ٹیڑھی آنکھ کے لوگ



نواز شریف کے بعد اب خواجہ آصف کی نا اہلی کے فیصلے پر جو لوگ اب تک حیرت و افسوس کے صدمے سے باہر نہیں نکلے اس کی دو ہی وجوہات ہو سکتی ہیں یا تو وہ ہماری عدلیہ کے تاریخ ساز کارناموں اور کرشماتی خصوصیات سے واقف نہیں یاوہ باقی دنیا کی لولی لنگڑی عدالتوں اوران کے بوسیدہ نظام انصاف کو اپنے دماغوں میں بٹھائے ہوئے ہیں، حالانکہ ایسے موازنے کا تصور ہی سرے سے غلط ہے، ہماری عدالتوں او ر ان کے ”مدتوں یاد رکھے جانے والے ‘‘ فیصلوں کا بھلا کسی اور ملک کی عدالتیں کیا مقابلہ کر سکتی ہیں؟

غیر ملکی عدالتوں کو تو اپنے گردوپیش جھانکنے کی توفیق تک نہیں ہوتی، حیرت ہے وہا ں کے عوام ایسی کاہل، سست غیر فعال اور کام چور قسم کی عدالتوں کو برداشت کیسے کر رہے ہیں؟ یہ بھی کوئی عدالتیں ہیں جنہیں عام لوگوں کے مقدمات کے علاوہ کچھ اور دیکھنے اور کرنے کی فرصت ہی نہیں ملتی؟ الحمداللہ ہمارے پاس پہلے” قابل افتخا ر ‘‘اوراب قوم پر مر مٹنے والی ”جاں نثار‘‘ عدلیہ ہے جو سارے ملک کا درد اپنے جگر میں سمونے اور از خود نوٹس کا بھاری بوجھ اٹھانے کا حوصلہ رکھتی ہے۔ کون سا ایسا مسئلہ ہے جو ہماری عدالتوں کو طے نہیں کرنا پڑ رہا، حتیٰ کے دودھ کی قیمتیں بھی عدالتوں نے اپنے ذمے لے رکھی ہیں، اوپر سے خلاف آئین قانون کی منسوخی سمیت پیچیدہ ترین سیاسی تنازعات بھی عدلیہ کو حل کرنا پڑ رہے ہیں۔

ذرا سوچیں! ایسا معاشرہ جہاں چار افراد ا اکٹھے بیٹھ جائیں تو ہنگامہ برپا کر دیتے ہیں، ایسی جھگڑالوسوسائٹی میں ہمارے ججوں کی ذہنی ہم آہنگی غیرمعمولی چیز نہیں تو اورکیا ہے؟ بلکہ یہ تو نعمت خداوندی ہے لیکن ہم نے خوش ہونے والی باتوں پر خوش ہونا سیکھا ہی نہیں بلکہ بعض مقدمات میں تو تفتیش اور تحقیق کا بوجھ بھی عدلیہ ہی کو اپنے کندھوں پر اٹھا نا پڑتا ہے پھر بھی کوئی مطمئن نہ ہو تو عدلیہ کیا کرے؟ ایک کرپٹ شخص کے گلے میں چار بار نا اہلی کے طوق ڈالنا اور وہ بھی اتفاق رائے سے کیا یہ کوئی چھوٹا موٹا کارنامہ ہے؟ کسی اور ملک کی عدالت متفقہ فیصلوں کی ایسی سلسلہ وار سیریز پیش کرکے تو دکھائے؟

اگر مغرب اپنے روایتی تعصب کا مظاہرہ نہ کرے تو ہماری عدلیہ کے حالیہ فیصلے گنیز بک میں بطور ورلڈ رکارڈ درج ہونے چاہئیں تاکہ دنیا کو پتا چلے کہ ایک ایسا پسماندہ ملک جس کی کوئی کل سیدھی نہیں لیکن اس کا ایک ادارہ ایسا ہے جس پر پوری قوم کو ناز ہے، جہاں شیکسپئیر، آئین اسٹائن، کنفیوشس، سقراط، بلکہ ارسطو جیسے دماغ رکھنے والے آج بھی موجود ہیں، جہاں کی معزز ہستیوں کو لوگ بن مانگے عزت و توقیر سے نوازتے ہیں، سب سے اہم بات یہ کہ ہمارے ججز کو سترہویں صدی کے پادریوں کی طرح توہین کے قوانین کا سہارا نہیں لینا پڑتا، ہماری عدالتوں کو زبردستی عزت کرانے کا شوق ہوتا تو وہ بھی ہر سماعت پر”ترازو کو عزت دو‘‘ کے نعرے لگاتی نظر آتی۔

ہماری ارض پاک کو جس بدعنوانی، پراگندگی اور سیاسی ناپاکی سے پاک کرنے کا جھنڈاعدلیہ نے بلند کیا ہے اس پر تو آئندہ نسلوں کو بھی ججز کا احسان مند رہنا چاہیے مگر کیا کیجئے اس جاہل، ان پڑھ اور بے شعور عوام کا اور کچھ نام نہاد دانشور وں کا جو بغض، عناد اور شخصیت پرستی کے خول سے نکلنے کو تیا رنہیں حالانکہ اس کے لیے ہمارے مقدس اداروں ان تھک محنت کر رہے ہیں، مگر ہمارا عام طبقہ ایسے۔ ”مرد ناداں‘‘ پر مشتمل ہے جس پر نرم و نازک تو کیا سخت سے سخت کلام اور فیصلہ بھی اثر نہیں کرتا، یہ نا اہلوں کو بھی ڈبے بھر بھر کر ووٹ دے دیتے ہیں۔

کون کہتا ہے عدالت جانبداری کا مظاہرہ کر رہی ہے، نواز شریف کے ساتھ جہانگیر ترین بھی تو نا اہل ہوئے تھے مگر کج فہم عوام کو سوفیصد متوازن ترازو بھی ٹیڑھا دکھائی دیتا ہے، اصل میں قصور فیصلے دینے والوں کا نہیں بلکہ خود عوام کی اپنی آنکھیں ٹیڑھی ہیں۔

آخر قابل احترام چیف جسٹس ثاقب نثار صاحب کے اس دعوے کو تسلیم کرنے میں کیا مضائقہ ہے کہ”موجودہ عدلیہ جہاد کر رہی ہے اور ان کے ساتھی ہی اصل شیر(مجاہد )ہیں‘‘ لیکن ہماری عوام عجیب ہٹ دھرم ہے، اسے قاضی کی قسموں اور وضاحتوں پر بھی یقین نہیں آتا، ایسے تنگ نظر اور شقی القلب لوگوں کو سوچنا چاہیے کہ یہ ہمارے منصفوں کا بڑا پن ہے ورنہ کس جج کے پاس اتنا وقت ہے کہ وہ پہلے فیصلہ لکھے پھر اس کی وضاحتیں بھی دیتا پھرے۔

اب بھلا یہ کوئی کہنے والی بات ہے کہ اس”عدالتی جہاد‘‘ کے جھنڈے میں انہی طاقتوں کا ڈنڈا ہے جو ضیائی دور سے جہاد کے حقیقی روح رواں رہے ہیں، ایسا الزام صریحاً ہماری عدلیہ کی آزادی، خود مختاری بلکہ بہادری کو کم تر(undermine) کرنے کی مذموم کوشش ہے۔ ہمیں تو فخر ہونا چاہیے کہ ہماری عدلیہ اپنے کام کے ساتھ دیگر اداروں کی ذمے داریاں بھی نبھا رہی ہے بلکہ وہ قرض ادا کر رہی ہے جو واجب بھی نہیں تھے۔

آپ یہی دیکھ لیں امریکی سینیٹرز کو ججوں کی تقرری کے لیے اچھی خاصی مغز ماری کرنا پڑتی ہے، جج کے ماضی اور حال کو کھنگالنا پڑتا ہے، اس کے فیصلوں کو بھی جانچا اور پرکھا جاتا ہے، بھارت میں بھی کم و بیش کچھ ایسے ہی مشق کی جاتی ہے لیکن ہمارے یہاں ججز کی تعیناتی کا یہ اضافی بوجھ بھی عدالت نے اپنے کندھوں پر اٹھایا ہوا ہے، پیپلز پارٹی کی سابق حکومت نے یہ بوجھ بانٹنے کی کوشش کی تھی لیکن عدلیہ کو یہ بوجھ اتنا عزیز تھا کہ وہ ناراض ہو گئی تھی مگر ہم ہیں کہ عدلیہ کا شکر گزار ہونے کے بجائے الٹا جوڈیشل ایکٹوزم کے الزامات لگاتے ہیں۔

اپنے پڑوس ہی میں نظر دوڑ ا لیں، اب ایسی ٹھنڈی ماٹھی عدالت کو بھلا کون سپریم مانے گا جو تین ماہ سے وزیراعظم مودی کی منتیں کر رہی ہے کہ انہیں چند ججز کی اشد ضرورت ہے، مگر کم بخت Modi کا موڈ بن کے نہیں دے رہا۔ بھارتی جج بھی ایسے ہیں کہ بھنگ پی کر سو رہے ہیں، اب ایسی عدالت کا کیا کرنا جووزیراعظم تو درکنار کسی ایک رکن پارلیمنٹ بلکہ عام بندے کو بھی توہین عدالت کا نوٹس بھیجنے کی ہمت نہ رکھتی ہو۔ دنیا کی دیگر عدالتوں میں سماعتوں کے ماحول بھی بڑا پھیکا ہوتا ہے، سسلین مافیا اور گاڈ فادر جیسے کرارے الفاظ بھی سننے کو نہیں ملتے۔ وہاں کے ججز آج تک اس گھسی پٹی روایت سے جان چھڑانے کو تیار نہیں کہ ”جج نہیں ان کے فیصلے بولتے ہیں‘‘ حالانکہ اب دور بدل چکا، بہادراور پرعزم جج بولتے ہیں اور ٹھوک بجا کر بولتے ہیں۔ اب ایسے چیف جسٹس کاکیا فائدہ جو دن بھر انصاف بانٹتا پھرے اور اور شام کو گھر جا کر سو جائے؟ اتنی بھی فرصت نہ ہو کہ سال میں ایک آدھ اسپتال کا دورہ ہی کرلے یا گھنٹہ تو گھنٹہ تقریر بھی نہ کر سکے۔

ہمیں اطمینان ہونا چاہیے ہمارے ہاں انصاف ہو نہیں رہا بلکہ ہوتا نظر بھی آرہا ہے، خاص طور پر سیاسی نوعیت کے مقدمات بلاوجہ پیچیدہ نہیں بنائے جاتے بلکہ بعض اوقات تو پٹیشن بعد میں دائر ہوتی ہے فیصلہ پہلے سمجھ میں آنے لگتا ہے کہ عوامی امنگوں کے مطابق ہو گا، کیس اگر شریف خاندان سے متعلق ہو ہو تو پنڈی کا شیخ ہی کیا گوجرانوالہ کا گاما ماجا بھی فیصلے کی سو فیصد درست پیش گوئی کرسکتا ہے۔

اب رہی بات عوام عدالتوں میں عمریں گزار دیتے ہیں لیکن انصاف نہیں ملتا، دراصل ہمیں اس میں چھپی مصلحت کو سمجھنے کی کوشش کرنی چاہیے، چوری ڈکیتی، جائیداد، زمین پر قبضہ اور کرائے وغیرہ کے تنازعات بالکل ذاتی نوعیت کے ہوتے ہیں، قومی نوعیت کے معاملات کے سامنے ایسے چھوٹے موٹے مسئلوں کی بھلا کیا حیثیت ہے، اگر ایسے مقدمات کے فیصلے دو تین دہائیوں کے بجائے دوچار دنوں میں بھی آنے لگیں تو کیا فرق پڑے گا، اس سے ملک میں کون سی انقلابی تبدیلی آجائے گی؟ بس اتنا ہوگا کہ وکیلوں کی دیہاڑیاں ماری جائیں گی، یا بار اور بینچ کی تال میل میں تھوڑا بہت فرق آجائے گا۔ ہمیں سمجھنا چاہیے کہ حقیقی اور اصلی تبدیلی تو سیاسی فیصلوں کے نتیجے میں آتی ہے اور وہ آرہی ہے۔ جنہیں نظر نہیں آرہی وہ الیکشن کا انتظار کریں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).