نیا قومی بجٹ مالی میزانیہ نہیں، سیاسی بیانیہ ہے


مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے اپوزیشن کے احتجاج اور ملک کی سیاسی روایت کے برعکس چھٹا قومی بجٹ پیش کرکے اس سال کے دوران منعقد ہونے والے انتخابات کے لئے ماحول کو سازگار بنانے کی بھرپور کوشش کی ہے۔ اس طرح اس بجٹ کو حکمران جماعت کا سیاسی بیانیہ تو کہا جاسکتا ہے لیکن اس میں ملک کو درپیش مالی مسائل کا احاطہ کرنے یا ان سے نمٹنے کے لئے کسی ٹھوس حکمت عملی کا اظہار نہیں ہؤا ہے۔ وزیر خزانہ نے اگرچہ گزشتہ مالی سال کے دوران قومی پیداوار میں 5.8 فیصد اضافہ کی نوید تو دی ہے اور افراط زر کو بھی پانچ فیصد کی حد کے اندر بتایا گیا ہے لیکن قومی آمدنی میں اضافہ اور گردشی قرضوں کی ادائیگی کے معاملات کے بارے میں صورت حال غیر واضح ہے۔ قومی بجٹ پیش کرنے کے لئے وزیر اعظم کے مشیر برائے مالی امور مفتاح اسماعیل کو وزیر خزانہ بنایا گیا حالانکہ وہ قومی اسمبلی یا سینیٹ کے منتخب رکن نہیں ہیں۔ یہ اقدام بھی دراصل یہ تاثر دینے کی کوشش کہی جاسکتی ہے کہ نواز شریف کی نااہلی کے بعد گزشتہ 9 ماہ کے دوران مسلم لیگ (ن) کو درپیش مشکل صورت حال ، سپریم کورٹ کے مسلسل دباؤ اور اپوزیشن کے قوت پکڑنے کے باوجود حکومت کے حوصلے بلند ہیں اور وہ انتخاب جیت کر ایک بار پھر حکومت بنانے کے لئے پر عزم ہے۔ حکمران جماعت کے اس عزم کی گواہی اس بات سے بھی ملتی ہے کہ موجودہ اسمبلیوں کی مدت ختم ہونے سے محض چند ہفتے قبل وفاقی کابینہ میں مزید پانچ وزیروں کا اضافہ کیا گیا ہے۔

نئے قومی بجٹ کا بنیادی نکتہ یہ ہے کہ عام لوگوں کو ریلیف دیتے ہوئے حکمران جماعت کی انتخابی مہم کے لئے آسانیاں پیدا کرنے کوشش کی گئی ہے۔ اسی لئے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں دس فیصد ایڈہاک اضافہ کا اعلان کیا گیا ہے اور پنشن یافتہ ملازمین کے مشاہرہ میں 37 فیصد تک اضافہ کا اعلان کیا گیا ہے۔ بجٹ کے مطابق اب کم از کم پنشن چھ ہزار روپے ماہانہ سے بڑھا کر دس ہزار روپے کردی گئی ہے ۔ اسی طرح بیوگان کی پنشن میں بھی خاطر خواہ اضافہ کیا گیا۔ بجٹ سامنے آنے سے قبل ہی وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے کالے دھن کو قانونی کرنے اور ٹیکس کی شرح میں کمی کے ایک پیکج کا اعلان کیا تھا۔ اگرچہ قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی میں اس پیکیج کے بارے میں شدید تحفظات کا اظہار سامنے آیا تھا لیکن وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے ان اقدامات کو بجٹ کا حصہ بناتے ہوئے ہر طرح کی آمدنی والے گروپ کو ٹیکس مراعات دینے کا اعلان کیا ہے۔ حکومت کا دعویٰ ہے کہ اس طرح سہولتیں دینے سے ملک میں ٹیکس دہندگان کی تعداد میں اضافہ ہو گا جس کے نتیجہ میں ٹیکس کی مد میں آمدنی میں اضافہ ہو سکے گا۔ پاکستان کی معیشت کو آمدنی پر ٹیکس کی وصولی کے لئے شدید مشکلات کا سامنا رہا ہے اور مختلف ادوار میں اس حوالے سے مختلف اقدامات تجویز کئے جاتے رہے ہیں ۔ ان میں سے کوئی کوشش بھی مکمل طور سے کامیاب نہیں ہو سکی ہے۔ اس لئے یہ کہنا مشکل ہے کہ ٹیکس مراعات کے نئے پیکیج سے حکومت زیادہ تعداد میں لوگوں کو آمدنی پر ٹیکس دینے پر آمادہ کرنے میں کامیاب ہو جائے گی۔ تاہم اس منصوبہ سے ملنے والی مراعات کا پہلے سے ٹیکس دینے والے تنخواہ دار طبقے کو ضرور فائدہ ہوگا ۔ اس طرح حکومت کے لئے سیاسی ہمدردی میں اضافہ کی امید کی جارہی ہے۔ اسی طرح کالے دھن پر معمولی محصول دے کر اسے جائز کروانے کا اقدام بھی تاجروں اور مالدار لوگوں کی سیاسی حمایت حاصل کرنے کی کوشش ہی کہی جا سکتی ہے۔ ماضی میں اس قسم کی کوششیں بیرون ملک سے سرمایہ واپس لانے میں خاص مددگار ثابت نہیں ہو سکی ہیں لیکن اس طرح ملک کے اندر کالا دھن جمع کرنے والے ضرور فائدہ اٹھاتے رہے ہیں۔ اسی طرح حصص کے لین دین پر محصول ختم کرکے مسلم لیگ (ن) نے تاجر برادری کو یہ باور کروانے کی کوشش کی ہے کہ وہی ان کے مفادات کا خیال رکھ سکتی ہے ، اس لئے سال رواں کے انتخابات میں اسی پارٹی کی حمایت جاری رکھ کر وہ اپنی دولت میں اضافہ کرسکیں گے۔

2018-19 کے قومی بجٹ میں صرف تنخواہ دار طبقہ یا تاجروں کو خوش کرکے مسلم لیگ (ن) کی سیاسی اپیل میں اضافہ کرنے کی کوشش نہیں کی گئی بلکہ دفاعی بجٹ میں 19.6 فیصد اضافہ کرکے فوج کو مطمئن کرنے اور یہ پیغام دینے کی کوشش کی گئی ہے کہ مسلم لیگ (ن) سیاسی بیان بازی اور بظاہر سامنے آنے والے تنازعات کے باوجود فوج کی قوت برقرار رکھنے اور دفاعی اخراجات میں کثیر اضافہ کرنے کے لئے آمادہ ہے۔ اس طرح وہ فوج کی بہترین معاون پارٹی ہونے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ حالانکہ مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے پہلی بار ملک کے ترقیاتی بجٹ میں کمی کا فیصلہ کیا ہے۔ بجٹ میں ترقیاتی اخراجات میں کمی کرکے انہیں 800 ارب روپے تک محدود کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ تعلیم اور صحت کے شعبے بھی بدستور نظر انداز کئے گئے ہیں کیوں کہ ان پر ہونے والے اخراجات کے اثرات فوری طور پر انتخابی سال کے دوران دکھائی دینے کا امکان نہیں ہے۔ حالانکہ ملک کی سپریم کورٹ ان دونوں شعبوں میں برتی جانے والی لاپرواہی پر سخت ناراضگی کا اظہار کرتی رہی ہے۔ وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار سے ملاقات میں یہ وعدہ کیا تھا کہ حکومت صحت اور تعلیم کے حوالے سے سپریم کورٹ کی تشویش دور کرنے کی پوری کوشش کرے گی۔ نئے قومی بجٹ میں ایسا کوئی ڈرامائی اعلان دیکھنے میں نہیں آیا۔

نواز شریف کی نااہلی کے بعد سے مسلم لیگ (ن) کی طرف سے سازش کے ذکر اور درپردہ قوتوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے یہ کہا جاتا رہا ہے کہ نواز شریف کے خلاف سپریم کورٹ کا فیصلہ ملی بھگت یا سازش کا نتیجہ ہے۔ نواز شریف اور مریم نواز بظاہر سپریم کورٹ کو نشانہ بناتے رہے ہیں لیکن درپردہ یا بین السطور وہ ملک کی فوج کو ہی اپنے زوال کا ذمہ دار قرار دیتے رہے ہیں۔ اسی لئے نواز شریف بار بار ’ووٹ کو عزت دو ‘ کا نعرہ بلند کرتے ہیں اور یہ پوچھتے ہیں کہ گزشتہ ستر برس کے دوران کسی بھی وزیر اعظم کو اپنے عہدے کی مدت کیوں پوری نہیں کرنے دی گئی۔ یہ تنقید سپریم کورٹ کی بجائے براہ راست فوج پر حرف زنی کہی جاسکتی ہے۔ لیکن قومی بجٹ میں دفاعی اخراجات میں اضافہ کے ذریعے جس طرح فوج کو خوش کرنے کی کوشش کی گئی ہے ، اس سے واضح ہوتا ہے کہ اینٹی اسٹیبلشمنٹ بیانیہ اختیار کرنے کا دعویٰ کرنے کے باوجود مسلم لیگ (ن) کے ر ہنما ملک پر بر سر اقتدار رہنے کے لئے فوج سے مفاہمت اور دوستی کی حکمت عملی ہی اختیار کرنا چاہتے ہیں۔ قومی بجٹ میں دفاعی اخراجات کے لئے مختص کئے جانے والے 1100 ارب روپے اور ریٹائرڈ فوجیوں کی پنشن اور مراعات میں اضافہ اس بات کا واضح اشارہ ہیں۔

احتساب اور جوابدہی کے اس موسم میں ہو نا تو یہ چاہئے تھا کہ بجٹ میں دفاعی اخراجات میں اضافہ کرنے سے پہلے فوج سے اس کی کارکردگی اور ضرورتوں کے بارے میں سوال کیا جاتا اور پوچھا جاتا کہ کیا وجہ ہے کہ تعلیم اور صحت کے مسائل کا شکار قوم اپنا پیٹ کاٹ کر کل قومی پیداوار کا پانچواں حصہ فوج پر صرف کرے۔ اسی حوالے یہ سوال بھی اہم ہے کہ فوج پر ملک کی سرحدوں کی حفاظت کرنے اور منتخب حکومت کے احکامات کے مطابق اقدام کرنے کے لئے قومی وسائل صرف کئے جاتے ہیں۔ لیکن کیا وجہ ہے کہ فوجی ادارے قومی معاملات میں اس قدر ملوث ہیں کہ ملک میں اسے باقاعدہ سیاسی قوت کے طور پر تسلیم کیا جانے لگا ہے۔ سیاسی حکومتیں اگر اس قسم کی جوابدہی کرنے کا حوصلہ نہیں کریں گی تو سیاست میں فوج کی مداخلت جاری رہے گی اور قومی معاملات میں فوجی لیڈروں کا بیانیہ ہی اہمیت کا حامل قرار پائے گا۔ نیا قومی بجٹ اس بات کا دستاویزی ثبوت ہے کہ ملک کے سیاسی اور مالی معاملات پر فوج کا تسلط ہے اور کوئی سیاسی پارٹی اسے حقیقی طور پر چیلنج کرنے کا حوصلہ نہیں رکھتی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2767 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali