گلگت بلتستان کے مستقبل کا سوال


گزشتہ دنوں گلگت بلتستان کے مستقبل کے سوال پر قومی اسمبلی میں جائزہ کمیٹی بنانے پر اتفاق کا اظہار کیا گیا تھا۔ اس بات پر اتفاق کیا گیا تھا کہ جائزہ کمیٹی کے سربراہ قومی اسمبلی کے سپیکر ہوں گے اور کمیٹی میں حزب اقتدار اور حزب اختلاف کو برابر نمائندگی دی جائے گی تاکہ گلگت بلتستان کے سوال پر اتفاق رائے پیدا کیا جا سکے۔ گلگت بلتستان کی اسمبلی کی حالیہ قرارداد کے فوراً بعد یہ اس باب میں یہ ایک نمایاں پیش رفت ہے۔

حال ہی میں گلگت بلتستان کی اسمبلی نے ان علاقوں کے مستقبل کے سوال پر ایک قرارداد پاس کی تھی۔ اس قرارداد میں مطالبہ کیا گیا تھا کہ گلگت بلتستان کو پاکستان کا عارضی صوبہ بنایا جائے۔ یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ گلگت بلتستان کی اسمبلی نے ایسی قرارداد پاس کی ہے۔ گلگت بلتستان کی مختلف اسمبلیوں کی طرف سے ماضی میں اس طرح کی قراردادیں پاس ہو چکی ہیں۔

یہ سلسلہ تاریخ میں بہت پیچھے جاتا ہے لیکن اگر صرف جدید تاریخ کو دیکھا جائے تو سولہویں صدی کے دوسرے نصف سے ان علاقوں کے مستقبل کا سوال مقامی اور علاقائی حلقوں میں کسی نہ کسی شکل میں زیر بحث رہا ہے۔

گلگت بلتستان کا علاقہ تاریخی طور پر کئی ایک چھوٹی چھوٹی ریاستوں، جاگیروں اور خودمختار علاقوں جیسی اکائیوں پر مشتمل رہا ہے۔ یہ تمام اکائیاں کبھی انفرادی طور پر، کبھی ایک دوسرے کے خلاف اور گاہے ایک دوسرے سے مل کر اپنی حیثیت اور خطے کی طاقت ور ریاستوں اور بیرونی حملہ آوروں کے بارے میں مختلف قسم کے موقف اختیار کرتے رہے ہیں۔ ماضی میں اس طرح کا موقف زیادہ تر راجوں، مہارجوں، میروں اور والیان ریاست اور علاقوں کے حکمران طبقے کی طرف سے آتا رہا ہے۔

ظاہر ہے تاریخ کے ان ادوار میں گلگت بلتستان کے عوام کا اس باب میں کوئی زیاہ نمایاں کردار نہیں رہا ہے۔ اگر گلگت بلتستان کے عوام کی تاریخ کو یہاں کے حکمرانوں کی تاریخ سے الگ کر کے دیکھا جائے، جو کہ تاریخ کو دیکھنے کا درست طریقہ ہے، تو یہ بات واضح ہوتی ہے کہ حکمران طبقات زیادہ تر فیصلے عوام کو اعتماد میں لیے بغیر ہی کرتے رہے۔ اپنے مفادات کے تابع فیصلے کرنے کے بعد عوام کو خوف ، لالچ اور جبر کے ذریعے یہ فیصلے ماننے پر مجبور کیا جاتا رہا ہے۔

اس کو آپ تاریخ کا جبر کہہ سکتے ہیں، کہ عوام ایسے فیصلے بھی تسلیم کرتے رہے، جو براہ راست ان کے مفادات سے متصادم تھے۔ البتہ بسا اوقات عوام اپنے علاقوں کی خودمختاری اور تحفظ کے لیے گاہے حکمرانوں سے مل کر، اور گاہے خود جنگ یا مزاحمت میں حصہ لیتے رہے ہیں۔ اس طرح اگر تاریخ کو عوامی نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو گلگت بلتستان کے عوام کی تاریخ برصغیر کے دیگر عوام کی طرح ظلم کی تاریخ ہے۔ انیس سو سینتالیس میں برصغیر کی تقسیم اور پاک و ہند کے آزادی کے بعد یہاں کے عوام بھی تقسیم کے عمل سے گزرنے کے بعد ایک نئی صورتحال کا شکار ہو گئے۔

اس وقت گلگت بلتستان ریاست جموں کشمیر کی عمل داری سے نکل کر ایک نئی متنازع شکل اختیار کر گیا، جس کا حل مسئلہ کشمیر کے ساتھ منسلک کر دیا گیا۔ اس طرح یہ علاقے طویل مدت تک کسی مسلمہ قانونی و آئینی حیثیت کے بغیر چلتے رہے۔

ستر کی دہائی میں کہیں جا کر ان علاقوں کی آئینی حیثیت اور مستقبل کا سوال اہمیت اختیار کرنا شروع ہوا، جس کی بازگشت پاکستان میں اقتدار کی راہداریوں میں بار بار سنائی دینے لگی۔ اس وقت دبے الفاظ میں اس حقیقت کو تسلیم کیا گیا کہ گلگت بلتستان کے عوام کو ان کے جمہوری اور بنیادی انسانی حقوق دینے کے لیے ان علاقوں کی آئینی حیثیت کا تعین ضروری ہے۔

لیکن بدقسمتی سے اس مطالبے کے خلاف ایک مضبوط بیانیہ سامنے آیا کہ ان علاقوں کی آئینی حیثیت میں تبدیلی سے مسئلہ کشمیر پر پاکستان کی پوزیشن پر منفی اثر پڑے گا۔ اس بیانیے کو یہاں کے عوام کے جمہوری مطالبات اور انسانی حقوق کی نفی کے لیے کامیابی سے استعمال کیا گیا۔ لیکن خوش قسمتی سے اگلی چار پانچ دہائیوں کے دوران اس باب میں دو تین اہم تبدیلیاں آئیں، جن کی وجہ سے ارباب اختیار کے لیے اس مسئلے کو زیاہ دیر تک التواء میں ڈالنا ممکن نہیں رہا۔

ان میں ایک تبدیلی یہ تھی کہ گلگت بلتستان کے عوام نے شعوری طور پر بہت بڑی انگڑائی لی۔ عوام کے اندر اپنی معاشی پسماندگی اور محرومی کا احساس بڑی شدت سے جاگا۔ ان کو اس بات کا ادراک ہوا کہ مسئلہ کشمیر کے نام پر ناحق ان کو ان کے جمہوری اور انسانی حقوق سے محروم رکھا جاتا رہا ہے۔

دوسری تبدیلی یہ آئی کہ بدلتے ہوئے عالمی حالات کے تناظر میں ان علاقوں کی غیر معمولی اسٹرٹیجک حیثیت ابھر کر سامنے آئی۔ تیسری بڑی وجہ چین کا روڈ اور بیلٹ منصوبہ تھا، جس نے علاقے میں ”گیم چینجر“ کا کردار ادا کیا، اور اس کی وجہ گلگت بلتستان غیر معمولی اہمیت اختیار کر گیا۔

چوتھی وجہ گلگت بلتستان کے غیر معمولی معدنی وسائل اور سیاحت کی دنیا میں اس کی اہمیت کا پہلے کی نسبت زیادہ واضح ادراک تھا۔ ان حالات پیش نظر گلگت بلتستان کی آئینی حیثیت کا سوال ایک کلیدی سوال بن گیا۔ اس سوال کا جواب فراہم کرنا صرف گلگت کے عوام کے لیے ہی نہیں، بلکہ پاکستان کے حکمران طبقات کے لیے بھی لازم ہو گیا۔ ان حالات میں گزشتہ دو دہائیوں کے دوران یہ سوال گلگت بلتستان کی مقامی سیاست کا سب سے اہم سوال رہا ہے۔

ان دو دہائیوں کے دوران پاکستان کے ارباب اختیار، مختلف وزرائے اعظم اور وزراء گلگت بلتستان کے دوروں کے دوران اس سوال پر بات چیت کرتے رہے۔ اس سلسلے میں کئی ایک فارمولے اور تجاویز زیر بحث آتی رہی۔ مگر ان میں سے جن پر سنجیدگی سے غور و خوض ہوتا رہا ، ان میں پہلی تجویز یہ رہی ہے کہ ان علاقوں کو پاکستان کے صوبے کا درجہ دیا جائے۔ اور دوسری تجویز یہ رہی ہے کہ یہاں پر آزادکشمیر طرز کا ”سیٹ اپ“ قائم کر کہ یہاں کے لوگوں کو ان کے جمہوری اور انسانی حقوق دیے جائیں۔

گاہے سماج کے ایک حصے کی طرف سے ان علاقوں کی اندرونی خود مختاری دینے یا آزادکشمیر کے ساتھ ملا کر مشترکہ حکومت کی تشکیل کی بات بھی ہوتی رہی۔ ان تجاویز پر مختلف مقامی فورمز اور اسلام آباد راولپنڈی میں بحث ہوتی رہی۔

اسی سلسلۂ عمل میں گلگت کی قانون ساز اسمبلی دوبار صوبہ بنانے کی قرارداد پاس کر چکی، مگر اس پر پاکستان کی اندرونی سیاسی کشمکش اور آئینی تقاضوں کی وجہ سے پیش رفت نہیں ہوئی۔ گزشتہ برس وزیراعظم پاکستان نے گلگت بلتستان کا دورہ کیا تو انہوں نے یہ اعلان کیا کہ ہم ان علاقوں کو پاکستان کا پانچواں عارضی صوبہ بنانے کا فیصلہ کر چکے ہیں۔

اس سے پہلے راولپنڈی میں پاکستان کی بڑی پارلیمانی پارٹیوں کے نمائندہ اجلاس میں بھی ان علاقوں کو عارضی صوبہ بنانے پر اتفاق کرنے کی خبر آ چکی تھی۔ ان اعلانات کے پس منظر اور پیش منظر میں گلگت بلتستان اسمبلی کی قرارداد اور بعدازاں جائزہ کمیٹی کی بات سامنے آئی۔

اس سارے قصے میں اہم بات یہ ہے کہ کسی بھی علاقے کے مستقبل کا تعین ایک بہت بڑا فیصلہ ہے، جو اس علاقے کے تاریخ، جغرافیہ اور لوگوں کی زندگیوں کو ہمیشہ کے لیے بدل کر رکھ دیتا ہے۔ اس طرح کے فیصلے کا تعلق عوام کے جمہوری اور انسانی حقوق کے علاوہ ان کے غیر مشروط حق خوداردیت سے بھی جڑا ہوتا ہے ۔ چنانچہ اس باب میں عوام کا حق ملیکت اور حق حکمرانی تسلیم کرنا لازم ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments