بر صغیر کا گورباچوف


ایک یونین آف سوویت سوشلسٹ ریپبلکس (یو ایس ایس آر) ہوتی تھی۔ اس کا دم بھرنے والے ساری دنیا میں پھیلے ہوئے تھے۔ ”لیفٹ کی پالیٹکس“ بھی ایک پروفیشن تھا۔ لیفٹ کی سیاست کرنے والے سب لوگ یہ یقین رکھتے تھے کہ سوویت یونین اور سارے کیمونسٹ بلاک کے ممالک جنت نظیر تھے۔ عوام کو زندگی کی تمام سہولیات میسر تھیں اور کسی کو کسی قسم کی کوئی شکایت نہیں تھی۔ امریکہ اور اس کے حواری ہر وقت کیمونسٹوں کے خلاف پراپوگنڈہ کرتے رہتے تھے۔ لیکن لیفٹ کی سیاست کرنے والوں کی امید کبھی نہ ٹوٹی اور وہ سوویت یونین والا نظام ساری دنیا پر لانے کی کوشش جاری رکھے ہوئے تھے۔

یو ایس ایس آر کی اندرونی حالت پر بحث ایک الگ معاملہ ہے۔ لوگوں کو روٹی، کپڑا اور مکان کے ساتھ ساتھ تعلیم اور صحت کی سہولیات بھی کافی حد تک میسر تھیں۔ لیکن اس کے لیے عوام کو محنت مشقت کے علاوہ بھی کافی قیمت ادا کرنا پڑتی تھی۔ پورے کیمونسٹ بلاک میں بات کرنا تو درکنار بات سننا بھی خطرے سے خالی نہیں ہوتا تھا۔ ریاستی ادارے بے پناہ طاقت ور اور بے لگام تھے۔ ملک کے اندر اور باہر من مانیاں کرتے اور کسی کو جواب دہ نہ تھے۔ حتی کہ تیسری عالمی جنگ کا خطرہ ہر وقت دنیا پر منڈلاتا رہتا تھا۔

سوویت یونین اپنے دور کی طاقت ور ترین ریاست ستر سال سے قائم تھی۔ یو ایس ایس آر ایک اکیلا ملک نہیں تھا بلکہ پورے کیمونسٹ بلاک کی سربراہی بھی اس کے پاس تھی۔ پورا مشرقی یورپ اس بلاک کا حصہ تھا۔ بیرونی دنیا خاص طور پر یورپ اور امریکہ کے ساتھ اس کے تعلقات انتہائی کشیدہ تھے۔ سرد جنگ جاری تھی۔ باقی دنیا تو اس سرد کا فائدہ بھی اٹھاتی تھی لیکن یورپ اور امریکہ کے عوام بہرحال اس سرد جنگ سے بہت تنگ تھے۔ یورپ کو جنگ کے لیے ہمہ وقت تیار رہنا پڑتا تھا۔ یورپ کے اکثر ممالک میں ہر نوجوان مرد اور عورت کے لیے دو سال کی فوجی تربیت اور سروس لازمی تھی۔ اسلحے کی خطرناک دوڑ تھی۔ یورپ کے مختلف حصوں میں میزائیل نصب کرنے کے فیصلوں پر آئے دن مظاہرے ہوتے تھے۔ غرضیکہ ایک شدید ٹینشن کا ماحول تھا اور یورپی عوام کو اس سے چھٹکارے کا کوئی سبب نظر نہیں آتا تھا۔

1980 کی دہائی میں سرمایہ داری نظام والے ممالک اور کیمونسٹ ممالک کے درمیان تعلقات کی نوعیت اتنی خراب تھی کہ وہ ایک دوسرے کے ممالک میں ہونے والے کھیلوں کے عالمی مقابلوں میں بھی حصہ نہیں لیتے تھے۔ امریکہ اور اس کے اتحادی ممالک نے 1980 میں ماسکو اولمپکس گیمز کا بائیکاٹ کیا اور سوویت یونین بلاک نے 1984 میں لاس انجلس اولمپکس کا بائیکاٹ کیا۔ سرد جنگ کے ساتھ ساتھ ایک دوسرے کے خلاف باقاعدہ جنگ بھی جاری تھی۔ افغانستان میں سوویت فوج کے خلاف امریکی ڈالر، فوجی تربیت اور اسلحہ بذریعہ پاکستان کھلم کھلا استعمال ہو رہا تھا۔ مفت تقسیم کیے گئے امریکی اسلحہ سے ہر روز سوویت فوجی مارے جاتے تھے۔ دونوں دھڑوں کے درمیان سرد جنگ ختم ہونے کے کوئی امکانات تھے نہ امید۔ مایوسی اور نا امیدی کے اس دور میں سوویت یونین کی کیمونسٹ پارٹی کے افق پر گورباچوف کا ظہور ہوا۔

گوربا چوف نے ناممکن کو ممکن بنا دیا۔ کیمونسٹ بلاک کے تمام ممالک کی عوام کو ڈکٹیٹرشپ سے چھٹکارہ ملا۔ مشرقی یورپ کے ممالک کے یک طرفہ اقدامات سے ہی مغربی یورپ کے ممالک کے ساتھ تناؤ ختم ہوا۔ حتی کہ برلن وال گرا دی گئی اور دو جرمنی دوبارہ ایک ہوئے۔ دنیا سے تیسری عالمی جنگ کا خطرہ کافی حد تک ٹل گیا۔ حالانکہ امریکہ کا جنگی جنون پہلے سے کہیں زیادہ بڑہ گیا پھر بھی امریکہ اور یورپ کے ممالک کا آپس کا ماحول پہلے سے کہیں بہتر ہو گیا۔

ہمارے خطے کے ماحول میں بھی بہت عرصے سے بہت ٹینشن ہے۔ بھارت اور پاکستان تو آپس میں کرکٹ بھی نہیں کھیل سکتے۔ آپس کی بے اعتباری کی وجہ سے آئے دن ایک دوسرے پر الزامات لگائے جاتے ہیں۔ اور ہم دیکھتے ہیں کہ حالات ہر اگلے دن پہلے سے خراب ہوتے جا رہے ہیں۔ اگر آپس کا اعتبار بہتر ہو جائے تو باقی تمام مسائل بات چیت سے حل ہو سکتے ہیں۔ یہ کوئی ناممکن بات نہیں ہے۔

ان حالات کو ٹھیک کرنے کے لیے ایک گورباچوف کی ضرورت ہے۔ جو امن کی جانب یک طرفہ اقدامات شروع کرے۔ سارے خطے کے لوگ ایسا کرنے والے شخص کے ساتھ ہو جائیں گے۔ کامیابیاں اس کے قدم چومیں گی۔ امن اور دوستی قائم کرنے والی کاوشیں کبھی ناکام نہیں ہو سکتیں۔

امن کی حقیقی کوشش کرنے والے لیڈر کو نہ صرف اپنے خطے کے لوگ ہیرو اور لیڈر مانیں گے بلکہ وہ پوری دنیا میں بہت اعلی مقام اور مقبولیت پائے گا۔ اس کی تصاویر“ٹائم“ کے سرورق پر چھپیں گی اور اسے سال یا دہائی کی سب سے اہم شخصیت قرار دیا جائے گا اور غالب امکان ہے کہ وہ نوبل امن انعام بھی پائے گا۔ کون ہے جو انسانیت کی آزادی اور جنگ سے چھٹکارے کے لیے برصغیر کا گورباچوف بنے۔ مودی سے تو یہ امید نہیں رکھی جا سکتی۔

سلیم ملک

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سلیم ملک

سلیم ملک پاکستان میں شخصی آزادی کے راج کا خواب دیکھتا ہے۔ انوکھا لاڈلا کھیلن کو مانگے چاند۔

salim-malik has 355 posts and counting.See all posts by salim-malik