رائیٹ ونگ کے نوجوان لکھاریوں کو گیارہ مشورے


\"aamirپچھلے چند ہفتوں کے دوران سوشل میڈیا پر رائیٹ ونگ سے تعلق رکھنے والے کئی نوجوان لکھنے کے حوالے سے متحرک ہوئے ہیں۔ اگلے روز ایک دوست نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ چلو اج کل دے منڈے فیس بک پر ایک دوسرے کے خلاف الزامات کی بوچھاڑ کرنے کے بجائے کسی مثبت ، تعمیری کام سے لگ گئے ہیں۔ مجھے زیادہ خوشی اس کی ہے کہ نوجوان کتابیں پڑھنے، سوچنے اور دلیل کے ساتھ بات کرنے کی طرف مائل ہوئے ہیں، جو ہمارے سماج کے لئے بڑی خوش آئند بات ہے۔ اس سب کے پیچھے محرک قوت تو محترم وجاہت مسعود اور ان کی ہم خیال دوستوں کی جانب سے شروع کردہ مکالمہ نما یدھ یا یدھ نما مکالمہ ہے ۔ اس نے وہی کام کیا جو ساٹھ کے عشرے کے اواخر اور خاص کر ستر کے عشرے کے اوائل میں ترقی پسندوں کی جانب سے آنے والی یلغار سے ہوا تھا۔ اس نے دائیں بازو کے مذہبی سوچ رکھنے والے نوجوان میں ایک نئی روح پھونک دی تھی۔ انہیں اپنی نظریاتی شناخت خطرے میں نظر آئی تو وہ کھڑے ہوئےا ور اپنی پوری صلاحیتیں اور قوت نظریاتی ، فکری دفاع میں کھپا دیں۔ اس بارقدرت نے یہ نیک کام جناب وجاہت مسعود اور ان کے فکری ہم سفروں سے لیا۔ میرے دل میں ان کا احترام اس لئے زیادہ ہے کہ ایک نالائق یا اوسط درجے کے فکری حامی سے میرے نزدیک ذہین ، سوچنے سمجھنے پر مجبور کر دینے والا نظریاتی مخالف اہم ہے ۔ سماج میں جمود سے نظریاتی ہلچل پیدا کرنا زیادہ ضروری ہے۔ فکری مکالمہ جاری رہنا چاہیے ۔ کنزیومر ازم کے اس بے رحم، سفاک دور میں بے غرض قلمی جدوجہد کرنے والے مبارک اور تحسین کے مستحق ہیں۔ دلچسپی سے ان نوجوانوں کی تحریریں پڑھ رہا ہوں ، داد دینے میں کبھی بخل سے کام نہیں لیا، بعض پوسٹیں تو اپنی وال پر بھی شئیر کیں۔ یہ سب سوال جواب بلکہ جواب الجواب پڑھتے ہوئے مجھے یہ محسوس ہوا ہے کہ پرجوش نوجوانوں کو چند ایک مفت کے مشورے دے دینے میں کوئی حرج نہیں۔ ویسے تو ان سے کوئی بھی فائدہ اٹھا سکتا ہے، مگر میں نے اپنے رائیٹ ونگ کے نوجوانوں کو ذہن میں رکھ کر یہ تحریر لکھی ہے تو ممکن ہے دوسروں کے لئے بعض باتیں سودمند نہ ہوں۔ (یاد رہے کہ ان تمام مشوروں کو نظرانداز کرنے کی آپشن بدستور موجود ہے، کسی پر پابندی نہیں، ہر ایک اپنے انداز میں سوچ اور اس کا اظہار کر سکتا ہے ۔ )

 نمبر ایک : اسلامسٹ بمقابلہ سیکولرازم کا معرکہ ٹی ٹوئنٹی میچ ہرگز نہیں، اسے ون ڈے بھی نہیں سمجھنا چاہیے ۔ یہ کرکٹ کی اصطلاح میں ٹیسٹ میچ ہے۔ طویل دورانئیے کا کھیل ۔ جس میں دو تین باتیں اہم ہیں۔

اے: اس میچ نے جلدی ختم نہیں ہوجانا۔ لمبا معرکہ ہوگا۔ یہ قسطوں میں لڑی جانے والی جنگ ہے، باربار غنیم کے لشکر امنڈ امنڈ کر آئیں گے۔ ہر بار تلوار سونت کر لڑنا پڑے گا۔ انداز بدلتے رہیں گے ، سپاہیوں کے چہرے تبدیل ہوں گے گے،مگر اہداف وہی ہیں ۔ جان پہچانے، دیکھے بھالے۔ اس محاذ کا رخ کرنے والے سوچ سمجھ کر میدان میں اتریں۔ نظریاتی جدوجہد بعض اوقات مختلف فیز میں لڑی جاتی ہے۔ ہم سے پہلوں نے اپنے انداز میں یہ معرکہ لڑا۔ اب ہمارے زمانے میں اور ہم سے بعد میں یہی مسائل، مکالمے اور مجادلے چلتے رہیں گے۔

بی : ٹیسٹ میچ میں جلدبازی اور عجلت کے بجائے کھلاڑی کی محنت، تکنیک اور مہارت زیادہ اہمیت رکھتی ہے۔ فکری مکالمے میں بھی یہ چیزیں اتنی ہی اہم ہیں۔ اچھی طرح تیاری کر کے ، سوچ سمجھ کر قدم بڑھانا چاہیے۔

سی : بہتر ہو گا کہ لکھنے والے اپنے اپنے کام کا تعین کر لیں۔ جیسے کرکٹ ٹیم میں کسی کا کام بائولنگ، کوئی بلے باز اور ایک وکٹ کیپر ہوتا ہے ۔ ہر ایک کی سپیشلیٹی ہوتی ہے۔ بیانیہ کی جنگ میں مل جل کر بھی کام ہوسکتا ہے ۔ جسے تحقیق میں دلچسپی ہے، وہ حوالہ جات پر محنت کرے اور اس اعتبار سے مواد سامنے لے آئے ، کسی کو سوالات اٹھانے میں مہارت ہے، وہ اس طرف کا رخ کرے، کسی کا ہنر مرصع نثرلکھنا ہے تو وہ اس پر ہی فوکس کرے، مغربی لٹریچر سے رسائی رکھنے والوں کو اس اینگل کو کور کرنا چاہیے ۔

نمبر دو : مکالمہ ہر حال میں نہایت شائستگی سے کرنا چاہیے۔ انکسار، استدلال اور علمی شائستگی تحریر کے بنیادی جوہر ہونے چاہئیں۔ طنز، تضحیک، دشنام اور اختلاف رائے کرنے والے پر لیبل چسپاں کرنے سے ہر صورت گریز کرنا ہوگا۔ رائیٹسٹوں کو یہ سوچ کر لکھنا چاہیے کہ وہ اسلامی مائنڈ سیٹ کے علمبردار ہیں اور ان کے تحریر ہی سے مذہبی سوچ رکھنے والوں کے کردار کو جانچا جائے گا۔ اس لئے اخلاق ، شائستگی اور متانت کا دامن قطعی نہ چھوڑا جائے ۔

 ہر تحریر یہ سوچ کر لکھی جائے کہ ہمارے سرکار، آقا اور محسن عظیم حضور پاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اگر اسے پڑھیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ردعمل کیا ہوسکتا ہے۔ کوئی ایسا جملہ یا لفظ نہ ہو، جس سے سرکار مدینہ کی منور پیشانی پر کوئی شکن نمودار ہو اور انہیں لگے کہ ان کے امتی، ان کے نام لیوا دین اسلام کی بے توقیری کا باعث بنے۔ کوئی بھی سچا، کھرا رائیٹسٹ صرف اس لئے اس میدان میں اترتا اور اپنے دین، اپنی اخلاقی اقدار اور تصور دین کا دفاع کرتا ہے کہ روز آخرت اس کی یہ کاوش قبول ہو اور بخشش کا باعث بنے۔ اس لئے تحریر کا معیار بھی ویسا ہی کڑا اور سخت ہونا چاہیے ۔ بد تمیزوں، بد اخلاق، عامیانہ گفتگو کرنے والوں، پست الفاظ استعمال کرنے کے عادی لوگوں کی یہاں کوئی جگہ نہیں۔ رائٹسٹوں، اسلامسٹوں کو ایسے تمام لوگوں سے خود کو دور کرلینا چاہیے ، ان سے اعلان لاتعلقی کر لینا ہی زیادہ بہتر اور مناسب ہے۔ گھیٹا دفاع سے دفاع نہ کرنا افضل ہے۔

نمبر تین : یہ بات ذہن میں رکھنا چاہیے کہ مایوس ہونے یا ہمت ہار دینے کی کوئی وجہ نہیں۔ اسلامسٹوں کی جدوجہد اور نوعیت کی ہے۔ پاکستان میں اللہ کے فضل سے اسلامسٹوں نے بہت اہم آئینی جنگیں جیتی ہوئی ہیں۔ دستور پاکستان سے قرار داد مقاصد یا ملک سے اسلامی لفظ ہٹانا، یا پھر توہین رسالت قانون میں ترمیم وغیرہ ، یہ سب سیکولرسٹوں کا ایجنڈا ہے، مایوسی اور فرسٹریشن ہر بار انہی کے حصے میں آتی ہے۔ ریاست کو سیکولر بنانے کا خواب وہی دیکھ رہے ہیں،اس کی فکر بھی انہیں ہی ہونی چاہیے۔ رائیٹ ونگ نے تو جو کچھ حاصل کرنا تھا بڑی حد تک کر لیا، اب فوکس آئین پر عملدرآمد کرنے اور اسلامی معاشرے کے قیام پر کرنا چاہیے ۔ دعوت، تعلیم ، تربیت کا جوکام انفرادی، گروہی یا جماعتوں کی حد تک ہوسکتا ہے، وہ کیا جائے، حکومت میں آ کر ریاستی وسائل کی مدد سے کچھ کرنے کے مواقع جب ملیں تو ایسا کیا جائے ، نہ مل سکیں تو کم از کم پریشر گروپس کا کردار ادا کرتے رہنا ہوگا۔

 نمبر چار : ممکن ہے پوائنٹ نمبر تین پڑھ کر کسی کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہو کہ ایسی صورت میں پھر اتنی محنت کی ضرورت کیا ہے؟ سادہ جواب یہ ہے کہ اسلامسٹوں کو اپنے نقطہ نظر کی وضاحت کے لئے جوابی بیانیہ تشکیل دینا پڑتا ہے اور رہے گا۔ سیکولروں کے سوالات کے جواب دینا اس لئے ضروری ہے کہ اسلامی طرز فکرکو دلوں میں بسانے، دماغ میں اتارنے کے لئے استدلال ہی واحد ذریعہ ہے۔ نئی نسل تک اپنی بات دلیل کے ساتھ پہنچانی ہے۔ ان کے ذہنوں میں موجود الجھنیں کھولنی، سلجھانی اور مذہب کے خلاف پروپیگنڈے کا توڑ کرنا ضروری ہے۔ بہت سے مذہبی گھرانوں کے بچے ردعمل میں دوسری طرف اس لئے چلے جاتے ہیں کہ ان کے والدین نے نئی نسل کے سوالات کے جواب دینے کی زحمت ہی نہیں فرمائی، وہ سمجھتے تھے کہ شاہد ان کی فکر اولاد کے ذہنوں میں خود بخود منتقل ہوجائے گی ۔ ایسا کبھی نہیں ہوتا۔

 نمبر پانچ: ایک بات اور ذہن میں رکھیں کہ سیکولرفکر کے بیشتر علمبرداروں کو آپ دلیل سے قائل نہیں کر سکتے۔ یاد رہے کہ قائل کرنے کے لئے ضروری ہے کہ اگلا قائل ہونے پر آمادہ ہو۔ جس نے طے کر رکھا ہو کہ مابعدالطبعیات کچھ نہیں اور صرف مادہ ہی سب کچھ ہے، اسے آپ مذہب کی اہمیت پر کیسے قائل کر سکتے ہیں؟ جو روز آخرت پر ہی یقین نہ رکھتا ہو، سرے سے خدا یا اس کے پیغمبر کے وجود ہی پر اسے شک ہو، اسے کس طرح الہامی دانش کا پیروکار بنایا جا سکتا ہے؟ میرا یہ مقصد نہیں کہ سیکولر سوچ رکھنے والے تمام ایسے ہوتے ہیں۔ ہرگز نہیں۔ بہت سے لوگوں کا یہ ایشو نہیں۔ وہ کسی بھی دوسرے مذہبی شخص کی طرح کی سوچ رکھتے ہیں، ان میں سے بعض ردعمل میں سیکولر ہوئے، کچھ کو مذہبی جماعتوں یا بعض تنگ نظر مولوی صاحبان کی شدت اور بے تدبیری اس جانب لے آئی، ایسے بھی بہت ہیں جو داعش، القاعدہ اور ٹی ٹی پی جیسی تنظیموں کی متشددانہ پالیسیوں، لوگوں کو زبح کرنے اور سروں سے فٹ بال کھیلنے جیسی ویڈیوز دیکھ کر مذہب کا نام لینے والے ہر ایک گروہ سے متنفر ہوگئے۔ سیکولر سوچ رکھنے والوں میں یہ تمام شیڈز موجود ہیں، مگر سیکولرازم کی خالص علمی بنیادیں الحاد اور مذہب بیزاری پر استوار ہیں، اس لئے ان سے زیادہ دیر بچا نہیں جا سکتا۔

 سیکولروں کی ہارڈ کور کو متاثر یا قائل نہ کرسکنے کے امکان کے باوجود یہ مکالمہ جاری رکھنا ہوگا، اسلامی بیانیہ پوری صراحت اور گہرائی کے ساتھ تشکیل دینا ہوگا۔ ہدف وہ لوگ ہیں جو ابھی درمیاں میں ہیں، سوئنگ ووٹرکی طرح سوئنگ پیروکار بھی ہوتے ہیں۔ جو لوگ ابھی کسی جانب نہیں گئے، وہ لوگ جوکسی وجہ سے سیکولر ہوگئے ، مگر وہ مذہب کی حقانیت کو تسلیم کرتے ہیں، انہیں چند کامن پوائنٹس پر قریب کیا جا سکتا ہے ۔ وہ لوگ بھی جو مذہبی گھرانوں سے تعلق رکھتے ہیں، رائٹسٹ ہیں، مگرانہیں دوسروں سے بات کرنے کے لئے دلائل کی ضرورت ہے۔ ان کی یہ کمی، ضرورت رائٹسٹ لکھاریوں کو پوری کرنا ہے۔

 نمبر چھ : سیکولرسٹوں سے بحث کرتے ہوئے ان کی کج بحثی اور مذہب پر حملوں کے لئے ذہنی طور پر تیار رہنا ہوگا۔ ہم لوگ بعض چیزوں کو پہلے سے طے شدہ لے کر چلتے ہیں، سوچتے ہیں کہ بعض سیاسی سوال اور بحثیں ہوں گی، خدا اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر تو کوئی بات نہیں کرے گا۔ اسی طرح پاکستان کے حوالے سے ہم میں سے بہت سوں کو اس وقت شاک لگتا ہے،جب نظریہ پاکستان، قائداعظم، اقبال، لیاقت علی خان ، علامہ شبیر احمد عثمانی وغیرہ پر کوئی حملہ آور ہو۔ ہم اس سے یہ حملہ توقع نہیں کر رہے ہوتے، اسے ناف کے نیچے وار سمجھتے ہیں۔ اس سب کے لئے مگر پہلے سے تیار ہونا چاہیے ۔

 نمبر سات: یہ بات بھی اب اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ پاکستان میں اسلامی نظام، اسلامی معاشرے کا قیام نظریہ پاکستان ، تحریک پاکستان اور قرارداد مقاصد سے جڑا ہوا ہے۔ یہ ممکن نہیں کہ آپ تقسیم کے مخالف ہوں، قائداعظم یا نظریہ پاکستان سے وابستگی نہ رکھتے ہوں یا اس درجہ حساسیت کے حامل نہ ہوں اور اپنے مذہبی میلان کی وجہ سے پاکستان میں نفاذ اسلام کی بات کریں، تحریک چلائیں۔ ایسی کوئی بھی کوشش کامیاب نہیں ہو سکتی۔ اس پر یکسوئی حاصل کر لیں۔ اگر نظریہ پاکستان سے دستبردار ہوگئے، اسلامی مملکت کے دعوے، خواب سے ہاتھ کھینچ لیا تو پھرملک میں اسلامی قوانین، اسلامی معاشرے کا خواب بھی بھول جائیں۔ پاکستان تب لفظی طور پر نہ سہی، عملی طور پر سیکولر ریاست بن جائے گی۔

 نمبر آٹھ : (پوائنٹ نمبر سات کی یہ ایکسٹینشن ہی ہے، مگر اہمیت واضح کرنے کے لئے اسے الگ پوائنٹ بنایا ہے۔)  یاد رکھیں ،تحریک پاکستان، نظریہ پاکستان، قائداعظم اور مسلم لیگ کے دوران تحریک کئے گئے وعدے ہی وہ بنیاد فراہم کرتے ہیں، جس پر پوری اسلامی تحریک استوار ہوتی ہے، قرارداد مقاصد اس کے بغیر پاس ہونا ممکن نہں تھی۔ سیکولر حلقہ اس بات کو اچھی طرح جانتا ہے، اس لئے وہ بار بار قراردار مقاصد پر حملہ آور ہوتا ہے، نظریہ پاکستان کا تمسخر اڑاتا ، اسے بے حقیقت ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ لیاقت علی خان کے قد کاٹھ کو چھوٹا ثابت کرنا، علامہ شیبر احمد عثمانی پر حملے محض اس لئے کئے جاتے ہیں کہ قرارداد مقاصد کے موید یہی لوگ تھے۔ جب ان پر سے تقدس کا لبادہ نوچ کر الگ کر لیا جائے تو پھر اس قرارداد کی حیثیت کسی بھی اسمبلی میں پیش ہونے والی قرارداد کی سی رہ جاتی ہے۔

 نمبر نو : یاد رکھیں کہ قائداعظم رحمتہ اللہ کی شخصیت بھی پاکستان کو اسلامی ریاست بنانے، یہاں اسلامی نظام قائم کرنے اور رول ماڈل اسلامی معاشرے کی تشکیل کے سپنے کے ساتھ جڑی ہوئی ہے۔ یہ سب باتیں قائداعظم کہتے رہے تھے، ان کے بے شمار جملے، فقرے ، بیانات اور انٹرویوز اس حوالے سے ہیں۔ چونکہ قائداعظم کی ذات پاکستان اور پاکستانی عوام سے منسلک ہے،اس لئے سیکولر حلقہ قائد کی گیارہ اگست والی تقریر کے حوالے دینے پر مجبور ہے، سمجھدار سیکولر جانتے ہیں کہ قائداعظم کی الفاظ کی تعبیر وتشریح کر کے ایک قومی بیانیہ تشکیل دینا آسان ہے،اسی لئے بار بار اسی ایک تقریر کے حوالے دئیے جاتے رہیں گے۔ شدید بوریت کے باوجود ہمیں یہ سب سہنا پڑے گا، جواباً بار بار قائد کی دوسری تقاریر کے حوالے دینے پڑیں گے۔بار بار ایسا کرنا پڑے گا۔ یہ عمل دونوں طرف سے جاری رہے گا، شائد آنے والے برسوں، عشروں تک۔ یہ بھی یاد رکھئے کہ بیشر سیکولر قائداعظم کو سخت ناپسند کرتے ہیں۔ ان میں سے اکثر اپنی تحریروں میں التزام کے ساتھ انہیں جناح صاحب لکھیں گے۔ یہ دراصل لٹمس ٹیسٹ ہے، جدید دور کا کوئی بھی لکھاری جو اپنی کسی تحریر میں قائداعظم کے بجائے جناح صاحب لکھے، سمجھ لیجئے کہ اس کے اندر کا تعصب اور قائداعظم کے لئے نفرت اور بیزاری ابل ابل کر باہر آ رہی ہے۔ جناح صاحب لکھنے کی آزادی صرف ان کے ہم عصروں کو دی جا سکتی تھی، باچا خان یا جی ایم سید ایسے آخری لوگ تھے۔ ان کے بعد کی نسلوں کو یہ حق نہیں ۔ ہمارے قائد محمد علی جناح کو قائداعظم کہنا پاکستانی روایت کا حصہ بن چکا ہے۔ اس روایت کو تسلیم بھی عرصہ پہلے کیا جا چکا ہے ۔ اس سے انحراف وہی کرے گاجو قائد کی دشمنی اور مخالفت میں اعتدال کی حدعبور کر چکا ہو، ورنہ کوئی بھی سمجھدار سیکولر ایسی غلطی کر کے خود کو بے نقاب نہیں کرتا۔ اسی طرح یہ اکثر دیکھا جائے گا کہ مولانا آزاد کو اکثر سیکولر لکھاری بہت اہمیت دیں گے، مولانا کے علمی قد کاٹھ سے زیادہ بغض قائداعظم اس کا باعث ہوگا۔

 علما کے حلقے میں سے ایک گروپ جو زہنی طور پر جمعیت علما ہند کے قائدین سے زیادہ قریب ہے، ان کے لئے بھی قائداعظم کی شخصیت کو تسلیم اور قبول کرنا آسان نہیں، مگر پاکستان مین اسلامی جدوجہد کے لئے قائداعظم کی شخصیت کو ساتھ لے کر ہی چلا جا سکتا ہے۔ اس کے بغیر ممکن نہیں۔ اس لئے یہ لوگ اپنے تصور کا دوبارہ سے جائزہ لیں اور تحریک پاکستان کو سمجھنے کی کوشش کریں۔ اسی طرح علامہ اقبال اور حضرت مدنی والے مناقشہ کے بعد کچھ لوگ اقبال کے لئے بھی ناپسندیدگی کی ایک زیریں لہر رکھتے ہیں، انہیں بھی اقبال کی عظمت کو ازسرنو سمجھنا ہوگا۔ اقبال کا ورلڈ ویو حیران کن ہے۔ اسلامی معاشرے یا اسلامی ریاست کے لئے اقبال کو نظرانداز کرنا ممکن نہیں۔

 نمبر دس: یہ بات شروع میں آنی چاہیے تھی، مگر اس پر اختتام کرنا بھی کم اہم نہیں۔ یہ بھی سمجھ لینا چاہیے کہ اسلام اور سیکولرازم کا امتزاج کسی طور ممکن نہیں۔ کسی بھی ملک میں یا تو اسلامی ریاست ہو گی یا سیکولرریاست ، اسلامی معاشرہ تشکیل پائے گا یا پھر سیکولر معاشرہ۔ ان کو ملانے کی بچکانہ کوشش کبھی کامیاب ہوئی نہ ہوگی۔ یہ کہنا کہ کسی قسم کا دیسی مسلم سیکولرازم ممکن تھا، ایک بڑا فکری مغالطہ ہے۔ دیسی مسلم سیکولرازم نام کی کسی اصطلاح کا کوئی وجود نہیں، یہ بن بھی نہیں سکتی۔ بات سادہ سی ہے کہ آپ نے یہ طے کرنا ہے کہ اللہ کی بنائی ہوئی ریاست میں رہنا ہے یا پھر بندوں کی بنائی ہوئی ریاست میں، اللہ کے بتائے ہوئے قوانین، وضوابط پر عمل کرنا ہے یا پھر انسانی عقل سے آخذ کئے ہوئے قوانین کو چلانے کی کوشش کرنا ہے۔ ان دونوں تصورات کو کیسے جوڑا جا سکتا ہے؟

 یہ نقطہ بھی واضح ہوجائے کہ پاکستانی تناظر میں علامہ شبیر احمد عثمانی کا ماڈل ہی قابل قبول ہوگا۔ حضرت علامہ حسین احمد مدنی کے تمام تر احترام کے باوجود ان کا ماڈل بھارتی ماڈل ہے، ایک ایسے معاشرے کا جہاں کثیر المذاہب لوگ رہتے ہوں، جہاں مسلمان اکثریت میں نہ ہوں۔ سیکولرازم کا مطالبہ وہیں ہوسکتا ہے۔ ظاہر ہے کوئی کہے کہ بھارت میں اسلام نافذ کیا جائے تو اس کی عقل پر شک کیا جائے گا، پاکستان میں البتہ یہ مطالبہ ہوگا اور قابل فہم بھی سمجھا جائے گا۔ دیوبند مکتب فکر کے لوگوں کو یہ مان لینا چاہیے کہ جمعیت علما ہند بھارت کے لئے ہے اور جمعیت علما اسلام پاکستان کے لئے۔ اس بیریر سے گزرنے کے بعد یہ لوگ یکسوئی کے ساتھ اسلامی معاشرے کے قیام کی جدوجہد میں شامل ہوسکتے ہیں۔ اسی طرح مولانا آزاد کے علمی ، ادبی سحر میں کون گرفتار نہیں، مگر پاکستانی بیانیہ میں قائداعظم پہلے آتے ہیں، مولانا آزاد اس فریم ورک میں فٹ نہیں ہوتے۔ نہایت احترام کے ساتھ انہیں بھارتی سیکولرسٹوں کے لئے چھوڑ دیجئے ۔ مولانا آزاد کی پیش گوئیاں بھی ہمارے ہاں سب سے زیادہ ذوق شوق سے تقسیم ہند کے مخالف اور سیکولر حلقے ہی استعمال کرتے ہیں۔ یہ ان کے بیانیہ میں فٹ ہوتی ہے۔ بڑے پیار اور احترام کے ساتھ مولانا آزاد سے اختلاف کیجئے۔ ہو سکے تو منیر احمد منیر کی کتاب مولانا آزاد کی پیش گوئیاں پڑھ لیجئے،دوسرارخ سامنے آ جائے گا۔

 اسی طرح جاوید غٓامدی صاحب کا یہ تصور کہ ریاست سیکولر ہو، حکومت البتہ مسلمان ہوگی، یہ بھی آخری تجزیے میں سیکولرسٹوں کو سپورٹ کرتا ہے۔ جناب غامدی اور ان کے ذہین تلامذہ کی فکر ایک خاص سٹیج پر جا کر سیکولر فکر کے ساتھ ہی جا کر کھڑی ہوتی ہے۔ اس کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ غامدی صاحب کے بیانیہ پر کبھی سیکولر تنقید نہیں کریں گے، انہیں سوٹ جو کرتا ہے ۔ غامدی صاحب پر ہمیشہ اسلامسٹوں کی طرف سے تنقید،اور جواب بیانیہ دیا جاتا ہے۔

 نمبر گیارہ : اب تک ان بحثوں کو پڑھنے والوں کو اندازہ ہوگیا ہوگا کہ سیکولر دوست کس طرح بات کو ایک جگہ سے کھینچ کر دوسری جگہ لے جاتے ہیں، ایک ساتھ کتنے مفروضے ، مغالطے بھر دیتے ہیں تاکہ یکسوئی کے ساتھ جواب نہ دیا جا سکے۔ دانستہ طور پر رائیٹسٹوں کو تقسیم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے ۔ انہیں معلوم ہے کہ جماعت اسلامی اور جے یوآئی کے مابین ماضی میں مسائل رہے ، تو ان نکات کو بار بار اٹھایا جائے گا۔ جماعت اسلامی والوں کو الجھانے کے لئے تقسیم کے وقت مولانا مودودی کی آرا کا مسئلہ چھیڑا جائے گا، کبھی جماعت کی مسلم لیگی مخالفت پر سوال ہوگا، کبھی کسی اورایشو کو چھیڑ دیا جائے گا۔ اس کا صاف جواب دینا چاہیے کہ یہ سب ماضی کے ایشوز ہیں۔ بنیادی نقطہ یہی ہے کہ کیا پاکستان اسلامی ریاست ہو یا سیکولر؟ اسلامی نظام آنا چاہیے یا سیکولر نظام؟ ہماری اخلاقی نظام کی بنیاد مذہب پر ہونی چاہیے یا پھر اس اخلاقیات کی تشکیل ہر ایک خود کرتا پھرے۔ ان بنیادی سوالات پر بحث مرکوز رکھنی چاہیے، نان ایشوز میں الجھنے کا کوئی فائدہ نہیں، اپنی توانائیاں ادھر صرف نہ کی جائیں۔ ہر حلقہ فکر کی طرح رائیٹ ونگ میں فالٹ لائنز موجود ہیں، انہیں ایکسپوز کرنے سے گریز کریں۔ آپس میں لڑنے کے بجائے اصل مدعے کی طرف توجہ رکھیں۔ اس کی زیادہ اہمیت ہے۔ اجر بھی اسی کا ملنا ہے۔ یہ اپنی مسلکی، جماعتی شناخت سے اٹھ کر دین اسلام کے لئے فکری جدوجہد کرنے کا وقت ہے۔ اللہ سے مدد مانگئیے ، وہی توفیق دے گا، تحریر اور خیالات میں برکت اور وہی قبول بھی فرمائے گا۔

 اسلامسٹ بیانیہ کے لئے معروف مذہبی کتب کا سب کو علم ہی ہے، میں دو تین کتابوں کی طرف نشاندہی کرنا چاہوں گا۔ ان میں سے ایک ڈاکٹر طارق جان کی سیکولرازم، مغالطے ، مباحثے ہے۔ اسے منشورات لاہور نے شائع کیا ہے ، اس کی ای بک بھی دستیاب ہے۔ ڈاکٹر طارق صاحب نے بڑی عمدگی سے کئی ایشوز پر قلم اٹھایا ہے۔ اس پڑھنا فائدہ مند ہوگا۔ قائداعظم کے اسلامی تصور کے حوالے سے بہت سی کتب شائع ہوچکی ہیں، کسی سے حوالہ جات کے لئے رجوع کیا جا سکتا ہے۔ علامہ اسد کا کام بھی ان مباحث میں بہت کارآمد ہے۔ ان کی کتاب یورپین بدو کمال کی ہے۔ علامہ اسد نے اس پر بھرپور بحث کی ہے کہ پاکستان میں اسلامی دستور کیوں بنایا جائے؟ پروفیسر احمد رفیق اختر نے بھی سیکولرازم کے خلاف بھرپور طریقے سے لکھا ہے۔ پروفیسر صاحب کی سیکولرازم کی علمی بنیاد جو الحاد پر مشتمل ہے، اس پر کڑی تنقید ہے۔ اسے پڑھنے سے نئے دلائل ملیں گے۔

(محترم بھائی عامر ہاشم خاکوانی صاحب نے نہایت اچھے اور مناسب نکات سپرد قلم کئے ہیں۔ عامر بھائی نے مہذب اور غیر جانبدار مکالمے کے اصول بیان کئے ہیں۔ ہم سب کو ان نکات پر کھلے دل سے غور و فکرکرنا چاہیے۔  امید کرنی چاہیے کہ بھائی عامر ہاشم خاکوانی ہمارے اجتماعی مکالمے کی رہنمائی   کرتے رہیں گے۔)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
52 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments