چھوٹا وسی بابا، بڑا پولیس افسر اور چھوٹو گینگ


وسی بابا بہت ہی چھوٹا تھا۔ معصوم بھی ضرورت سے زیادہ تھا۔ اپنے گھر کی چھت پر لیٹا کوئی وڈا پنگا کم سوچ رہا تھا۔ ایک بوریت تھی۔ یہ آپس میں جڑے ہوئے فلیٹوں کا ایک کمپاؤنڈ تھا جہاں وسی بابے کا گھر تھا۔ ہمارا فلیٹ بھی پہلی منزل پر تھا۔ اچانک ایک اعلی پولیس افسر جو کم از کم حوالدار تھے، انہوں نے ساتھ والے فلیٹ کی دیوار سے اپنا سر بلند کیا۔ ’سہ کئے الاکا‘ یعنی کیا کر رہے ہو لڑکے۔ سن کر جب ان کی طرف دھیان کیا تو وسی بابے کے کے سارے منصوبے دھواں ہو گئے۔

’ناست ایم‘ فوری بتایا کہ بس بیٹھا ہوں۔ حوالدار صاحب نے پوچھا ’کور کے سوک شتہ‘۔ تمھارے گھر میں کوئی ہے۔ اسے بتایا کہ گھر والے ہی ہیں۔ اس نے کہا ’دلتہ غل دے پہ دے کور کے‘۔ یہاں اس گھر میں چور ہے۔ اب یہاں وہ گھر تھا جس کی چھت پر معزز افسر خود کھڑا تھا۔ معزز افسر نے کہا کہ ہم نے اس گھر میں چھاپہ مارنا ہے جس کی چھت پر ہم کھڑے ہیں۔

بات کافی مزاحیہ سی تھی لیکن نہ کرنے والے کو سمجھ آئی نہ وسی بابے کو جو سن رہا تھا۔ اعلی افسر کہہ رہا تھا کہ اس نے اسی گھر میں چھاپہ مارنا ہے جس کی چھت پر وہ کھڑا ہے۔ میں اپنے گھر والوں کو ایک کمرے میں بند کروں تاکہ پولیس کے گوریلے ہمارے گھر سے ڈیں ڈیں چھک چھک ( یہ میوزک ہے جیمز بانڈ فلم والا) کرتے آئیں اور چوروں کو پڑ جائیں۔

یہ فلیٹ ملک صاحب نے بنائے تھے۔ ملک صاحب اپنی ہی طبعیت کے ملک تھے۔ انکا جو دل کیا انہوں نے وہ کر دکھایا تھا۔ فسٹ فلور گراؤنڈ فلور پر ایک ایک فلیٹ تھا۔ فسٹ فلور کو چھت کی سہولت بھی حاصل تھی۔ ملک صاحب کا جہاں دل کیا وہاں فسٹ فلور والے فلیٹ کی چھت کو سیڑھیاں گھر کے اندر سے جاتی تھیں۔ جہاں ملک صاحب کا دل نہیں کیا وہاں کسی نامعلوم جذبے کے تحت ساتھ والے فلیٹ کی چھت پر سیڑھی گھر سے باہرو باہر چھت تک جاتی تھی۔ یعنی ساتھ والے فلیٹ میں آپ سیڑھیاں چڑھ کر اپنے فلیٹ کے دروازے تک پہنچتے وہی سیڑھی اوپر چھت تک جاتی تھی۔ البتہ ہمارا فلیٹ تھوڑا بڑا تھا جس کی چھت کو سیڑھیاں گھر کے اندر سے جاتی تھیں۔

حوالدار صاحب جس فلیٹ کی چھت پر کھڑے تھے اس کی سیڑھیاں نیچے سڑک سے سیدھی چھت پر جاتی تھیں۔ وسی بابے سے انہوں نے مزاکرات اور منصوبہ شئیر کیا۔ جزئیات پر تفصیلی بات چیت کی۔ اس کے بعد وہ اس گھر کی چھت سے اترا اور نیچے پہنچ گیا۔ تھانیدار صاحب کی قیادت میں پولیس کے آٹھ سپاہی ڈھیں ڈھیں چھک چھک کرتے ہوئے ہمارے گھر داخل ہوئے۔ وسی بابے نے ان کی چھت تک راہنمائی کی۔

یاروں نے جس طرح پھدک پھدک کر دیوار پھلانگی ہے۔ ساتھ والے فلیٹ کی چھت پر لینڈ ہوئے۔ اس کے بعد ڈھیں ڈھیں چھک چھک کرتے سیڑھیوں سے اترے اور بس اترتے ہی چلے گئے۔ سیدھا واپس نیچے روڈ پر کھڑے کھڑے حیران حیران سوچ رہے تھے کہ ہم واپس وہیں پہنچ گئے جہاں سے چلے تھے۔

لوگ انکی اس حرکت سے خوش ہو کر تالیاں بجانے لگ گئے۔ پولیس والوں کی مٹھی مٹھی بلے بلے کرنے لگے۔ تھانیدار صاحب نے اپنی ساتھی پارٹی کو باقاعدہ بزت ہوتے دیکھا تو اپنا سرکاری پستول نکال کر ہوائی فائیر کر دئیے۔ گولی چلی تو سارا محلہ نکل آیا۔ چور بھی غیرت کھا کر نیچے اتر آئے۔ پولیس پارٹی فرار ہو گئی۔ تھانیدار جاتے ہوئے وسی بابے کو ہاتھ ہلا ہلا کر داد دے کر گیا۔

اب اس بیچارے وسی بابے کا کیا قصور تھا۔ ملک صاحب نے گھر ہی ایسا بنایا تھا۔ تھانیدار صاحب کو خود بھی تو عقل کرنی چاہئے تھی کہ وسی بابے سے مل کر اسی گھر کو فتح کرنے کا منصوبہ بنا رہے تھے جس کی چھت پر وہ پہلے ہی کھڑے تھے۔

چھوٹو گینگ کے ہاتھوں پنجاب پولیس کے بزت ہونے پر یاد آیا ہوا ایک پرانا واقعہ۔ یہ پرانے والا تھانیدار بلاگ تو نہیں پڑھتا ہو گا اب؟ وسی بابا اسے یاد آ گیا تو ہونی بری ہے وسی بابے کے ساتھ۔

Apr 19, 2016

وسی بابا

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وسی بابا

وسی بابا نام رکھ لیا ایک کردار گھڑ لیا وہ سب کہنے کے لیے جس کے اظہار کی ویسے جرات نہیں تھی۔

wisi has 407 posts and counting.See all posts by wisi

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments