دور دیس بیاہی بیٹی کے باپ کی کہانی


اوصاف فون پہ بہت مشکل سے بات کر پا رہا تھا، ”حسنین بھائی پاپا کو کینسر ہے۔‘‘

بچپن میں چاکلیٹ کھانے کا بہت شوق ہوتا تھا۔ امپورٹڈ چاکلیٹ کا جو پہلا ڈبہ یادوں میں اب تک محفوظ ہے وہ سیدہ آنٹی نے بھیجا تھا۔ آنٹی اور چچا اس وقت جدہ میں رہتے تھے۔ مشیر چچا بینک میں جاب کرتے تھے، آنٹی ایک سکول میں پڑھاتی تھیں۔

آنٹی بے چاری بہنوں اور ان کے بچوں کے لیے آنے جانے والوں کے ہاتھ پتا نہیں کیا کیا بھیجتی رہتی تھیں۔ میری چیزوں‘ جو اب بھی یاد ہیں‘ میں سے ایک ڈبل سائیڈڈ جیکٹ تھی، باہر سے گرے اور اندر والی طرف ہلکے اور گہرے نیلے رنگوں کا چوکور سا ڈیزائن بنا ہوتا تھا۔ وہ سارا بچپن میری فیورٹ رہی۔ پھر جوگرز تھے، ایک گرے اور ایک کریم کلر کا جوڑا۔ تیسری چیز ایک گرم کوٹ تھا جو دنبے کی کھال سے بنا ہوا تھا۔ اس کا نام ہم لوگوں نے بکرے والا کوٹ رکھ دیا تھا۔ وہ پہلے میں نے پہنا، پھر چھوٹے بھائی نے، پھر بہن نے، پھر میری بیٹی نے اور اب بھی شاید فیملی میں کسی کے پاس ہو۔ تو سیدہ آنٹی‘ جو میری خالہ ہیں اور مشیر چچا جو میرے خالو ہیں‘ سے پہلا تعارف تصویروں کا تھا یا ان چیزوں کا تھا۔

ہم لوگ سن چھیاسی ستاسی میں جب عمرہ کرنے گئے تو ادھر ان کے گھر ٹھہرے۔ اوصی، شفق، اوما، شانی بھائی اور ہم بھائیوں کو بڑی سی ڈگی والی گاڑی میں بٹھا کے چچا بہت سیر کرواتے۔ کبھی کبھی کسی کھلے میدان میں لے جاتے، وہاں کرکٹ کھیلی جاتی، پھر کھلا پلا کے ساری خلقت کو گھر لے آتے۔ ان دنوں میں چھ سات برس کا تھا، پہلے ہی بہت کم باتیں یاد رہتی ہیں، بس یہ ضرور یاد ہے کہ ان کا تصور ایک مہربان اور شفیق بزرگ کے جیسا تھا۔

مشیر چچا سکول کالج کے زمانے سے ہی ہاکی اور کرکٹ کے زبردست شوقین تھے۔ نیشنل لیول پہ کھیلا، ان گنت ٹرافیاں، تمغے، کپ، سندیں اور پتہ نہیں کیا کیا چیزیں ان کے ڈرائنگ روم میں پڑی ہوتی تھیں۔ سب سٹار کھلاڑی اب بھی انہیں جانتے ہیں۔ اس کے بعد وہ نوکری کرنے باہر چلے گئے۔ واپس آئے تو سندھ حکومت میں سپورٹس ایڈوائزر ہو گئے۔

وہ کبھی گھر میں نہیں بیٹھے۔ ہر وقت کسی نہ کسی پلے گراؤنڈ میں ہوتے، دفتر میں پائے جاتے یا پھر کبھی ہاکی، باکسنگ، سوئمنگ، سکواش، کرکٹ، فٹبال ٹیم وغیرہ کو لے کے ٹور پہ نکلے ہوتے۔ ان تھک آدمی، کھانا وانا بھی ایک ٹائم کھا لیا اگلے کا یاد ہی نہیں، جب دماغ میں آئے گا تو کھا لیں گے۔ شروع سے سپورٹس مین ہیں تو کھایا نہ کھایا کام چل جاتا تھا۔ پچھلے دنوں بھوک لگنا بالکل ہی کم ہو گئی، پھر اسلام آباد ایک ٹور پہ گئے تو وہاں طبیعت کافی زیادہ خراب ہو گئی، کچھ سنبھلی، کچھ نہ سنبھلی لیکن اپنا کام پورا کر کے واپس کراچی آ گئے۔

چچا کا غصہ ہمیشہ انتہا کا ہوتا تھا، ہنسی مذاق بھی اسی لیول کا اور جذباتی بھی اتنے ہی۔ جب اوما سے میری شادی ہوئی تو ظاہری بات ہے پہلے نکاح کا مرحلہ تھا۔ نکاح ہوا، سب مبارک دے رہے تھے، میں ان کی طرف دیکھ رہا تھا، وہ رو رہے تھے۔ انہیں دیکھ کے میری آنکھوں میں بھی آنسو آ گئے۔ میں نے چچا کو روتے ہوئے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ اس دن شاید میں انوکھا دولہا تھا جو اپنے نکاح پہ آنکھوں میں آنے والے آنسو پینے کے چکروں میں تھا۔ اگلے دن رخصتی تھی، اس وقت بھی یہی سین ہوا۔

ابھی کچھ دن پہلے چھوٹی بہن کا نکاح ہوا۔ میں بڑی مضبوطی سے کھڑا تھا۔ گھر میں سب سے چھوٹا دل ہے الحمدللہ مگر اس دن ضبط کیے ہوئے تھا۔ نکاح کے وقت پتھر جیسے غیر جذباتی میرے ابو رو دئیے۔ ابو کو دیکھ کے پھر آنکھوں میں پانی آ گیا، امی آلریڈی اسی پوزیشن میں تھیں، اب سٹیج پہ کھڑے ہونا اور نہ رونے کی ایکٹنگ کرنا بڑا ٹف کام ہے۔

جیسے تیسے نبھا لیا لیکن آئلہ کی دفعہ کیا ہو گا اس دن سے اب تک یہی سوچ رہا ہوں۔ شاید بیٹی کی رخصتی کے وقت میں کہیں ادھر ادھر ہو جاؤں گا، اتنا بڑا دل کہاں سے لاؤں بھائی؟ یہ صبر والے بندے نکلے دونوں، پتا نہیں کیا ہو گا کیسے ہو گا؟ مشیر چچا کی بیٹی (میری شریک حیات) کراچی سے ملتان اور بعد میں لاہور آئی، میرے باپ کی بیٹی ملتان سے باہر سات سمندر پار جائے گی، کیا میں آئلہ کی شادی کہیں دور دیس کر سکوں گا؟

خیر، تو چچا نے اپنی بیٹی بیاہ دی۔ اب اوما سال کے سال کراچی جایا کرتی تھی۔ اس نے جاب شروع کی تو سال کا وقفہ بعض اوقات اور بھی زیادہ بڑھ جاتا تھا۔ ایمانداری کی بات ہے یار تنخواہ دار بندے ایک برس میں کتنی بار کراچی کا پھیرا مار سکتے ہیں؟ لیکن میں بہرحال اپنی جگہ پریشان رہتا تھا اور اب بھی ہوں۔ ایک باپ اپنی بیٹی سے ایک سال بعد ملتا تھا، میری وجہ سے؟ یا شادی نام ہی اس چیز کا ہے؟

کلیجے سے چوبیس گھنٹے لگائے، پال پوس کے، لاڈ اٹھا کے، ایسی ظالم دوستی کر کے، اچھے برے وقت گزار کے، ایک باپ اپنی بیٹی کیسے رخصت کر دیتا ہے سر؟ اپنا تو سوچنے کا حوصلہ نہیں ہوتا کہ جس سے روز باتیں ہوتی ہیں اس سے فون پہ بات کی جائے یا کمپیوٹر کی سکرین پہ اسے دیکھ کے خوش ہوا جائے۔ یا تو میں کچھ زیادہ ہی نازک باپ ہوں یا مضبوطی وقت کے ساتھ آتی ہے۔ معاملہ بڑا عجیب و غریب ہے۔

پچھلے دنوں اوما کی ایک ورکشاپ تھی۔ میں اور آئلہ بھی ساتھ گئے۔ ہم لوگ ہوٹل میں بیٹھے چائے کافی پی رہے تھے، وہ اپنی ورکشاپ میں تھی کہ مجھے اوصاف (اوما کا بھائی میرا خالہ زاد) کا فون آ گیا۔ اس نے وہ بری خبر سنائی جو میرے لیے اس سال کی سب سے تکلیف دہ بات اور اس تحریر کی پہلی لائن تھی۔ ”حسنین بھائی پاپا کو کینسر ہے۔‘‘ اگلے دن اوما کراچی چلی گئی۔

میں اسے کچھ سمجھا نہیں سکا، حوصلہ دوں تو کس بات کا دوں، صبر کرنے کا کہوں تو کس لیے کہوں، تسلی دوں تو کس منہ سے دوں؟ واپس آ کے ذہنی طور پہ وہ ہمیشہ وہیں ہوتی تھی۔ روز کراچی فون کرتے، خیر خیریت معلوم کی جاتی لیکن اذیت کم نہ ہوتی۔ کینسر کا مرض دونوں کو کھا جاتا ہے، مریض کو بھی اور اس کے پیاروں کو بھی۔

ایک انسان آپ کے سامنے ہے۔ ہنستا ہے، بولتا ہے، چلتا پھرتا ہے، طبیعت خراب ہوتی ہے تو لیٹ جاتا ہے، دل متلائے تو فارغ ہو کے تھوڑی دیر میں پھر بات کر لے گا لیکن وہ کچی ڈوری جو امید کی بندھی ہوتی ہے وہ بس ایک ریشہ باقی رہ جاتی ہے۔ آپ مستقل ایک بے یقینی میں رہتے ہیں۔ ایک نہ ختم ہونے والی پریشانی اور شدید مایوسی زندگی کا مستقل حصہ بن جاتی ہے۔

شروع کے پندرہ بیس دن تو چچا کو نہیں بتایا۔ سب ڈرتے تھے کہ ان کا ری ایکشن کیا ہو گا۔ پھر جب طبیعت زیادہ بگڑی، ہسپتال داخل ہوئے، ڈاکٹر نے کیموتھراپی کا مشورہ دیا تو ایک نیا مرحلہ تھا۔ ڈاکٹر سے ہی کہا گیا، اس نے خود چچا کو انفارم کیا اور ان کا جواب سب کے لیے حیران کن حد تک بہادرانہ تھا۔ انہوں نے صرف یہی کہا کہ یار جو ہو گیا سو ہو گیا، میں لڑوں گا، آپ جب چاہیں کیموتھراپی شروع کر دیجیے۔

سٹیج فور تھی، ڈاکٹروں سے جو ممکن ہوا کیا۔ آنٹی چوبیس گھنٹے میں شاید تین گھنٹے بھی نہ سو پاتی ہوں، ہر وقت ان کی تیمارداری میں مصروف، اوصی جیسی اولاد خدا سب کو دے، بغیر ماتھے پہ شکن لائے ہر ممکن خدمت کی، جو کام ماڈرن گھروں میں میل نرس رکھ کے کیے جاتے ہیں، وہ سب بھی اوصاف نے کیے۔ چار سیشنز کے بعد پہاڑ جیسے حوصلے والے اوصی کا پچھلے ہفتے صبح ساڑھے چھ بچے دوسرا فون آ گیا۔ وہ رو رہا تھا۔ اس بار بھی ایک بیٹی کو اس کے باپ کی بری خبر میں نے ہی سنانی تھی۔

میری ماں ملتان سے پشاور جب اپنے باپ کے جنازے پر پہنچی تھی تو بس آدھے ایک منٹ ہی اس کا چہرہ دیکھ پائی، آج یہی اوما (میری شریک حیات) کے ساتھ ہو رہا تھا۔ جیسے ہی چچا کے فوت ہونے کی خبر آئی ہم لوگ کراچی کی فلائٹ کروانے میں لگ گئے۔ پہنچتے پہنچتے شام ہو گئی۔ جنازہ مغرب کے بعد تھا۔ ہمارے گھر آنے پہ انتظار ختم ہوا۔ بیٹی کے بے شمار سوالوں، چیخوں اور آنسوؤں میں گھرا خاموش باپ اس کے آتے ہی چار کندھوں پہ کبھی واپس نہ آنے کے لیے بچھڑ رہا تھا۔ باہر خلقت کا ایک ہجوم تھا۔ دونوں وقت مل چکے تھے۔

حسنین جمال

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

حسنین جمال

حسنین جمال کسی شعبے کی مہارت کا دعویٰ نہیں رکھتے۔ بس ویسے ہی لکھتے رہتے ہیں۔ ان سے رابطے میں کوئی رکاوٹ حائل نہیں۔ آپ جب چاہے رابطہ کیجیے۔

husnain has 496 posts and counting.See all posts by husnain