روزوں میں ذیابیطس کے مریضوں کے لئے احتیاطی تدابیر


میڈیسن کا پہلا اصول ہے کہ ”ڈو نو ہارم“ یعنی کسی کو نقصان نہ پہنچائیں۔ چند سال پہلے خبریں پڑھنے سے یہ بات پتا چلی کہ شدید گرمی کی وجہ سے ہزاروں‌ روزہ داروں‌ کی موت واقع ہوئی۔ یہاں‌ تک کہ ان لاشوں‌ کو جمع کرنے کی سہولیات بھی کم پڑ گئیں۔ بغیر تعلیم اور مناسب سہولیات کے کسی شہر یا ملک کے افراد کو ایک ایسی صورت حال میں‌ ڈالنا جس سے ان کی موت واقع ہوجائے، ایک غیر ذمہ دارانہ رویہ ہے۔

دنیا میں‌ تین سو ملین سے زیادہ افراد کو ذیابیطس کا مرض لاحق ہے۔ ایک اندازے کے مطابق دنیا میں‌ تقریباً پچاس ملین مسلمان روزے رکھتے ہیں۔ ذیابیطس کے مریض‌ رمضان کے روزے بحفاظت رکھ سکتے ہیں لیکن اس کے لیے یہ بات نہایت اہم ہے کہ ذیابیطس اور اس کے علاج کو اچھی طرح‌ سے سمجھا جائے تاکہ روزے میں‌ اس کی مختلف پیچیدگیوں‌ سے بچا جاسکے۔ روزہ رکھنا یا نہ رکھنا مریض‌ کے ذاتی فیصلے پر منحصر ہے۔ اس مضمون میں‌ صرف یہ بیان کیا گیا ہے کہ ذیابیطس کے مریضوں‌ میں‌ روزے سے کون سی پیچیدگیاں پیدا ہوسکتی ہیں اور ان کا خطرہ کس طرح‌ کم کیا جائے۔

روزے رکھنا ان افراد کے لیے مناسب نہیں‌ ہے جو بوڑھے یا کمزور ہوں یا ان کو کوئی خطرناک بیماری ہو۔ ان خواتین کے لیے بھی روزے مناسب نہیں‌ جو حمل سے ہوں‌ یا اپنے بچوں‌ کو دودھ پلا رہی ہوں۔ ذیابیطس کے ہر مریض کو روزے رکھنے سے قبل اپنے ڈاکٹر سے مشورہ ضرور کرنا چاہئیے۔ ذیابیطس کئر جرنل میں‌ روزوں سے متعلق ہدایات پر چھپنے والے آرٹیکل میں‌ ذیابیطس کے مریضوں‌ کو روزے رکھنے سے پہلے مکمل چیک اپ کروانے کا مشورہ دیا گیا ہے۔

روزوں‌ میں‌ پیدا ہوجائے والی ذیابیطس کی پیچیدگیوں‌ میں‌ مندرجہ ذیل شامل ہیں۔
خون میں‌ شوگر کا نہایت کم ہوجانا
خون میں‌ شوگر کا نہایت زیادہ ہوجانا

ڈی کے اے یعنی ذیابیطس کیٹو ایسیڈوسس۔ اس بیماری میں‌ خون میں شوگر کی زیادتی کی وجہ سے تیزابیت پھیل جاتی ہے اور موت تک واقع ہوسکتی ہے۔ بد قسمتی سے مناسب طبی سہولیات میسر نہ ہونے کی وجہ سے ہر سال دنیا میں‌ بہت سارے لوگ ڈی کے اے کے ساتھ مر جاتے ہیں۔ حالانکہ اس بیماری کا علاج ممکن ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں‌ ڈی کے اے کے ساتھ مرنے کی شرح‌ ایک ہزار افراد میں‌ سے ایک سے بھی کم ہے۔
اور
جسم میں‌ پانی کی شدید کمی

ذیابیطس کے روزے دار مریضوں‌ کو چار گروہوں‌ میں‌ تقسیم کرسکتے ہیں۔ پہلا انتہائی خطرے والا گروہ، دوسرا زیادہ خطرے والا گروہ، تیسرا درمیانے خطرے والا اور چوتھا کم خطرے کا گروہ۔ ان گروہوں‌ کی تفصیل مندرجہ زیل ہے۔

پہلا۔ انتہائی خطرے والا گروہ
اس گروہ میں‌ وہ لوگ شامل ہیں‌ جن کی رمضان سے تین مہینے قبل کے دوران خون میں‌ شوگر کم ہوگئی تھی جس کو ہائپوگلائسیمیا کہتے ہیں۔ یا پھر یہ مریض ڈی کے اے یعنی کہ ذیابیطس کیٹو ایسیڈوسس کے ساتھ ہسپتال میں‌ داخل ہوئے تھے۔ اس گروہ میں‌ ایسے مریض شامل ہیں‌ جن میں‌ اگر شوگر کم ہوجائے توہ وہ اس کی علامات محسوس نہیں‌ کرتے کیونکہ ایسا بار بار ہونے سے ان کے جسم کو اس کی عادت ہوچکی ہوتی ہے۔ جیسا کہ ہم جانتے ہیں‌ ہائپوگلائسیمیا کی عمومی علامات تھکن، چڑچڑا پن محسوس کرنا، بھوک محسوس کرنا، دل کی دھڑکن تیز ہوجانا اور کپکپی طاری ہوجانا شامل ہیں۔

دوسرا۔ زیادہ خطرے والا گروہ
اس گروہ میں‌ وہ مریض شامل ہیں‌ جو ضعیف ہوں، تنہا رہتے ہوں، انسولین استعمال کررہے ہوں، ان کی ذیابیطس اچھی طرح‌ سے قابو میں‌ نہ ہو یا پھر ان کو دوسری بیماریاں‌ لاحق ہوں‌ جن سے شوگر کے بگڑ جانے کا اندیشہ ہو یا وہ ایسی دوائیں استعمال کررہے ہوں جن سے دماغی حالت متاثر ہوتی ہو۔ ان مریضوں‌ کے لیے بھی روزے رکھنا خطرے کا باعث بن سکتا ہے۔

تیسرا۔ درمیانے خطرے والا گروہ
ایسے مریض جن کی ذیابیطس قابو میں‌ کرنے کے لیے انسولین کا استعمال کیا جاتا ہو۔

چوتھا۔ کم خطرے والا گروہ
ایسے ذیابیطس کے مریض‌ جو گولیوں‌ سے علاج کررہے ہوں اور ان کی ذیابیطس اچھی طرح‌ سے قابو میں‌ ہو، عموماً بغیر مشکلات کے روزے رکھ سکتے ہیں۔
مضمون کے آخر میں‌ چند مشورے دیے گئے ہیں۔ یہ معلومات ہر مریض اور ہر صورت حال پر لاگو نہیں‌ ہوتی۔ تمام قارئین سے گذارش ہے کہ روزے رکھنے سے قبل اپنے فیملی ڈاکٹر سے رجوع کریں۔ رمضان میں‌ مناسب اوقات میں‌ پانی زیادہ پینے کی کوشش کریں، چینی اور چکنائیوں‌ سے گریز کریں‌ اور جتنا ہوسکے صحت مند کھانوں‌ کا چناؤ کریں۔ سحری دیر سےاور روزہ جلدی کھولنے کی کوشش کریں۔

بلڈ شوگر کب چیک کی جائے؟
جیسا کہ ہم جانتے ہیں‌، ذیابیطس کے علاج میں‌ فاسٹنگ بلڈ شوگر کا عموماً مطلب یہ ہوتا ہے کہ پچھلے آٹھ گھنٹے سے کچھ کھایا پیا نہ گیا ہو۔ یہ عام طور پر صبح اٹھ کر شوگر چیک کرنے کے بارے میں‌ ہے۔ لیکن چونکہ رمضان میں‌ کھانے پینے کے اوقات مختلف ہیں، ان اصطلاحات کی تعریف بھی اسی لحاظ سے بدل جائے گی۔ روزہ کھونلے سے پہلے فاسٹنگ یا خالی پیٹ بلڈ شوگر چیک کی جاتی ہے۔ کھانا کھانے کے دو گھنٹے بعد بھی شوگر چیک کرنا ضروری ہے جو کہ سحری اور افطاری کے بعد کرسکتے ہیں۔ آجکل نئے سی جی ایم یعنی کہ کنٹینیوئس گلوکوز مانیٹرنگ کے آلے ایجاد ہوچکے ہیں جن کے ذریعے دن رات چوبیس گھنٹے بلڈ شوگر پر نگاہ رکھنا ممکن ہے۔ یہ ہر ایک منٹ بلڈ شوگر چیک کرکے ایک گراف کی شکل میں ڈیٹا پیش کرتے ہیں۔ اگر کسی ذیابیطس کے مریض‌ کی بلڈ شوگر دائرے سے باہر ہو تو ان میں‌ الارم بھی لگا سکتے ہیں۔ ہم دیکھ سکتے ہیں‌ کہ سی جی ایم کا آلہ روزوں کے دوران ان مریضوں‌ کی ذیابیطس پر نظر رکھنے میں‌ کس قدر مددگار ثابت ہوسکتا ہے۔

حالانکہ مجھے ذیابیطس نہیں‌ ہے لیکن پھربھی میں‌ نے سیکھنے کے لیے کئی بار سی جی ایم خود پر آزمائے ہیں۔ سی جی ایم کا گراف دن بھر چلتے پھرے کھاتے پیتے دیکھنا انتہائی دلچسپ تجربہ ہے۔ جیسے ہی ٹافی منہ میں‌ ڈالیں تو چند ہی منٹوں میں‌ شوگر کا گراف اوپر جاتا دیکھ سکتے ہیں۔ میرا اندازہ ہے کہ اس ٹیکنالوجی کے استعمال سے جن افراد کو ذیابیطس نہ بھی ہو تو ان کو کھانے پینے میں‌ بہتر چناؤ اور خود کو ذیابیطس سے بچانے میں‌ مدد ملے گی۔ میں‌ نے انسولین پمپ بھی دو بار پہنا ہے۔ ظاہر ہے کہ وہ بغیر انسولین کے تھا اور دوا کے خانے میں‌ نارمل سیلین یا نمک وا ال پانی تھا۔ وہ ایک دلچسپ تجربہ تھا جس کے بارے میں‌ پھر کبھی مضمون لکھوں‌ گی۔ مریضوں‌ یا اسٹوڈنٹس کو کچھ سکھانے سے پہلے ہمیں‌ خود تجربے سے ان آلات کو سیکھنا ضروری ہے۔ انسولین پمپ ایک عمدہ ایجاد ہے جس سے ذیابیطس کے مریضوں‌ کے بہتر علاج میں‌ مدد ملی ہے۔ مڈل ایسٹ میں‌ ہونے والی ایک اسٹڈی کے مطابق جو ٹائپ ون ذیابیطس کے مریض انسولین پمپ استعمال کررہے تھے، ان میں‌ روزے رکھنے کے دوران ذیابیطس کا کنٹرول ان لوگوں‌ سے بہتر پایا گیا جو انسولین پمپ استعمال نہیں‌ کررہے تھے۔

روزہ کب توڑ لینے کی ایمرجنسی ضرورت ہوسکتی ہے؟
مریضوں‌ کو اس وقت روزہ توڑ لینے کی ضرورت ہوگی جب ان کی بلڈ شوگر 60 ملی گرام فی ڈیسی لیٹر سے کم ہوجائے۔ اگر روزہ شروع کرتے ہی بلڈ شوگر 70ملی گرام فی ڈیسی لیٹر سے کم ہوجائے اور انہوں‌ نے سلفونل یوریا دوا لی ہوئی ہو جس سے لبلبے سے انسولین کا اخراج ہوتا ہے اور گلوکوز کم ہوتی جاتی ہے۔ تب بھی مریضوں کو روزہ توڑ لینےکی ضرورت پڑے گی۔ اگر مریضوں میں‌ بلڈ شوگر 300 سے زیادہ ہوجائے اور ان میں‌ پانی کی شدید قلت ہو تو بھی ان کو روزہ توڑ لینے کی ضرورت ہوگی۔

روزوں میں‌ ذیابیطس کے علاج میں‌ کن تبدیلیوں‌ کی ضرورت ہوگی؟
یہ ہدایات جرنل ذیابیطس کئر میں‌ چھپنے والے مضمون اور میرے اپنے پروفیشنل تجربے پر مبنی ہیں۔ ان ہدایات پر عمل پیرا ہونے سے پہلے ہر مریض کو اپنے فیملی ڈاکٹر سے مشورہ کرنے کی ضرورت ہوگی۔ قارئین سے گذارش ہے کہ ذاتی خون کے ٹیسٹ اور رپورٹیں فیس بک یا ای میل کے ذریعے بھیج کر مشورہ طلب کرنے کی کوشش نہ کریں۔ کسی بھی مریض کے ذمہ دارانہ علاج کے لیے تفصیلی میڈیکل ہسٹری اور جسمانی معائنہ انتہائی ضروری ہے۔

ایسے ذیابیطس کے مریض‌ جو روزوں سے پہلے صرف غذا اور ورزش سے ذیابیطس کا علاج کررہے ہوں، ان مریضوں‌ کو کسی دوا میں‌ تبدیلی کی ضرورت نہیں۔ صرف ورزش کے اوقات اور شدت میں‌ کچھ تبدیلی کی ضرورت پڑے گی تاکہ خون میں‌ شوگر انتہائی کم نہ ہوجائے اور پانی کی شدید کمی واقع نہ ہو۔

جو مریض گولیوں‌ سے علاج کررہے ہوں، ان کو روزوں کے دوران ان دواؤں میں‌ ردوبدل کی ضرورت ہوگی۔ یہ ان دواؤں‌ کی نوعیت پر مبنی ہے۔ ویسے تو تمام مریضوں‌ کے لیے ضروری ہے کہ ان کو معلوم ہو کہ کون سی دوا کس طرح‌ کام کرتی ہے لیکن ذیابیطس کے مریضوں‌ میں‌ یہ بات اور بھی اہم ہے۔

اگر کوئی مریض عام حالات میں‌ گلوکوفاج دوا 500 ملی گرام دن میں‌ تین بار لیتے ہوں تو ان کو 1000ملی گرام صبح سحری کے وقت اور 500 ملی گرام افطاری کے وقت لینے کی ضرورت ہوگی۔
جو مریض پایوگلٹازون دن میں‌ ایک مرتبہ لے رہے ہوں، وہ روزوں کے دوران یہ دوا جاری رکھ سکتے ہیں۔

سلفانل یوریا دوائیں ذیابیطس کی دواؤں کا ایک بڑا حصہ ہیں۔ ان کی چند مثالیں گلائبیورائڈ یا گلیمی پرائڈ ہیں۔ جیسا کہ ہم جانتے ہیں، یہ دوائیں لبلبے سے انسولین کے اخراج میں‌ مدد دیتی ہیں جس سے خون میں‌ شوگر کم ہوسکتی ہے، ان کو افطاری کے وقت لینا مناسب ہے۔ جو لوگ یہ دوا دن میں‌ ایک مرتبہ لیتے ہوں، وہ اسے افطاری کے وقت لے سکتے ہیں اور جو لوگ دن میں‌ دو مرتبہ لیتے ہوں، ان میں‌ اگر شوگر نارمل حالات میں‌ مناسب دائرے میں‌ رہتی ہو تو ان کے لیے مناسب ہو گا کہ سحری کے وقت دوا کی مقدار پچاس فیصد گھٹا دیں۔ اگر بلڈ شوگر عام حالات میں‌ زیادہ رہتی ہو تو یہ مقدار گھٹانے کی ضرورت نہیں ہوگی۔

جیسا کہ ہم جانتے ہیں، انسولین مختلف طرح کی ہیں۔ کچھ طویل عرصے تک کام کرنے والی ہیں، کچھ جلدی سے اثر دکھاتی ہیں اور کچھ درمیانے عرصے کی ہیں۔ کچھ مکس انسولین بھی ہوتی ہیں جن میں‌ درمیانے عرصے اور جلدی سے اثر دکھانے والی انسولینیں شامل ہوتی ہیں۔ انسولین کی مقدار میں‌ کمی بیشی ایک مریض کے ذاتی حالات پر مبنی ہے۔ طویل عرصے کی انسولین سے فاسٹنگ بلڈ شوگر پر اثر پڑتا ہے اور تیزی سے کام کرنے والی انسولین سے کھانے کے بعد خون میں‌ شوگر کی مقدار پر اثر ہوتا ہے۔ تیزی سے اثر دکھانے والی انسولین کی ڈوز صرف سحری اور افطاری کے وقت لینا ہوگی۔ تیزی سے کام کرنے والی انسولین کو خالی پیٹ لینا مناسب نہیں ہے کیونکہ وہ خون میں‌ شوگر کی مقدار انتہائی کم کرسکتی ہے۔ روزوں کے دوران سحری کے وقت لینے والی انسولین کی مقدار میں‌ کمی کی ضرورت ہوسکتی ہے تاکہ دن کے دوران خون میں‌ شوگر انتہائی کم نہ ہوجائے۔

انکریٹن دوائیں جیسا کہ سیٹا گلپٹن یا بائیٹا۔ اس گروہ میں‌ کئی طرح‌ کی گولیاں اور انجیکشن شامل ہیں۔ یہ دوائیں نسبتاً محفوظ ہیں۔ جی ایل پی ون ایگونسٹ دواؤں سے چونکہ بھوک میں‌ کمی واقع ہوتی ہے، ان دواؤں سے یہ مریض‌ نسبتاً آسان روزہ محسوس کریں گے۔ یہ دوائیں خون میں‌ شوگر اس طرح‌ کم نہیں‌ کرتیں‌ جیسا کہ انسولین یا سلفونل یوریا گروپ۔

امید ہے کہ اس مضمون سے ذیابیطس کے مریضوں اور ان کے خاندان کی معلومات میں اضافہ ہوگا اور لوگ اپنی صحت اور زندگی سے متعلق فیصلوں میں‌ اس سے مدد لیں‌ گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).