عمرے کے نام پر معصوم لوگوں سے فراڈ


مضمون نہیں لکھ رہا۔ چھ بے ربط دامن بریدہ تصویریں پیش کر رہا ہوں اور کاغذی ہے پیرہن، ہر پیکر تصویر کا۔ خوشی ہوگی اگر اس میں پوشیدہ فریاد، سماعت نواز ہوسکے۔

عمرہ والے خرگوش:

کچھ عرصہ قبل تک، جب سعودی عرب کا نظام کمپیوٹرائزڈ نہیں ہوا تھا، پاکستان سے لوگ عمرہ کے بہانے آتے اور یہاں برس ہا برس گذار کرجاتے۔ چار پیسے کما لئے جاتے ہوں گے مگر پیچھے ان کی بیوی بچے رل جاتے تھے۔ عمرہ پہ آکر چھپ جانے والوں کو یہاں ”خرگوش“ کہا جاتا تھا اور پاکستانی عمرہ کمپنیاں، ان لوگوں سے تگنا دام وصولا کرتی تھیں۔ (چنانچہ، اس زمانے میں عمرہ کمپنیوں کو مولویوں کی ضرورت نہیں پڑتی تھی)۔ کئی سال سے عمرہ جیسی عبادت کے نام پہ یہ فراڈ ہورہا تھا۔ جب کوئی مذہبی مسئلہ، سماجی اور معاشی پہلو بھی رکھتا ہو تو یہ دینی ایشو ہوا کرتا ہے جس بارے قوم کی رہبری کرنا، علمائے کرام کے ذمہ ہوتا ہے۔ علمائے کرام مگر نور و بشر کے مسائل سے فارغ ہوتے تو حقیقی انسانی المیوں کی طرف توجہ فرماتے۔

عمرہ کمپنی کا کمیشن نظام:

ادھر سعودی نظامِ جوازات سخت ہوا، ادھر شومئی قسمت کہ سعودی معیشت کو قبض ہوگئی۔ اس کو بیلنس کرنے، عمرہ کوٹہ وافر کردیا گیا مگر اب خرگوش لانا مشکل ٹھہرا۔ اب عمرہ کمپنیوں کو شکار کے لئے مولوی حضرات کی ضرورت پڑی۔ (لوگ معروف مولوی کی معیت میں عمرہ حج کرنا پسند کرتے ہیں۔ خدا بخشے، جنید جمشید مرحوم کا حج پیکیج اس لئے فی کس 16 لاکھ روپے تھا کہ مولانا طارق جمیل کے ساتھ حج ہوتا تھا۔ معلوم نہیں مولانا کا اس میں کمیشن تھا یا نہیں؟ اگر تھا بھی تو بزنس حرام نہیں ہے)۔

کمیشن درکیمشن کا چکر یوں ہے کہ گاؤں دیہات میں دس پندرہ آدمیوں کا گروپ مہیا کرنے والے بندے کو فی پاسپورٹ کم از کم ایک ہزار روپیہ کمیشن ملتا ہے۔ کچھ عرصہ بعد، کمیشن کے علاوہ، اس کو فری عمرہ بھی کرایا جاتا ہے۔ (مولوی صاحبان کو ہزار روپے سے زیادہ، فری عمرہ کا لالچ ہوتا ہے)۔ یہ کمیشن در کمیشن اس کمپنی تک جا پہنچتا ہے جس کے پاس اپنا سرکاری کوٹہ کا لائسنس ہو۔

بڑی عمرہ کمپنی کو کیا بچتا ہے؟ اس کا اندازہ اس سے لگائیں کہ ہمارے ایک دوست، جن کا اسلام آباد میں مین پاور سپلائی کا دفتربھی ہے، انہوں نے دو سال پہلے اپنا 500 حاجیوں کا کوٹہ، 5 کروڑ روپے کے عوض بیچا۔ اس کاروبار کی آمدن کا اندازہ کیجئے کہ ایک چھوٹے شہر میں بھی کم از کم درجن بھر عمرہ کمپنیاں قائم ہیں اور ان کے مالکان کا چند ہی سال میں طرز زندگی بدل جایا کرتا ہے۔

فیملی عمرہ فیشن:

پاکستان میں فیملی عمرہ فیشن جڑ پکڑتا جارہا ہے۔ بلکہ نوزائیدہ بچوں کو عمرہ کرانا، بھی سٹیٹس سمبل بن چکا ہے۔ مکہ میں عین دوپہر میں طواف کرتے اکثر ایسے جوڑوں پہ نظر پڑتی ہے جن کے کاندھے سے لگا چند ماہا بچہ، دھوپ کی تمازت سے سرخ، ریں ریں کرتا، ناک بہاتا تڑپتا نظر آتا ہے۔ کیا یہ بچہ طواف کا مکلف تھا؟ چہ جائیکہ اس کو دھوپ میں پھیرے دلائے جائیں۔ پچھلے ماہ ( مارچ 2018ء) کا مدینہ شریف کا واقعہ سن لیں۔ مسجد نبوی میں عورتوں کے سلام کے لئے محدود اوقات مقرر ہیں جن میں عورتوں کی جلد بازی کی وجہ سے نہایت دھکم پیل ہوتی ہے۔ چنانچہ جب“سلام“ کھلا تو رش کی وجہ سے ایک پاکستانی عورت کی گود سے بچہ گرگیا۔ اس نفسا نفسی میں عورت کی چیخیں کون سنتا؟ بچہ روندا گیا۔ کیا یہ بچہ بھی ” سلام“ کرنے کا مکلف تھا؟ ایسا اگر ایک واقعہ بھی ہوتا تو اہل دل کو نوٹس لینا چاہیے تھا مگر ایسے واقعات ماہانہ بنیادوں پہ ہوتے رہتے ہیں۔ بوجوہ میڈیا یہ نہیں بتاتا مگرآپ کا کوئی شناسا اگر مکہ ومدینہ میں اس کاروبار سے وابستہ ہے تو تصدیق کرلیجے گا۔

فیملی عمرہ اب ناک کا مسئلہ بنتا جارہا ہے۔ میرے سامنے ہی ایک عمرہ کمپنی دفتر میں بھکر شہر کا ایک آدمی آیا جو اپنے چھ سالہ بچے کی ایر لائن ٹکٹ نہیں لینا چاہتا تھا کہ اس کو اپنی گود میں بٹھا لوں گا۔ پاسپورٹ کا پوچھا تو ہنسنے لگا کہ جس بچے کا شناختی کارڈ ہی نہیں، بھلا اس کا بھی پاسپورٹ ہوگا؟ یہ آدمی اچھا خاصا زمیندار تھا۔ آگے آپ سوچ لیجیے کہ جدہ ایرپورٹ اور پھر آگے کے مراحل پہ اپنا اور پاکستان کا کیا نام چمکائے گا؟ مگر یہ کہ بیوی نے کہا ہوگا کہ فلاں تو سارے عمرہ کر آئے ہیں، ہم کیوں پیچھے رہیں؟

عمرہ کے مسائل:

اکثر لوگوں کے لئے عمرہ کا مطلب، مکہ اور مدینہ تک ہو آنا ہے۔ ایک پاکستانی حاجی مدینہ میں ملا جو آٹھ دن گذار چکا تھا مگر اس کو رسول اکرم کی قبر مبارک کا پتہ ہی نہیں تھا اور نہ ہی اس نے سلام پیش کیا تھا۔ (تبلیغی جماعت والے آپ کو ایسی کئی کہانیاں سنائیں گے)۔ اسی طرح، مجھ سے ایک آدمی نے پاکستان میں پوچھا تھا کہ خانہ کعبہ میں کل کتنے ستون ہیں؟ میری لاعلمی پرتعجب کا اظہار کیا کہ اتنا عرصہ سعودیہ میں فضول گذار دیا۔ موصوف عمرہ کے دوران، حرم کے ستون، سپیکر اور کیمرے شمار کرتے رہے تھے۔ (تھا حرم میں لیک نامحرم رہا)۔

ان لوگوں کے علاوہ، معدودے چند ایسے کٹر مذہبی لوگ بھی ہوتے ہیں جو عمرہ مسائل بارے حساس ہوتے ہیں۔ پاکستان کے اکثر لوگ چونکہ امام ابوحنیفہ کے مقلد ہیں جن کے ہاں بات بات پہ جرمانے اور ”دم“ واجب ہوجاتے ہیں تو یہاں ایسے مخلصین کی ” گویم مشکل ونہ گویم مشکل“ والی حالت ہوتی ہے کیونکہ بیچارے ایک نپا تلا خرچہ ساتھ لائے ہوتے ہیں۔ پھر صرف خرچہ کی بات نہیں، یہاں تو عمرہ کے بعد، کئی لوگ اپنی بیوی خود پہ حرام کرکے چلے جاتے ہیں۔ ( اشارہ دے دیا ہے، باقی مولوی صاحبان سے پوچھ لیا جائے)۔

الغرض، ایک ایسی عبادت جو نہ فرض ہے نہ واجب، نہ اس کا کوئی اجتماعی فائدہ ہے اور نہ ہی بن سیکھے کوئی انفرادی فائدہ ہے (بلکہ یہ عبادت تو دو دھاری تلوار ہے) تو کیوں سعودی عرب کو جہاز بھر بھر آرہے ہیں؟ یہ ٹرینڈ کون چلا رہا ہے؟

اجمتاعی فائدہ البتہ کسی اور کو ہوتا ہے۔ عالمی ایوی ایشن (ایکاؤ) کا ہیڈ آفس کینیڈا میں ہے۔ سب ممالک کی فضائی کمپنیاں، اپنی آمدن کا ایک حصہ، یہود کےزیر اثرچلنے والے اس نگران ادارے کو بھی ادا کرتے ہیں۔ ہاں اجتماعی فائدہ سعودی معیشت کو بھی ہوتا ہے جنہوں نے ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ اربوں ڈالر کے معاہدے کرلئے ہیں۔ ان دونوں باتوں میں اشارے ہیں عقل والوں کے لئے۔

قاری حسین کون تھا؟

طالبان کا استاد قاری حسین، خود کش دھماکوں کا ماسٹر مائنڈ تھا۔ معلوم نہیں قاری حسین کونسا گر استعمال کرتا تھا کہ ایک نوجوان خود کو پھٹوانے پر بخوشی تیار ہوجاتا تھا؟ مگر یہ مذہب کی ان دیکھی دنیا کا ایک طلسم ہے اور خدا نے بیان میں سحر رکھا ہوا ہے۔ خود کش بمبار تونہیں دیکھے مگر کتابوں میں پڑھا ہے کہ ایک ہندو ماں، دیوتا کوخوش کرنے کے لئے اپنا بچہ خود اس کے قدموں کی بھینٹ چڑھا دیتی تھی۔ ایک محرم میں ٹی وی پر دیکھا وہ معصوم اہل تشیع بچہ نہیں بھولتا جس کے گال پر خون کی لکیریں تھیں اور اس کا باپ، اس کے سر پہ ” غم حسین“ میں برچھی کا ٹک لگا رہا تھا۔

ہرمحلے میں موجود، تبلیغی جماعت کی مستورات بارے تو سب جانتے ہیں جو دودھ پیتے بچوں کو بلکتا چھوڑ کر، کئی کئی ماہ کے لئے ”اللہ کے راستے“ میں نکل جاتی ہیں کیونکہ ” یہ بچہ روئے تڑپے گا تو خدا کا غصہ ٹھنڈا ہوگا“۔ کہنے کا مقصد یہ کہ یہ صرف قاری حسین کا کمالِ ہنر نہیں بلکہ کوئی بھی چرب زبان، اپنے بیان میں مذہب کا تڑکا لگاسکتا ہو تو لوگ سب کچھ داؤ پہ لگانے کو تیار ہوتے ہیں۔

مضمون کا بقیہ حصہ پڑھنے کے لئے “اگلا صفحہ” پر کلک کریں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2