میشا شفیع کا علی ظفر پر جنسی ہراسانی کا الزام اور می ٹو۔۔!


می ٹو، جنسی ہراسانی کے خلاف توانا آواز ہے، جسے گلوب پر ایک ہالی ووڈ اداکارہ نے شروع کیا۔ اس کا کہنا تھا، کیریئر کے ابتدائی دور میں اسے فلمی دنیا کے ایک طاقت ور شخص نے جنسی ہراسانی کا نشانہ بنایا، چونکہ اس وقت اس کی پوزیشن کم زور تھی وہ خاموش رہی، مگر اب وہ چپ نہیں رہے گی۔

 اس کے می ٹو کے جواب میں دنیا کے مختلف حصوں سے می ٹو، می ٹو کی آوازیں اس تیزی سے ابھریں کہ اب یہ می ٹو ایک تحریک کی شکل اختیار کرتا جا رہا ہے۔

 جس کے تحت ہمارے تھرلڈ ورلڈ معاشرے جہاں، گناہ کو چھپانے، اور اسے زبان پر نہ لانے کی روایت ہماری تہذیبی اقدار کا (خود ساختہ) لازمی حصہ سمجھی جاتی ہیں، اور کوئی عورت ہو یا لڑکی، اس موضوع پر زبان ہلانے کے بجائے مر جانا پسند کرتی ہے، ان کے زخموں کے ٹانکے بھی جیسے کھلنے لگے۔

یہاں بھی می ٹو نے، صدیوں پرانی چپ توڑنے اور خود ساختہ بھرم کی جھلی اتار کر، دوغلے معاشرے کو اس کا اصلی چہرہ دکھانے کی کوشش شروع کر دی ہے۔ اس ضمن میں یہاں وہاں سے اکا دکا آوازیں ابھرنے لگی ہیں۔ یہاں وہاں، ہونٹوں پر لگی مہر تڑخنے لگی ہے۔

 پرانی چپ، جو عورتوں کو اس جبر کے خلاف احتجاج سے روکے ہوئے تھی۔ اب ٹوٹنے کو تیار ہے۔

 یعنی، دیواروں کے کونوں ِ دروازے کے پیچھے، بند کمروں، اندھیرے دالانوں، کوٹھوں، چوباروں، سنسان گلیوں کی نکڑوں، سیلے ہوئے نیم اندھیرے غسل خانوں، تاریک سیڑھیوں، تنگ کوٹھڑیوں، کھولیوں اور دیگر ایسی ہی چھپی ہوئی جگہوں پر کئے جانے والے گناہوں کو زبان ملنے گئی ہے۔

 دیواروں اور حبس زدہ صحنوں کی دراڑوں اور مساموں میں بھرے گناہ، گواہی پر آمادہ ہو رہے ہیں۔

 یہ گواہی ان بند کمروں، اندھیرے دالانوں، کوٹھوں، چوباروں، سنسان گلیوں کی نکڑوں، اور نیم اندھیرے غسل خانوں پر وقت کا قرض ہے، جس کی ادائیگی کا لمحہ اب زیادہ دور نہیں لگتا۔

ہم جانتے ہیں (مانیں نہ مانیں) عورت کہیں بھی محفوظ نہیں، گھر ہو یا باہر، کسی نہ کسی شکل میں اسے جنسی ہراسانی سے گزرنا ہی پڑتا ہے۔ جس کے بعد اگر وہ اس کا ذکر کرنے کی کوشش کرے تو بدنامی کے ڈر سے اسے چپ کرا دیا جاتا ہے۔  بدنامی ازلی خوف، جو اسے زبان کھولنے کی اجازت نہیں دیتا۔  یہی وجہ وہ مرجانا قبول کرتی ہے، سسک سسک کر زندگی کزارنا قبول کرتی ہے مگر زبان کھولنا؟  نہیں نہیں۔۔یہ نہیں ہو سکتا۔

 کیا یہی عورت یا لڑکی، آنے والے دنوں میں یہ کہنے والی ہے؟

 مجھے میرے رشتے کے چچا، بھائی، کزن، ماموں، خالو، خانساماں، ڈرائیور، بہنوئی، باس، کولیگ، دکاندار، راہگیر، کسی ٹی وی اور فلم ایکٹر، پروڈیوسر، سیاست دان، یا پھرکسی بظاہر مہذب اور پارسا دکھائی دینے وا لے، معزز دکھائی دینے والے نے جنسی ہراسانی کا نشانہ بنایا۔مگر میں چپ رہی کہ مجھے میری تہذیب نے اس جبر کے خلاف زبان کھولنے کی اجازت نہیں دی، جس نے میری روح میں شگاف ڈال دیا۔ مجھے زخم زخم کر دیا۔

 میں نے کہنا چاہا مگر مجھے میرے گھر والوں نے خاندان کی بھلائی اور عزت کے لئے خاموش کرا دیا۔ مجھے اپنے بچوں، شوہر اور اپنے گھر کی عزت کے لئے خود ہی خاموش ہو جاتا پڑا۔ میں بول نہ سکی، اس لئے کہ بولنے کا مطلب خود کو دنیا کے سامنے تماشا بنانا تھا۔ اس کے بعد زمانے میں میری کیا حیثیت رہ جاتی؟ کیا دنیا مجھے قبول کرتی؟ شوہر اپنے ساتھ رکھتا؟ اور رہے بچے تو کیا وہ ایسی ماں کو قابلِ نفرت نہ سمجھتے؟ اور پھر میری سچائی کی گواہی کون دیتا؟ مخالف فریق کیا اپنے دفاع کے بجائے خاموش رہتا؟ کیا میں اس کے خلاف کچھ ثابت کر سکتی؟

 ٹھہریئے یاد آیا، میرے اپنے خاندان میں میری ایک بے حد خوبصورت اور حیادار کزن کے شوہر صاحب، اس معاملے میں اتنے زیادہ بدنام تھے، کہ خاندان کے مردوں کو بھی ان کی آوارہ مزاجی، اوباشی اور شکاری فطرت سے کراہت آتی تھی، وہ سینما کے سامنے یا پھر پر ہجوم بازار میں کھڑے ہو کر عورتوں کو ہراساں کرتے تھے، اور انہیں زبردستی اپنی لمبی چوڑی گاڑی میں بٹھانے کی کوشش کرتے تھے۔ جس پر کبھی کبھار تو کوئی چھوٹا موٹا جھگڑا ہو جاتا، مگر اکثر اوقات لوگ پرائے پھڈے میں پڑنے سے گریز کرتے اور ان کے منہ لگنے کے بجائے خاموش رہتے، کہ ان کی امارت، لمبی چوڑی گاڑی، لباس اور باڈی گارڈ ان کے گرد ایسا حفاظتی حصار کھینچ دیتے، جس سے ہما شما ٹکرانے کی جرآت ہی نہ کر پاتے۔ ایک دفعہ سسرال آئے تو گھرکی ایک کم سن ملازمہ پر ہاتھ صاف کر دیا۔ لڑکی کی حالت دیکھ کر، گھر کے در ودیوار سے سہمی سہمی سرگوشیاں اٹھنے لگیں، جو بڑوں کے کان تک بھی پہنچ گئیں، بڑی سوچ بچار کے بعد ڈرتے ڈرتے بہنوئی صاحب سے اس جرم کی صفائی طلب کی گئی، انہوں نے الٹا گرجتے برستے ہوئے اسے اپنے پاک دامن پر سسرال کی جانب سے لگایا جانے والا داغ قرار دیا، اور سب پر گرجتے برستے، بیوی بچوں کو لیتے احتجاجاَ اس زیادتی کے خلاف واک آﺅٹ کر گئے۔ رہی بے زبان ملازمہ تو اسے دھتکار کر گھر سے نکال دیا گیا کہ اس نے گھر کے قابلِ عزت داماد پر اتنا گھناﺅنا الزام لگایا تو کیسے؟

یہ اسی کا زمانہ تھا، جس میں سرِ راہے عورتوں کو چھیڑنے، ان پر آوازے کسنے، بھیڑ بھاڑ کا فائدہ اٹھا کر ان سے کندھا ٹکرانے اور ان کی جانب رقعے اچھالنے جیسے واقعات، ناقابلِ معافی جرائم سمجھے جاتے تھے۔ اور لڑکیاں، بیبیاں ایسے بازاری مردوں کو نفرت سے دیکھتی تھیں۔ اس زمانے میں عورتوں سے زیادتی کی برائی تو یقینا موجود تھی، مگر اجتماعی زیادتی کا تصور بھی کہیں پایا نہ جاتا تھا۔

البتہ جنسی ہراسانی کے واقعات اس ماحول کا روز مرہ تھے، کہ عورتیں، لڑکیاں بے زبان تھیں، بزدل تھیں، اور یہ بے زبانی اور بزدلی ان کی تربیت میں یہ کہہ کر بھری جاتی تھی، کہ دیکھو شوہر کے سامنے بولنا نہیں ورنہ گھر ٹوٹ جائے گا۔ دیکھو ! کوئی کچھ بھی کہے خاموش رہنا اور صبر کرنا۔ ان کے نزدیک صبر کا مطلب ظلم سہنا، اور اپنے حق کے لئے آواز اٹھانے کی بھول کر بھی کوشش نہ کرنا تھا۔  چنانچہ یہ صبر گھٹی میں پیئے عورت، پیدا ہوتی رہی اور اسی میں مرتی رہی۔ روﺅ مت یہی تمہاری قسمت ہے، یہ کہہ کر مظلوم عورتوں کو مزید خاموش کرایا جاتا رہا۔

 مگر اب وقت بدل رہا ہے۔ ظلم سہنے، مار کھانے اور ہراسانی کا جبر روح پر جھیلنے والی عورت، صبر اور بزدلی کا فرق محسوس کرسکتی ہے۔ سوشل میڈیا کے ذریعے اپنی آواز پورے گلوب پر پھیلا سکتی ہے۔ اسے گلا پھاڑ کر چیخنے کی ضرورت نہیں رہی۔ یہی وجہ اس آواز میں تیزی سے دنیا کے مختلف حصوں سے اٹھنے والی آوازیں شامل ہو رہی ہیں۔ شوبز کی عورتیں کہ وہ عام عورتوں کی نسبت زیادہ بولڈ، پر اعتماد اور مضبوط سمجھی جاتی ہیں۔ اسی لئے ہالی ووڈ کی اداکارہ کی آواز کو اعبار بھی ملا اور پزیرائی بھی اور اس کی می ٹو میں تیسری دنیا کا معاشرہ بھی شامل ہونے لگا۔ میشا شفیع کا علی ظفر پر ہراسانی کا الزام، سچ ہے یا جھوٹ جیسا سچ، اس کا فیصلہ تو آنے والے وقت میں ہو ہی جائے گا۔

 مگر اس جھوٹ، سچ پر جس طرح میڈیا، سوشل میڈیا اور دیگر فورمز پر بات ہو رہی ہے، اسے دیکھ کر لگتا ہے،  عورت کی چپ ٹوٹنے کو ہے۔ اب عورت نام کی خاموش بے زبان گائے، بول پڑنے کو ہے۔ وہ گناہ جو سفید پوشوں نے خود پر جائز کر لئے تھے، اور وہ گناہ جو وائٹ کالر کی آڑ میں نہایت بے فکری سے کئے جاتے تھے، ان کا نامہءاعمال کھلنے کو ہے۔

 ہاتھ، پاﺅں، اور وہ سارے اعضاء جو ظلم سہ کر خاموش رہتے تھے، ان کی جانب سے گواہی اٹھنے ہی والی ہے۔ جس کے بعد چاہے قیامت آئے نہ آئے، مگر عورت ظلم، نانصافی اور جبر کے سامنے کھڑے ہونے کا سلیقہ ضرور سیکھ جائے گی، اگرچہ اسٹیٹس کو، اس کے آڑے آئے گا۔ اگرچہ اس کے پاﺅں کے نیچے دھرتی ضرور ڈول جائے گی۔ مگر اس کوشش میں اگر وہ دھرتی پر پیر جما کر مضبوطی سے کھڑی رہی تو پھر وہ دن دور نہیں، جب جنسی ہراسانی ایک چھپا ہوا گناہ نہیں، ناقابلِ معافی جرم بن کر سامنے آئے گا۔ جس کی گواہی کم زور نہیں توانا ہو گی، جسے نظر انداز کرنا ممکن نہ ہو گا۔

 مگر اس کے لئے ایک شرط ہے۔ کردار کی مضبوطی اور الزام تراشی سے گریز۔  کہ مرد بھی انسان ہیں۔ قابلِ تعظیم ہیں اور سارے مرد جنسی مریض نہیں۔ بلکہ ان میں بہت سے ایسے ہیں، جن کی کریم النفسی کسی شک و شبہ سے بالا تر ہے۔ چنانچہ محض صنفی امتیاز کی بنا پر ان پر انگلی اٹھانا غلط ہے۔

 میشا شفیع ہو یا کوئی گمنام گھریلو عورت، اس ضمن میں احتیاط پسندی کی ضرورت ہے، تاکہ معاملہ محض الزام تراشیوں، اپنے پر گزرتے جبر کی حکائتوں، اور ظلم کی داستانوں کے شور شرابے سے نکل کر سنجیدہ حل کی جانب جا سکے۔ اور عورت نہ صرف جنسی ہراسانی سے خود کو بچا سکے بلکہ اپنے دیگر حقوق حاصل کرنے کی راست راہ اپنا سکے۔۔۔!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).