”بولی وڈ‘‘ میں معذوری کے موضوع سے متعلق بننے والی چند فلموں کا ذکر


کچھ دہائیوں قبل جب میں اپنے رشتہ داروں سے ملنے انڈیا گئی تو یہ منظر میرے لئے خوشگوار حیرت کا باعث تھا کہ جب لوگ صبح 8 بجے بڑے جوش و خروش سے سینما ہالوں کا رخ کرتے کیونکہ یہی وہ زمانہ تھا کہ جب آمریت کے نمائندہ ضیاء الحق نے اسلام کا بول بالا کرنے کا آہنی عزم کیا تھا اور پاکستانی فلمی صنعت انحطاط پذیر تھی۔ اسٹوڈیوز میں الو بولنے لگے تھے اور اس صنعت سے وابستہ لوگ بیروزگاری کا شکار تھے۔ ہندوستان میں بہرحال فلموں کا بول بالا رہا۔

ہندوستانی فلمی صنعت ”بولی وڈ‘‘ دنیا کی سب سے بڑی فلمی صنعت کا درجہ رکھتی ہے جہاں سالانہ ایک ہزار سے زیادہ فلمیں تیار ہوتی ہیں۔ ان فلموں میں حقیقی اور تصوراتی دنیا کے مابین ناچ گانے اور دوسرے فنونِ لطیفہ کے بھرپور رنگوں کا خوبصورت پل بنایا جاتا ہے جو بھرپور تفریح کے ساتھ ساتھ اکثر مسائل سے متعلق آگہی کا پیغام اور سماجی تبدیلی میں بھی اہم کردار ادا کرتا ہے۔

حالیہ دور میں جہاں جنسی ہراسانی، استحصال اور صنفی امتیاز جیسے موضوعات جو کبھی معاشرتی تہمت تصورکیے جاتے تھے، دھڑلے سے فلموں کا موضوع بن رہے ہیں، وہاں مجھے یہ محسوس ہوتا ہے کہ ”معذوری‘‘ جیسا اہم موضوع ابھی بھی ”بیچارگی‘‘ کا شکار ہے حالانکہ ذہنی اور جسمانی معذوری میں مبتلا افراد دنیا کی آبادی کا تقریباً پانچواں حصہ ہیں۔ اس طرح جہاں اور شعبوں میں معذور افراد کو اپنے تشخص کا کڑا سفر طے کرنا پڑا وہاں بولی وڈ سینما کے پردۂ اسکرین پر بھی ان کی صحیح نمائندگی نے کئی دہائیوں کا سفر طے کیا۔ ان فلموں میں معذوری معاشرتی رویہ کی عکاس تھی، مثلاً کبھی معذوری کا شکار کرداروں کو اعمال کی سزا قرار دیا گیا تو کبھی تماش بین کے لئے ہنسنے اور مزاح کا ذریعہ، پھر کبھی مثبت رنگ تو دیا مگر ہمدردی اور مستحق اور دوسروں کے محتاج کرداروں کے روپ میں پیش کیا گیا۔

تاہم سماجی تبدیلی کے ارتقاء کے ساتھ ساتھ ان معذور افراد کے کرداروں کی نمائندگی بھی بہتر انداز میں ہوئی۔ اس سلسلے میں ہالی وڈ کی فلمیں بالی وڈ کی فلموں سے زیادہ روشن اور وسیع النظر ثابت ہوئی ہیں تاہم حالیہ برسوں میں بلکہ پچھلی کچھ دہائیوں میں معذور افراد کی نمائندگی بہت بہتر انداز میں کی گئی ہے۔ ذیل میں چند قابل ذکر نمائندہ فلمیں ہیں جنہوں نے سماجی سطح پر معذوری کے متعلق عوامی فکر اور سوچ میں مثبت تبدیلی کا کردار ادا کیا۔

(1) کوشش:۔ 1972ء میں مشہور ڈائریکٹر گلزار کی بنائی ہوئی یہ خوبصورت فلم ایک ایسے جوڑے کی زندگی کی کہانی ہے جو سماعت اور قوت گویائی سے محروم ہونے کے باوجود پورے وقار سے زندگی بسر کرتے ہیں۔ اس فلم میں معذوری کی شکل کو رحم و ہمدردی سے نکال کر عزت و انسانی وقار کے درجے پر لاکھڑا کیا اور تماش بین کی تعلیم کے لئے سائن لینگوئج کو استعمال کیا گیا۔ فلم میں سنجیو کمار اور جیا بھادری نے بہترین اداکاری کی اور فلم نے کئی ایوارڈز بھی حاصل کیے۔

(2) اسپرش (1980ء):۔ سائی پران جاپٹی نے اس فلم کو لکھا اور ڈائریکٹر کیا۔ فلم کے مرکزی کردار سید نصیر الدین شاہ اور شبانہ اعظمی ہیں جس میں نصیر الدین شاہ نے بلائنڈ اسکول کے پرنسپل کا کردار ادا کیا جس میں وہ خود بینائی سے معذور ہونے کے باوجود بھرپور طریقے سے اسکول اور اسٹاف کو سنبھالنے کی اہلیت رکھتا ہے۔ اس فلم میں اس بات پر زور ہے کہ بجائے ہمدردی اور غیرضروری مدد کے معذور افراد زندگی بسر کرسکتے ہیں ہاں البتہ انہیں عام افراد کی طرح صحیح معنوں میں محبت کا رشتہ استوار کرنے کی طلب ہوتی ہے۔

(3) بلیک (2005ء):۔ اس فلم کو جو مشہور ہستی ہیلن کیلر کی زندگی سے متاثر ہے، مشہور فلم ڈائریکٹر سنجے لیلا بھنسالی نے ڈائریکٹر کیا۔ فلم میں رانی مکھرجی نے سماعت اور بینائی سے محروم لڑکی کا کردار ادا کیا ہے جبکہ اس کے استاد کا کردار امیتابھ بچن نے ادا کیا جو الزائمر بیماری کا شکار ہوتا ہے۔ فلم دراصل فلیش بیک ہے ماضی کا کہ جب بطور استاد امیتابھ نے رانی مکھرجی کو تعلیم دی اور تاریکی سے نکلنے میں مدد دی۔ اس فلم میں بھی معذوری کو مثبت انداز میں پیش کیا گیا۔

(4) اقبال (2005ء):۔ یہ خوبصورت فلم کرکٹ کے شوقین سماعت اور قوتِ گویائی سے محروم نوجوان لڑکے کی زندگی پر بنائی گئی۔ اس نوجوان کا تعلق انڈیا کے کسی چھوٹے سے قصبہ سے تھا۔ اس کیبہن اپنے بھائی کے کرکٹر بننے کے خواب کو پورا کرنے میں مدد دیتی ہے۔ ”اقبال‘‘ کو بہترین فلم کا نیشنل فلم ایوارڈ بھی ملا۔

(5) پارک ایونیو (2006ء):۔ اس فلم میں اپرناسن نے جو بنگالی فلموں کی مشہور اداکارہ اور ڈائریکٹر ہے، اسکرزو فرینیا میں مبتلا لڑکی پر بہترین فلم بنائی۔ اس فلم کی خوبی نہ صرف اداکاری ہے بلکہ اس موضوع پر گہری تحقیق ہے جس نے بہترین فلم کا حق ادا کیا۔ فلم کے مرکزی کردار کونکناسین اور شبانہ اعظمی ہیں جبکہ اس فلم کو بہترین فلم کا نیشنل فلم ایوارڈ بھی ملا۔ واضح ہو کہ اسکرزو فرینیا سنگین ذہنی بیماری ہے جس میں مبتلا افراد کی تعداد ایک فیصد ہے۔

مضمون کا بقیہ حصہ پڑھنے کے لئے “اگلا صفحہ” کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2