می ٹو۔ مرد کی بھی کوئی عزت ہوتی ہے


عزت صرف عورت کی نہیں مرد کی بھی ہوتی ہے۔ اس کے بچوں کے آگے اُسکی بیوی کے آگے۔ ماں باپ دوستوں کے آگے۔ لیکن عورت کو مظلوم ہونے کی تو جیسے ڈگری ہی مل گئی ہو۔ علی ظفر کی بھی عزت ہے اگر یہ بات جھوٹ ثابت بھی ہو گئی تو۔ کوئی مانے گا اور کو ئی نہیں لیکن چاقو کا زخم جسم پر لگتا ہے اور بہتان کا روح پہ لگتا ہے۔ جو کبھی بھی نہیں بھر سکتا۔ ایک عورت ہونے کے ناطے اتنا ضرور پتا ہے کہ ایک انڈسٹری میں کام کرنے والی عورت اور ایک گھریلو کام کرنے والی عورت میں زمین آسمان کا فرق ہوتا ہے۔ جیسا کہ ایک امیر اور غریب آدمی میں ہوتا ہے۔

میشا شفیع کوئی اٹھارہ سالہ بچی نہیں ہے۔ 36 سالہ عمر ظاہر کی ہوئی ہے جیسا کہ عموماً ہم عورتیں عمر چھُپانے میں ماہر ہوتی ہیں۔ اور عورت مظلوم بن کر فائدہ اٹھانے کی کوشش آج سے نہیں حضرت یوسف اور زلیخا کے دور سے کرتی آرہی ہے۔ اور کئی لوگ مصطفی کھر جیسے تباہ بھی ہو گئے۔ کیوں کہ ہمارے دیکھنے کا نظریہ ہی سب کچھ ہوتا ہے۔ چھ کے ہندسے کو لکھ کر میز کے اُوپر رکھ دیا جائے۔ دونوں طرف سے بندے بٹھا دو۔ آدھے بندے اس کو 6 کہیں گے اور آدھے اس کو 9 کہیں گے۔ اسی لئے تو قاضی اور جج بنے تھے۔ لیکن افسوس کہ ہم سچائی جانے بغیر ہی فیصلہ کر لیتے ہیں کہ عورت ہی مظلوم ہے۔ عورت کا احترام ضروری ہے۔ لیکن مرد کی بھی عزت ہوتی ہے۔ ورنہ ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر اللہ تعالی سارے کے سارے مردوں کو نہ بھیجتے۔

علی ظفر اس مقام پر پہنچا ہوا بندہ ایسی حرکت کرے بات کچھ ہضم نہیں ہوتی۔ اگر کی بھی ہے تو میشا عدالت جاتی یا خود اس کو سبق سیکھاتی۔ ایسا تو کسی عام عورت کو بس میں بھی چھیڑا جائے تو جُوتے مار مار کر آدمی کو ذلیل کر دیتی ہے۔ لیکن یہ فیشن بن گیا ہے۔ کہ بات سوشل میڈیا پر ہو تاکہ مشہوری ہو عزت کی پرواہ نہیں نہ اپنی نہ اگلے کی۔ ہمارے پاکستانی مرد دوسرے ملکو ں سے زیادہ بہتر ہیں۔ ان سے لوگوں کو ڈر نہیں لگتا کہ جنسی ہراساں کریں گے۔ اور برائیاں ہو سکتی ہیں۔ کرپشن یا پیسے کی دوڑ لیکن ایسے نہیں ہیں۔ اس بات سے ہمیں باہر آکر پاکستانی مردوں پہ فخر ہوتا ہے۔

مردوں کی بھی زندگی کوئی آسان نہیں ہوتی۔ پہلے پڑھائی کرو پھر گھر کا بوجھ اُٹھاؤ۔ شادی کے بعد بیوی کہتی ساس سر تو میرے شوہر کی کمائی کھا رہے۔ ماں باپ کہتے بیوی کا بن گیا۔ سب سے زیادہ مرد کے لئے مسلے ہوتے ہیں۔ عورت شادی کے بعد کبھی اپنی ماں بہن یا گھر والے نہیں چھوڑے گی مرد ہی چھوڑے گا۔ تیس سال کے رشتے تیس دن میں چُھوٹ جائیں گے۔ لیکن عورت کے کبھی نہیں چھوٹتے۔ اگر نہ چھوڑے تو عورت کا مظلومیت کا رونا ہوتا ہے۔ ماں باپ بیٹے کو پال پوس کے بڑا کرتے۔ اس کے مستقبل کے لئے جی جان لگا دیتے۔ ہیں۔ جب ان کا ٹائم آتا ہےتو وہ بیٹا نہیں بلکہ میرا شوہر کہا جاتا۔ ہے۔ اور میرا شوہر پیسے دیتا ہے۔ خدا کے لئے کچھ تو انصاف کرو۔ اور ہمارے ملک میں کتنے مسائل ہیں۔ میشا شفیع کو ہی ڈسکس کیا جارہا ہے۔

خدا را ان کو کورٹ میں بھیجیں تاکہ سچائی سامنے آئے۔ مرد بھی ایموشنل بلیک میل ہونا بند کریں خواہ بیوی ہو یا گرل فرینڈ ہو۔ دو چار دن سے علی ظفر والی خبر چل ہی تھی۔ آج میں نے پہلے انصاف کو سامنے رکھ کے اپنے اپ کو پڑھا تو اس نتیجے پہ پہنچی ہوں۔ کہ ایک عام سے عام عورت بھی اپنا الو سیدھا ہی رکھتی ہے۔ جتنی مرضی مظلوم ہو مرد پہ بھاری پڑتی ہے۔ کبھی مرد کو اس کے ماں باپ سے جُدا کرکے تو کبھی بچوں کو اُسکے آگے کھڑا کر کے کسی نہ کسی طریقے سے مرد کا نقصان ضرور کر ہی لیتی ہے۔ جب تک بے اختیار ہوتی ہے مظلوم رہتی ہے۔ جب اختیار مل جائے تو نسل برباد کر دیتی ہے۔ تبھی شاید اللہ نے طلاق کا آختیار مرد کو ہی دیا ہے۔ ہم عورتوں کے ہاتھ میں ہوتا تو ہر عورت میشا شفیع ہی ہوتی۔

عورت جب بہو ہوتی ہے تو کہتی ہے ساس بری ہے۔ جب ساس بنتی ہے تو کہتی ہے بہو بُری ہے۔ عورت نند ہوتی ہے۔ تو کہتی ہے بھابھی برُی ہے جب خود بھابی بنے تو کہتی ہے نند بُری ہے۔ بیوی بنے تو کہتی ہے شوہر برا ہے ماں باپ کے ساتھ فون پہ بات کرتا ہے۔ اور میرے بچوں کے پیسے اپنے ماں باپ کو دیتا ہے۔ جب ساس بنتی ہے۔ شوہر کو اہمیت دے دیتی ہے کہ میں پھر مظلوم بیٹا بیوی کا ہو گیا ہے۔ ہم جو بو تی ہیں وہی کاٹتی ہیں بچے جب باپ کو دادا۔ دادی کی عزت کرتے نہیں دیکھیں گے تو کل ہماری کیسے کریں گے۔ یہاں یورپ میں جس کا بھی بس چلتا ہے اور اپنے حقوق کے بارے پتا چلتا ہے۔ بچارے مردوں کی نوکروں سے بھی بد تر حالت بنا کے رکھی ہوئی ہے۔ حالانکہ وہی مرد یورپ لے کر آتا ہے۔

کئی گھرانے تباہ ہوئے ہیں جن کو میں ذاتی طور پہ جانتی ہوں۔ ایک دن نیشنلٹی ملتی ہے دوسرے دن شوہر پہ کیس کر دیتی ہیں وہ ذلیل خوار ہوکر اس دن کو کوستا ہے۔ کہ ماں باپ کو چھوڑ کر اس کو یورپ لایا تھا۔ جب تک نیشنیلٹی نہیں تھی میں ٹھیک تھا اور نیشنیلٹی لیتے ہی میں دشمن ہو گیاہوں۔ بینظیر بھٹو سے سوال کیا گیا تھا کہ زرداری صاحب کو لے کر آپ کو اپنے فیصلے پہ افسوس نہیں ہوتا۔ آگے سے مسکرا کر کہا تھا شادی ہے کوئی بزنس نہیں کہ فائدہ نقصان دیکھا جائے۔ ہم عورتیں آزادی کے نام پہ ایکسپوز ہو رہی ہیں۔ بعد میں مظلوم بن کے ڈپریشن کی مریض بن جاتی ہیں۔ میشا شفیع نے کوئی اچھا کام نہیں کیا۔ مشہوری کے عزت کے ساتھ نہیں کھیلا جاتا۔ علی ظفر کے ساتھ کام کرنا چھوڑ دیتی ہزار راستے ہوتے ہیں۔ ہم عورتیں راستہ بنانے کی ماہر ہوتی ہیں۔ شاہد مجھے بہت تنقید کا سامنا ہوگا ایسی باتوں سے لیکن یہی سچ ہے معافی چاہتی ہوں اگر کسی کو برا لگے تو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).