پانی کی جنگیں


کسی دانشور کو کہتے سنا تھا کہ جنگیں پانی کے لئے لڑی جائیں گی۔ پہلے پہل تو اس بات کا یقین ہی نہ کیا اور ڈیم بناتے گئے کہ ضرورت کی چیز ہے۔ پھر جب درج بالا سازش سے پردہ اٹھا تو ہم نے بھی ٹھان لی کہ مدعا ہی مکائے دیتے ہیں۔ دنیا کی تباہی کے اس نئے سبب کو سمندر برد کرکے انسان دوستی کا حق ادا کر رہے ہیں۔ نہ رہے گا بانس اور نہ بجے گی بانسری۔

جنگوں کی تباہ کاریوں سے دو طرح سے بچا جاسکتا ہے۔ ایک تو آلات حرب کو مٹی میں ملادیا جائے۔ اس سے مستقل چھٹکارا پالیا جائے۔ اس ضمن میں ہم دنیا سے آگے ہیں۔ اس کیوجہ کچھ اور نہی بلکہ اقوام عالم کے روایتی طریقہ ہائےکار سے ہٹ کار ہنگامی اقدامات ہیں۔ اب نیوکلئیر ہتھیاروں کے تدارک کے لئے کی جانے والی کوششوں کو ہی دیکھ لو، بے سود۔ جن قوموں نے این پی ٹی بنائی پہلے تو انہوں نے ہی توثیق نہ دی۔ اور ہمارے لئے ایسی تھیوریوں میں سازش کے پہلو ذیادہ ہوتے ہیں۔ اس لئے ناکامی اس کا مقدر ٹھہری۔

پانی کے معاملے میں البتہ ہم نے آزمودہ دیسی ٹوٹکوں پر عمل کیا۔ ہمارے ہاں اتائیت ویسے بھی مقبول عام ہے۔ شاید دیسی طریقوں سے ہمارے لوگ جلد صحتیاب ہوتے ہیں۔ ڈاکٹروں کے جھمیلے میں پڑ کر وقت کا ضیاع جدید دور کی اختراعات ہیں۔ جو لوگ یہ بات کرتے ہیں کہ ملک میں معالجوں کی کمی ہے وہ زمینی حقائق سے نابلد ہیں۔ الحمد للہ اس شعبے میں نہ صرف ہم خود کفیل ہیں بلکہ ہمارے حکماء کو دنیا بھر کے شاہی خاندانوں کے طبیب ہونے کا شرف حاصل ہے۔ ان کی خدمات ایکسپورٹ کی جاتی ہیں۔

بات ہورہی تھی پانی کی جنگوں سے نجات کے لئے ہماری قومی خدمات کی۔ ایسی خطرناک وجہ کو سنبھالے رکھنا کسی طور گوارہ نہی۔ ہمارے قومی وسائل بھی اس بات کی اجازت نہی دیتے کہ اس کی حفاظت پر اخراجات اٹھائے جائیں۔ بھلا ہو قدرت کا کہ ہمیں سمندر جیسی نعمت سے نوازا۔ ہمارا اتنا بڑا بوجھ پہلے پہل تو اس بیچاری مخلوق نے اٹھائے رکھا۔ انکار اس نے بعد میں بھی نہی کرنا تھا لیکن ہم نے اپنے تمام مسائل کو اس لاچار پہ تھوپنے کا قصد کرلیا ہے۔ شہروں کو صاف رکھنے کا بندوبست بھی اسی کو سونپ دیا ہے۔ کروڑوں من کچرے سے شہر پاک کرنے کے لئے اسی کو استعمال کرتے ہیں۔ یہ کوئی نئی بات نہی ہے۔ ہمارے بڑے جب ہندو تھے تو وہ بھی اپنے پاپوں کو انہی پانیوں سے اشنان کرکے دھوتے تھے۔ اب ترقی کی قرائن نے ہمیں شہروں کو پاک کرنے کے لئے بھی اس کے استعمال سے آشنا کردیا ہے۔

خیر سمندر کے احسانات دس بیس سال تو اتار نہی سکتے اس کے بعد ہو سکتا ہے کسی اور محسن کو چن لیں۔ جب کبھی پانی اپنے اندر کا چھپا شر ظاہر کرنے کی ٹھان لے تو پھر ہم بھی اپنی جانوں پے پہ کھیل کر اسے برباد کرڈالتے ہیں۔ ایسا کرنے میں مال مویشی کا نقصان تو برداشت کرنا پڑتا ہے لیکن ہم بھی اسے گلی کوچوں میں گھسیٹے پھرتے رہیں۔ دنیا اس عمل کو سیلاب کا نام دیتی ہوگی ہمارے لئے تو شر میں چھپی راحت ہے۔

ایک دوسرا طریقہ ہے ملاوٹ۔ اسلحہ میں کثافتیں شامل کرکے اسے ناقابل استعمال بنانا۔ غالب بیچارہ پرانے وقتوں کا آدمی تھا۔ آج دیکھتا تو کبھی یوں نہ کہتا:
ہم کہاں کے دانا تھے، کس ہنر میں یکتا تھے
بے سبب ہوا غالب دشمن آسماں اپنا

اس جدید ترقی میں ہمارا کوئی ثانی نہی۔ اشیاء میں ملاوٹ تو پرانے وقتوں کی بات ہے۔ ہم نے تو کثافتوں کو بھی مشرف بہ ملاوٹ کیا ہوا ہے۔ اسی میں ترقی اور امن کے اسرار بھی پنہاں ہیں۔ پانی کو ناقابل استعمال بنا کر جھگڑے کا جواز ہی مٹادیا ہے۔ اب کوئی نامعقول ہی ہوگا جو ایسی بیکار اشیاء کے لئے لڑتا پھرے۔ ترقی کے لئے بھی ہم نے ہوا کی کمپوزیشن تھوڑی سی تبدیل کی ہے۔ اب اگر کوئی اس پر تنقید کرے تو اس کے پیش نظر ہماری توانائی میں خود کفالت ہے۔ دنیا ویسے بھی ہماری ترقی کی رفتار سے خائف ہے۔ ڈرتی ہے کہ کہیں ہم جلد ہی ستاروں پہ کمند نہ ڈال لیں۔ ناسا والوں کو بلا وجہ وہاں سے کوچ کرنا پڑ جائے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).