسلم لیگ (ن) کی صدارت سے علیحدہ کرنے کا حکم دے کر سپریم کورٹ نےشق 62 ون ایف کی سخت ترین توجیہ کی ہے۔ عدالت عظمیٰ متاثرہ شخص کو تاحیات ’کاذب اور بد دیانت‘ تسلیم کرنے پر اصرار کرچکی ہے۔ اس پہلو سے قطع نظر خواجہ آصف کے خلاف اسلام آباد ہائی کورٹ کا فیصلہ اس لحاظ سے بھی اہم اور قابل غور ہے کہ عدالت کے خیال میں استغاثہ کا یہ دعویٰ ثابت ہو گیا ہے کہ خواجہ آصف نے جان بوجھ کر خلیجی ریاست کے اقامہ کا معاملہ خفیہ رکھا بلکہ انہوں نے جس کمپنی سے اقامہ حاصل کیا تھا، وہ بطور وزیر عہدے کا حلف اٹھانے کے باوجود اس کمپنی کے لئے مشاورت کے فرائض ادا کرتے رہے تھے۔ ان کا یہ طریقہ وزیر کے طور پر حلف کی خلاف ورزی بھی شمار ہوتا ہے۔ عدالت نے واضح کیا ہے کہ اس طرح ’مفادات کے ٹکراؤ‘ کی صورت حال کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کا یہ فیصلہ اس لحاظ سے چشم کشا ہونا چاہئے کہ ملک کی اہم سیاسی جماعت نے اپنے نمائیندوں کا انتخاب کرتے ہوئے اور کابینہ کی تشکیل میں ان بے قاعدگیوں پر غور کرنے کی زحمت نہیں کی تھی جو پہلے وزارت دفاع اور پانی و بجلی ، پھر وزارت خارجہ کے اہم منصب پر فائز رہنے والے شخص سے مرتکب ہوئی تھیں۔ اس لئے موجودہ فیصلہ کو صرف ’عدالتی انتقام ‘یا ’سازش ‘ سے تعبیر کرکے نظر انداز کرنا مناسب نہیں ہو گا بلکہ مسلم لیگ (ن) سمیت سب سیاسی جماعتوں کو اپنے وفاداروں کا انتخاب کرتے وقت ان کی سرگرمیوں پر بھی نظر ڈالنی چاہئے۔ خواجہ آصف کا یہ مؤقف درست ہو سکتا ہے کہ انہوں نے 2013 کے انتخاب میں کاغذات نامزدگی میں اپنا وہ پاسپورٹ جمع کروایا تھا جس پر اقامہ لگا ہؤا تھا۔ عدالت نے اس مؤقف کو یہ کہہ کر مسترد کیا ہے کہ اس سے ان کی نیک نیتی واضح نہیں ہوتی۔ بطور تجربہ کار سیاست دان اور قانون دان ، انہیں واضح طور سے یہ بتانا چاہئے تھا کہ وہ ایک غیر ملکی کمپنی کے لئے کام کرتے ہیں۔ اسی طرح وہ اس تنخواہ کا بھی مکمل حساب دینے میں ناکام رہے ہیں جو وہ متعلقہ کمپنی سے وصول کرتے رہے ہیں۔

خواجہ آصف کے معاملہ میں سامنے آنئے والی معلومات ایک سنجیدہ اور سنگین پہلو کی طرف اشارہ کرتی ہیں۔ ملک کے اہم عہدوں پر فائز ہونے والے افراد کے پاس ملک و قوم کے اہم راز ہوتے ہیں۔ اگر وزیر کے طور پر کام کرنے والا کوئی شخص اس حساسیت کا خیال رکھنے میں ناکام رہتا ہے تو اسے اہم حکومتی عہدہ کی ذمہ داری نہیں سونپی جاسکتی۔ تاہم اس اصول کا اطلاق صرف سیاسی عہدیداروں پر ہی نہیں ہو نا چاہئے بلکہ فوج یا دیگر اہم سرکاری عہدوں سے ریٹائیر ہونے والے افسران کی عہدوں سے علیحدگی کے بعد سرگرمیوں کے بارے میں بھی خاص طور نظر رکھنے اور اس بات کو یقینی بنانے کی ضرورت ہے کہ وہ قرنطینہ کی قانونی مدت پوری ہونے سے پہلے اندرون یا بیرن ملک کسی ایسے عہدے پر کام نہ کریں جس سے ان کی سرکاری حیثیت میں کام کے دوران حاصل ہونے والی معلومات کے غیر متعلقہ ہاتھوں تک جانے یا ان کے غلط استعمال کا اندیشہ موجود ہو۔

اس حوالے سے سابق آرمی چیف جنرل (ر) راحیل شریف کا معاملہ کلیدی اہمیت کا حامل ہے جس پر ابھی تک نہ تو کھل کر بات کی گئی ہے اور نہ ہی کسی انتظامی ادارے یا عدالت نے غور اور رہنمائی کرنے کی ضرورت محسوس کی ہے۔ وہ 29 نومبر 2016 کو فوج کے سربراہ کی حیثیت سے سبکدوش ہوئے اور صرف چھ ماہ بعد 29 مئی 2017 کو سعودی عرب کی سرپرستی میں بننے والے اسلامی فوجی اتحاد کے کمانڈر انچیف مقرر کردیئے گئے۔ اس عہدہ پر تعیناتی سے پہلے وہ سعودی شاہی خاندان سے ملاقاتوں کے لئے متعدد بار سعودی عرب کے دورے پر گئے اور اعلیٰ سطح پر ملاقاتوں میں شریک ہوئے۔ انہیں حکومت نے سعودی عرب کی درخواست پر اس عہدہ پر کام کرنے کی خصوصی اجازت دی تھی لیکن قومی اسمبلی میں کبھی اس بات پر بحث نہیں ہو سکی کہ فوج کے سابق سربراہ کی خدمات دو سال کی مدت پوری ہونے سے پہلے ہی ایک دوسرے ملک میں فوجی خدمات کے لئے کیوں فراہم کردی گئیں اور کیا اس طرح ملک کی حساس عسکری معلومات کو اندیشہ لاحق نہیں ہؤا۔ بطور آرمی چیف جنرل راحیل شریف سعودی عرب سے براہ راست رابطہ میں رہے تھے۔ اس لئے یہ جاننے کی بھی ضرورت ہے کہ کیا انہوں نے پاکستانی فوج کے اعلیٰ ترین عہدہ پر فائز ہونے کے دوران ہی سعودی عرب میں اعلیٰ عہدہ حاصل کرنے کی کوششیں شروع کردی تھیں۔

پاکستان ایٹمی صلاحیت سے لیس ایک اہم ملک ہے اور اس کی فوج کو خطے میں اہمیت اور وقار حاصل ہے۔ اس کے سربراہ سے عہدہ پر فائز رہنے کے دوران اور بعد میں بھی انتہائی ذمہ داری اور اخفائے راز کی توقع کی جاتی ہے۔ لیکن اگر کوئی آرمی چیف ذاتی حیثیت میں عہدہ حاصل کرنے کی عجلت میں ہو تو حکومت پر یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ اس معاملہ میں سخت رویہ اختیار کرے اور اندرونی مصلحت یا بیرنی دباؤ کے باوجود ایسے شخص کی خدمات کسی دوسرے ملک کے حوالے کرنے سے گریز کیا جائے۔ اصولی طور پر تو فوج کے سربراہ اور دیگر کلیدی عہدوں پر فائز رہنے والے افراد پر بیرون ملک کسی عہدہ پر کام کرنے کے حوالے سے زیادہ مدت کی پابندی عائد کرنے کی ضرورت ہے۔ حکومت اگر خواجہ آصف کے متعلق اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلہ میں سامنے آنے والے اصول کی روشنی میں جنرل (ر) راحیل شریف کے معاملہ پر غور کرے اور کسی نتیجہ پر پہنچ سکے تو مستقبل میں اس تضاد سے نکلنے کا راستہ تلاش کیا جاسکتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2772 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali