ایک خمیدہ لکیر اور پانچ کروڑ کا پہاڑ


اگر نقشے میں مشرقی افریقہ کے دو اہم ممالک تنزانیہ اور کینیا کو دیکھیں تو ان کے درمیان سرحد ایک سیدھی لکیر کی مانند نظر آتی ہے جو شمال مغرب میں یوگنڈا میں جھیل وکٹوریہ سے شروع ہوتی ہے اور جنوب مشرق میں کینیا کے ساحلی شہر ممباسا پر ختم ہو جاتی ہے۔ تقریباً آٹھ سو کلومیٹر لمبی یہ سرحدی لکیر ترچھی آتے آتے اچانک ایک مقام پر اس طرح سے خم کھاتی ہے گویا کسی نے ادا ے دلبرانہ سے زلف یار کو بائیں گال سے اٹھا کر دائیں گال پر رکھ دیا ہو۔ سرحدی لکیر کے اس ایک خم میں بہت سی دلچسپ کہانیاں پوشیدہ ہیں کچھ سچی اور کچھ مبالغہ آری سے بھرپور۔

یہ وہ جگہ ہے جہاں افریقہ کی سب سے بلند چوٹی ماؤنٹ کلمنجارو کینیا کی بجاے تنزانیہ میں شامل ہو جاتی ہے۔ اس سرحدی لکیر کے ٹیڑھے پن میں ملکہ وکٹوریہ جو برطانیہ کی ملکہ ہونے کے ساتھ ساتھ حقیقی معانی میں یورپ کی دادی ماں کہلانے کی حقدار تھیں اور ان کے بھتیجے جرمنی کے مستقبل کے آخری بادشاہ قیصر ولھلیم دوم کے بچپن کی معصومانہ خواہش کی داستان شامل ہے جو زبان زد عام ہوئی۔

داستان کے مطابق ننھے شہزادہ ولھلیم نے اس خواہش کا اظھار کیا کہ چونکہ دادی ملکہ بطور ملکہ برطانیہ مشرقی افریقہ کی مختار کل ہیں اس وجہ سے ان کے زیر تصرف دو پہاڑ ہیں یعنی کینیا میں واقع ماؤنٹ کینیا اور تنزانیہ میں واقع ماؤنٹ کلیمنجرو بھی۔ جرمن زبان میں شہزادہ کہنا چاہ رہا ہو گا۔ دادی ملکہ چپڑی اور دو دو۔ پس اس انوکھے لاڈلے نے کھیلنے کے لئے چاند مانگنے کی بجاے پہاڑ مانگ لیا۔ ہمارے یہاں کی کوئی سیانی دادی ہوتی تو فورن باورچی خانے کی طرف منہ کر کے کہتی۔ بہو ذرا ادھر آنا یہ چھوٹے کو پٹی پڑھا کر تم نے بھیجا ہے۔

تاہم دادی نے اس معصوم سی خواہش کے آگے سر تسلیم خم کر دیا اور عین اسی طرح جیسے کسی زمانے میں ہمارے یہاں کی دادیاں نانیاں اپنے دوپٹے کے پلو سے اٹھنیاں نکال کر جان چھڑاتی تھیں اسی طرح دادی ملکہ نے بھی ماؤنٹ کلیمنجرو کو ننھے شہزادے کے تصرف میں دینے کا حکم صادر کر دیا۔

ظاہر ہے اس کہانی میں صداقت کا عنصر کم ہی نظر اتا ہے تاہم برطانوی سامراج پر تنقید کرنے والوں نے اس کو خوب اچھالا اور پھر سیاحت سے۔ جڑے افراد نے اپنے مہمانوں کی دلچسپی کے لئے اسے خوب بڑھاوا دیا۔ برطانوی اور جرمن سامراجی قوتوں کی یہ چپقلش مشرقی افریقہ میں بہت سے چھوٹے بڑے تنازعات کا سبب بنی۔ جنگ عظیم اول کے شروع ہونے تک مشرقی افریقہ میں جرمنی کے زیر تسلط رہنے والے علاقوں میں موجودہ روانڈا، برونڈی اور تنزانیہ جو کہ اس وقت تنگنیکا کہلاتا تھا شامل تھے۔

جزیرہ زینزیبار جو اب تنزانیہ کا حصہ ہیں اور سیاحوں کی جنت سمجھا جاتا ہے برطانوی سامراج کے زیر تسلط چھوٹی سی ریاست تھی۔ موجودہ کینیا اور اس کا ساحلی علاقہ برطانیہ کے زیر تسلط تھا۔ موجودہ دور میں تنزانیہ کا قیام اس وقت آیا جب ساٹھ کی دہائی میں زنزیبر کے جزائر اور تنگنیکا کو ملا کر موجودہ تنزانیہ کا ملک وجود میں آیاتاہم جس دور کی ہم بات کر رہے ہیں وہاں پر کینیا برطانوی اور تنزانیہ جرمن سامراج کے زیر نگیں تھا۔

مورخ شان ہینر نے 1996 میں چھپنے والی کتاب
Why Kilimanjaro is in Tanzania
صفحہ نمبر 18
میں اس سارے مسئلے کا نہایت دلچسپ جواب دیا ہے اور وہ یہ کہ جرمنوں کے پاس ماؤنٹ کلیمنجرو تھا اور ساحلی شہر ممباسا نہیں، برطانوی سامراج کے پاس کینیا کا اہم ساحلی شہر ممباسا تھا لیکن کلیمنجرو کا پہاڑ نہیں اس سے یہ واضح ہو سکتا ہے کہ کلیمنجرو تنزانیہ میں کیوں ہے۔ کیوں کہ ممباسا کینیا میں ہے۔

مشرقی افریقہ کے سامراجی پس منظر میں یہ ایک کھرا سودا لگتا ہے کہ یا تو آپ پہاڑ رکھ سکتے ہیں اور یا پھر ساحل مگر دونوں نہیں۔
اس سارے پس منظر میں جرمنوں اور برطانوی حکام کے ایک تاریخی معاہدہ بھی موجود ہے اور وہ ہے یکم جولائی 1890 کا Heligoland Zanzibar معاہدہ

اس معاہدے میں دونوں سامراجی قوتوں نے مشرقی افریقہ کی بندر بانٹ کو نہایت مہارت کے ساتھ یقینی بنایا تاکہ ایک دوسرے کے مفادات کا تحفظ کیا جا سکے۔

جناچے اسی معاہدے کے تحت جرمنی نے زنزیبر کی سلطنت اور جزائر سے دستبرداری اختیار کی اور بدلے میں موجودہ تنزانیہ کا دارلحکومت دارسلام کا ساحلی علاقے اپنے نام کیا اور ساتھ ہی Heligoland چار سو بیس ایکڑ پر پھیلا ہوا جرمنی کے مغرب میں جزائر کے مجموعہ بھی جو اس دور میں برطانوی قبضے میں تھا لیکن جرمنی والے اسے دفاعی نقطہ نظر سے اہم گردانتے تھے۔

غرض کلیمنجرو کا پہاڑ سامراجی بندر بانٹ کا ایک شاہکار نمونہ ہے تاہم قابل ذکر بات یہ ہے کہ سامراجیوں آقاؤں کے بر عکس دونوں افریقی ممالک نے اس تنازعے کو احسن طریقے سے حل کر رکھا ہے لہذا آج بھی کینیا کی جانب سے ماؤنٹ کلیمنجرو پر جانے کی ممانعت ہے اور تنزانیہ کی درآمد کا ایک بڑا حصہ کلیمنجرو کی سیاحت سے ہی پورا ہوتا ہے جو سالانہ پانچ کروڑ ڈالر ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).