شاہی حمام میں غسل آفتابی


\"wajahat\"مظفر علی سید گوجرانوالہ کی خاکوانی کلاتھ مارکیٹ سے نکل کر لاہور پہنچے۔ دیکھتے ہی دیکھتے محمد حسن عسکری جیسے طناز ادیب کے حلقہ خاص میں شامل ہو گئے۔ پاک ٹی ہاوس میں اس ٹکڑی کا حصہ بنے جس میں ناصر کاظمی شاعر اور انتظار حسین افسانہ نگار تھے۔ 1954ءمیں شاکر علی میو اسکول آف آرٹ میں پہنچے تو مظفر علی سید ان کے حلقہ ارادت میں آ گئے۔ گھنٹوں مصوری پر بات ہوتی تھی۔ ایک روز ایک تصویر زیر بحث آئی، ”شاہی حمام“۔ مظفر علی سید کا کہنا تھا تصویر میں دکھائی جانے والی عمارت شاہی حمام نہیں ہے۔ شاکر علی نے پوچھا، کیسے؟ مظفر صاحب نے فرمایا کہ تصویر میں الگنی پر کپڑے سوکھنے کے لئے ڈالے گئے ہیں۔ بادشاہوں کو اس طرح کپڑے سکھانے کی ضرورت پیش نہیں آتی۔ اس پر بحث ہوگئی۔ مظفر علی سید کچھ روز بعد شاکر علی کو پرانے لاہور میں لے گئے اور خستہ حال حماموں کے باہر لٹکتے ہوئے تولیے دکھاتے پھرے۔ شاکر صاحب ہار مان گئے اور کہا ”بھائی تو ٹھیک کہتا ہے۔ مصوری کے اس نمونے میں دکھایا جانے والا حمام شاہی نہیں ہے“۔ نتیجہ اس حکایت سے یہ نکلا کہ ہر حمام کو دیکھ کر ”بادشاہ ننگا ہے“ کا نعرہ بلند نہیں کرنا چاہئے۔ حمام میں سب ننگے ہی ہوتے ہیں لیکن کسی کو غسل آفتابی کی حاجت ہوتی ہے اور کوئی تتا پانی مانگتا ہے۔ غور کے قابل نکتہ یہ ہوتا ہے کہ حمام کے باہر کن غریبوں کے کپڑے لٹک رہے ہیں۔ حمام کا یہ قصہ ان دنوں اس لئے یاد آیا کہ ہمارے وزیراعظم محترم نواز شریف طبی وجوہات کی بنا پر لندن تشریف لے گئے ہیں۔ بادشاہ کی غیر حاضری میں بہت سے پارساو¿ں کی پتی اچھل آئی ہے۔ آئس لینڈ، برطانیہ اور مشرق بعید کی مثالیں دے کر مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ شفافیت کا تقاضا نبھاتے ہوئے وزیراعظم بیان کریں کہ 2001ءمیں فولاد کا کارخانہ لگانے کے لئے کتنی رقم سعودی عرب لے جائی گئی۔ یہ دولت کیسے کمائی گئی تھی؟ اس پر کتنا ٹیکس ادا کیا گیا تھا؟ بیرون ملک کاروبار کی وسیع سلطنت قائم کرنے کے لئے ملک کی دولت منتقل کرتے ہوئے اسٹیٹ بینک کو حسب قاعدہ آگاہ کیا گیا تھا؟ یہ رقم جن چیک بکس کے ذریعے منتقل کی گئی ان کے نمبر جاری کئے جائیں۔ جو اصحاب اس لین دین میں شریک تھے ان کے قارورے کا امتحان کیا جائے۔ ان کے بچوں کا ڈی این اے ٹیسٹ کیا جائے۔ بینک کی متعلقہ برانچوں کے گرد کرائم سین کی پیلی پٹی لگائی جائے۔ فرانزک ٹیسٹ کئے جائیں۔ واقعی شفاف سیاست کے یہ تقاضے پورے کرنا بے حد ضروری ہے۔ تاہم شفافیت کے اس غلغلے میں ایک بنیادی سوال رہ جاتا ہے اور وہ یہ کہ 2001 ءمیں میاں نواز شریف سعودی عرب میں کیا کر رہے تھے؟ وہ کون سا شفاف آئینی، قانونی اور جمہوری عمل تھا جس کے نتیجے میں نواز شریف مع متعلقین سراج الدین ظفر بنے سعودی عرب میں پڑے تھے؟ شفاف سیاست کا سوال محض درہم دینار کا معاملہ تو نہیں ہوتا، شفاف اخلاقیات کا ڈنکہ تو حرم سرا سے لے کر توپ کاپی تک بجنا چاہئے۔ ہمارا حافظہ قابل رشک نہیں۔ چنانچہ مناسب ہوگا کہ 1999 اور اس کے فوراََ بعد کی اجمالی تاریخ لکھ دی جائے تاکہ نواز شریف نامی بدعنوان شخص کا پول پوری طرح سے کھولا جا سکے اور قوم شفافیت کی شاہراہ پر دودھ کی نہروں سے پیاس بجھا سکے۔ ہمارے اجتماعی شعور کو نہرِ عسل کی شیرینی نصیب ہو۔ یہ معاملہ صاف ہونا چاہئے کہ بدعنوان سیاستدانوں کی گردن ناپی جاتی ہے تو یہ بھاگ کر دوبئی کیوں چلے جاتے ہیں؟ جلا وطنی کیوں اختیار کر لیتے ہیں؟ لندن کیوں فرار ہوتے ہیں؟

12 اکتوبر 1999 کی شام تھی، ملک کے منتخب وزیراعظم نے آئینی اختیارات استعمال کرتے ہوئے فوج کے سربراہ کو تبدیل کرنے کا اعلان کیا تھا۔ فوج کا سربراہ بیرون ملک تھا لیکن ملک میں موجود اس کے رفقائے کار نے آئینی وزیراعظم کا حکم ماننے سے انکار کر دیا۔ وزیراعظم ہاو¿س کو گھیرے میں لے لیا گیا۔ نشریاتی اداروں پر قبضہ کر لیا گیا۔ انتظامیہ کو بزور قوت بے بس کر دیا گیا۔ سری لنکا سے واپس آنے والے برطرف فوجی سپاہ سالار کو کراچی میں اتار کر عزیز ہم وطنوں کو خوش خبری دی گئی کہ جنرل صاحب کا اغوا شدہ جہاز بازیاب کر لیا گیا ہے۔ اس گستاخی پر وزیراعظم کو گرفتار کر کے ایک نامعلوم مقام پر منتقل کر دیا گیا ہے۔ اعلان کیا گیا کہ وزیراعظم پر طیارہ اغوا کرنے کا مقدمہ چلایا جائے گا۔ قوم کے ساتھ اس شفاف کھیل کے کردار جانے پہچانے ہیں۔ کچھ سات اکتوبر 2001 کی شام اپنے انجام کو پہنچے، کچھ 2007 ءمیں ٹیلی ویژن انٹرویو دے کر جنرل مشرف کے درون خانہ عزائم آشکار کیا کرتے تھے۔ اور کچھ دیر تک سوچتے رہے کہ یہ خاموشی کب تک؟ سعودی عرب کی سٹیل مل کی شفافیت بارہ اکتوبر 1999 کی شفافیت سے گہرا تعلق رکھتی ہے۔ حمام پر شاہی حمام کا بورڈ لٹک رہا ہے اور الگنی پر میلے کپڑے آویزاں ہیں۔

شفاف معیشت اور شفاف سیاست کا علَم اٹھانے والوں میں ہمارے پاکدامن صحافی پیش پیش ہیں۔ جاننا چاہئے کہ اکتوبر 1999 کے سرد کہر آلود دنوں میں صحافیوں نے شفاف اخلاقیات، جرات کردار اور حریت فکر کا شاندار مظاہرہ کیا تھا۔ ایک صاحب نے آئین توڑے جانے پر لکھا تھا، \”پرویز مشرف نے تو ایک بار آئین توڑا، نواز شریف نے بار بار آئین توڑا تھا\”…. آئین نہ ہوا، وزیر اعظم کا وضو ہو گیا۔ ہمیں تسلی دی گئی کہ مارشل لا لگ گیا ہے تو کیا ہوا، ہمارے لئے اللہ کافی ہے۔ ایک معزز صحافی نے لکھا کہ جمہوریت مانگنے والوں کی مشکیں کس دی جائیں۔ اسلام آباد کے ایک صالح صحافی وزیراعظم ہاو¿س کی الماریوں سے بر آمد ہونے والے مالِ وقوعہ کی تفصیل لکھا کرتے تھے۔ اس دوران مٹھی بھر صحافی ایسے بھی تھے جو عدالت بیگم اور چوہدری انصاف کا خاکہ اڑا رہے تھے۔ جنہوں نے وطن پر گزرنے والے اس سانحے کو اس حد تک بیان کیا جس حد تک غیر آئینی بند و بست کی شفافیت اجازت دیتی تھی۔ ا ٓج شفافیت کا سوال اٹھانے کا حق انھیں پہنچتا ہے جنہوں نے اکتوبر 99 کی تمثیل کا المیہ بیان کیا تھا۔

جیسا کہ ہم جانتے ہیں شفافیت کا کرہ علمائے کرام اور مشائخ عظام کے ستونوں پر قائم ہے۔ ان پر فتوح ہستیوں کو حق پہنچتا ہے کہ سگان دنیا کا گریبان پکڑیں اور شفافیت کا مطالبہ کریں۔ تاہم خیال رہنا چاہئے کہ 1999 ءکے بعد کے برسوں میں ایک دفاع افغانستان کونسل بنی تھی۔ متحدہ مجلس عمل بنی تھی۔ 2003 میں آئین میں سترھویں ترمیم ہوئی تھی۔ مدارس کی 67 اسناد کو غیر شفاف اخفا کے کمبل میں لپیٹ کر ایک نیم تاریک دراز میں رکھ دیا گیا تھا۔ دامن یوسف کی طہارت پر سوال اٹھانے کا حق ان علما کو پہنچتا ہے جنہوں نے اکتوبر 99 کے بعد کلمہ حق کی آبرو رکھی ۔ ہمارے سیاستدان محب وطن ہیں لیکن کچھ سیاستدان زیادہ محب وطن ہیں۔ یہ اصحاب بصیرت اپنی جماعتوں میں محب وطن گروپ بنایا کرتے ہیں۔ قائداعظم کا نام نامی استعمال کر کے شفافیت کی داد دیا کرتے ہیں۔ شہر کی دیواروں پر اعلان کیا کرتے ہیں کہ ہمارا صدر کیسے ہو، پرویز مشرف جیسا ہو۔ مٹھی بھر راندہ درگاہ سیاست دان ایسے بھی ہوتے ہیں جو اولی الامر کے عزائم کی مزاحمت کرتے ہیں۔ ان پر تشدد کیا جاتا ہے، انھیں سڑکوں پر گھسیٹا جاتا ہے، انھیں تاریک عقوبت خانوں میں ڈال کر فراموش کر دیا جاتا ہے۔ انھیں دوپہر کی دھوپ میں کرین سے لٹکا کر لاہور کا فضائی معائنہ کروایا جاتا ہے۔ ان کے زخم آلود بدنوں سے الگ کئے گئے کپڑے ان کے اہل خانہ کے سپرد کئے جاتے ہیں۔ تاریخ شفافیت کا فیصلہ یہ پوچھ کر کرے گی کہ کس کا لبادہ لہو آلود تھا اور کون پایاب ساحلوں پر غسل آفتابی کر رہا تھا۔

آئین کی حفاظت عدلیہ کی ذمہ داری ہے۔ ہماری عدالتی تاریخ میں شفافیت کی تہمت انہی ناموں پر رکھی جائے گی جنہوں نے آئین کی مزاحمت میں مفادات، مراعات اور منصب کی قربانیاں دیں۔ لیکن وہ نام بھی موجود ہیں جو فیصلوں پر دست مبارک سے اضافہ کر دیا کرتے ہیں کہ غاصب کو آئین میں ترمیم کا اختیار ہے۔ جو آمر کو تین برس تک حکومت کا اختیار دیتے ہیں اور یہ بتانے کی زحمت نہیں کیا کرتے کہ آئین کی کس شق سے یہ اختیار اخذ کیا گیا ہے؟ قانون کی شفافیت آئین کی شفافیت سے بندھی ہے۔ شفافیت وہ پرندہ نہیں جو صبح کی نسیم پر کیف کے ساتھ اجنبی زمینوں سے اڑتا ہوا آئے گا اور ہماری منڈیر پر بیٹھ جائے گا۔ شفافیت کا سوال نہایت جائز اور مبارک ہے۔ تاہم قوم کے حمام کو نقصان دہ جرثوموں سے پاک کرنے کے لئے ضروری ہے کہ تاریخ کے حمام میں رسائی کا حق سب کو دیا جائے۔ حمام کے باہر لٹکتے کپڑوں کا ڈی این اے کیا جائے۔ آئین کی کتاب کو شفاف کئے بغیر بینک کی چیک بک شفاف نہیں ہوسکتی۔ شفافیت کا من مانا اور چنیدہ اطلاق غیر شفافیت کا دروازہ کھولتا ہے۔ ڈی چوک میں ’نیا شاہی حمام‘ کا بورڈ آویزاں ہے اور الگنی پر تاریخ کے چیتھڑے لٹکے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
7 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments