نواز شریف اور بھٹو کی کال کوٹھڑی


میاں نواز شریف نے منصف اعلیٰ پر جوڈیشل مارشل لاکا الزام عاید کیا، تو یکدم ذہن میں ذوالفقار علی بھٹو کے پھانسی سے سات گھنٹے قبل کہے جانے والے الفاظ گونجنے لگے۔
یہ 3 اپریل 1979کی شام کا ذکر ہے، جب پاکستان کا معزول وزیرا عظم پنڈی جیل کی ایک کال کوٹھڑی میں، سوجے ہوئے مسوڑوں کے ساتھ، زمین پربچھے گدے پر لیٹا تھا، اور سپرنٹنڈنٹ جیل اُسے بلیک وارنٹ پڑھ کر سنارہا تھا۔ بھٹو نے اطمینان سے اپنی موت کے پروانے کو لفظ بہ لفظ سنا۔ شکوہ کیا تو اتنا کہ طریقہ کار کے مطابق بروقت اطلاع نہیں دی گئی، اور نہ ہی کوئی تحریر حکم نامہ دکھایا گیا۔

بھٹو کا اطمینان موقع پر موجود سیکیورٹی سپرنٹنڈنٹ کرنل رفیع الدین کے لیے حیران کن تھا۔ افسر کو جلد اندازہ ہو گیا کہ بھٹو موت کے پروانے کو فقط ڈراما سمجھ رہے ہیں، مگر جب انھیں یہ حقیقت بتائی گئی کہ کرنل قذافی کی پیش کش، برطانوی وزیر اعظم کی درخواست کے باوجود ضیا سرکار نے اُنھیں پھانسی دینے کا حتمی فیصلہ کر لیا ہے، تب ایک تبدیل شدہ بھٹو نے کرنل رفیع سے سوال کیا: ”کب، کہاں، کیا آج؟ “اور اُنھیں جواب ملا:” سات گھنٹے بعد!“

کچھ دیر بعد جب اُنھیں یقین آگیا، اورجب وہ اِس صدمے سے کچھ سنبھل گئے، تب اُنھوں نے کہا:” میرے وکلا نے کیس کا ستیاناس کر دیا، مجھے سبز باغ دکھائے گئے، میری پارٹی کو زندہ نہیں، مردہ بھٹو کی ضرورت تھی!“

آج، چالیس برس بعدجب ن لیگی کارکن سڑکوں پر اعلیٰ عدلیہ کومغلظات بکتے ہیں، وزراءعدالتوں پر گرجتے برستے ہیں، حکومتی وکلا جارحانہ روش اختیار کرتے ہیں، مریم نوازججوں پر کڑی تنقید کرتی ہیں، اورمیاں صاحب چیف جسٹس پر جوڈیشل مارشل لاکا سنگین الزام لگاتے ہیں، تو مجھے جیل کی کوٹھڑی میں بھٹو کے کہے الفاظ یاد آتے ہیں : ”میرے وکلا نے کیس کا ستیاناس کر دیا، مجھے سبز باغ دکھائے گئے!“

بھٹو کے اِن الفاظ کے اکلوتے راوی کرنل رفیع الدین ہیں۔ یہ الفاظ اُن کی کتاب” بھٹو کے آخری 323 دن“ میں درج ہیں۔ اس بیان کی صحت پر اعتراض ہوسکتا ہے، مگر یہ بات درست ہے کہ قانونی جنگ میں بھٹو کے وکلا سے چند غلطیاں ہوئیں۔ جسٹس نسیم حسن شاہ نے اپنے آخری برس میں ایک انٹرویو کے دوران جہاں اِس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ انھیں سزائے موت کے فیصلے سے اختلاف کرنا چاہیے تھا، وہیں یہ بھی کہا کہ بھٹو کے وکلا نے ججز کو ناراض کر دیا تھا۔ بہ قول اُن کے، ” جب میں نے بھٹو کے وکیل یحییٰ بختیار سے پوچھا کہ کیا وہ سپریم کورٹ میں سزائے موت کے خلاف دلائل دینا چاہتے ہیں؟ تو انھوں نے انکار کر دیا، اور کہا؛ مجھے سزا کی کوئی پروا نہیں، یا تو بری کرو، یا جو مرضی سزا دو۔ “

بھٹو کیس میں اختلافی نوٹ لکھنے والے جسٹس دراب پٹیل نے بھی ایک انٹرویو میں کہا کہ6 فروری 1979 کو سپریم کورٹ کے فیصلے پر جو ریویو پٹیشن دائرہوئی، وہ ایک ہی نکتے پر مرکوز ہونی چاہیے تھی کہ فیصلہ چار تین سے آیا ہے، سزائے موت ختم کی جائے۔ دراب پٹیل کا موقف تھا کہ یحییٰ بختیار کا اِس دلیل کو دیگر سو دلائل کے ساتھ پیش کرنا غلط اقدام تھا۔

الغرض بھٹو اپنی بصیرت، اُن کے وکلا اپنے تجربے اور اُن کی پارٹی اپنی مقبولیت کے باوجود صورت حال کا ادراک کرنے میں چوک گئی۔ اور ایسی ہی غلطی کی مرتکب اب ن لیگ ہورہی ہے۔ آج ہم جانتے ہیں کہ ذوالفقار علی بھٹو کے نظریے اور معروضی حقائق کی جنگ میں فاتح کون تھا۔ بھٹو سمجھتے تھے، اُن کے سر کی قیمت پاکستان ہے، مگر ایسا نہیں تھا۔ اسسٹنٹ سپرنٹنڈنٹ جیل مجید قریشی کا بیان کردہ واقعہ اہم۔ ایک روز بھٹو نے انھیں اپنے ٹرائل سے متعلق ایک امریکی میگزین کا آرٹیکل پڑھنے کے لیے دیا۔ مجید قریشی نے بھٹو کی توجہ میگزین کے ٹائٹل کی سمت مبذول کرائی، جس پر بھٹو اور ضیا الحق، دونوں کی تصویر تھی، اور درمیان میں پھانسی کا ایک پھندا جھول رہا تھا۔ مجید قریشی نے کہا: ”بھٹو صاحب، اِسے سمجھیں۔ یہ ایک سنگین معاملے ہیں! “مگر اُن کے بہ قول، بھٹو نے اُن کی بات کا یقین نہیں کیا۔ ان کے لیے وہ مقدمہ سیاسی اسٹنٹ تھا۔

تو صاحب، نظریہ الگ شے ہے، معروضی حقائق الگ شے۔ کسی سیاست داں کے ماضی کو اُس کے حال سے منہا نہیں کیا جاسکتا۔ ”کل “پلٹ کر آتا ہے۔ ہمیشہ۔ آج میاں صاحب نظریاتی اور اینٹی اسٹیبلشمنٹ ہونے کا دعوے دار ہیں، مگر کیا اِس دعوے کی بنیاد پر اُن کے ماضی کے غلط فیصلوں کو نظر انداز کیا جاسکتا ہے؟ یوسف رضا گیلانی کی نا اہلی کے لیے اپنے حواریوں کے ساتھ کی جانے والی اُن کی مربوط کوششوں کو، اُس وقت کی اسٹیبشلمنٹ سے رابطوں کو، میمو گیٹ میں کالا کوٹ پہننے کو، افتخار چوہدری سے قربت کو کیا ہم نظر انداز کرسکتے ہیں؟ کیا ہم ن لیگ کی جانب سے پیپلزپارٹی کی”جمہوری حکومت“ کی راہ میں کھڑی کی جانے والی مشکلات کو، ”منتخب وزیر اعظم“ کو دیے جانے والے طعنوں، ”معزز عدلیہ“ کو مضبوط کرنے کے بلند و بانگ دعووں کو نظراندازکرسکتے ہیں؟

جناب والا، آپ شاید اپنی غلطیاں بھول جائیں، مگروہ زمین اُنھیں نہیں بھول سکتی، جہاں اُن غلطیوں کے بیج گرے ہوں۔ ایک جماعت جو خود تین بار اقتدار میں آئی، جس نے عدلیہ بحالی تحریک چلائی، چیف جسٹس کو بحال کروایا، کیا یہ کہنے کا جواز رکھتی ہے کہ عدالتی نظام میں سقم ہیں؟ اگر ایسا ہے، تو پھراُس کی اپنی کارکردگی اور خلوص پر بھی چند سنجیدہ سوالات اٹھتے ہیں۔
یہاں کسی کے سر کی قیمت پاکستان نہیں۔ یہاں کے باسی، جو صدیوں سے سورماؤں کی پرست کرتے آئے ہیں، فی الحال اتنے متذبذب ہیں کہ کسی کے لیے گھروں سے نہیں نکلیں گے۔ اورپھر ایسی سرگرمیوں کے لیے یہاں کی آب و ہوا سازگار نہیں۔

ن لیگی قیادت جس راہ پر جا رہی ہے، وہ تصادم کی راہ ہے۔ اور اگر یہ تصادم نظریہ کے لیے ہو، تب بھی گوارا، مگریہاں معاملہ مفادات سے آگے نہیں بڑھتا۔
میاں نواز شریف جیسے منجھے ہوئے سیاست داں سے یہ توقع نہیں کی جاسکتی ہے کہ وہ حالات کا ادراک کرنے میں ناکام رہیں گے۔ مگر یہی توقع بھٹو سے بھی نہیں کی جاسکتی تھی۔ یاد رہے، حواری، خوشامدی(جن کی جانب شہباز شریف بھی متعدد بار اشارہ کرچکے ) طلسماتی اثر رکھتے ہیں۔ فرد کو معروضی حقائق سے دورایک تخیلاتی دنیا میں لے جاتے ہیں۔ کیا میاں نواز شریف بھی ایسی کسی دنیا کی سمت جارہے ہیں؟ ایک کوٹھڑی کی سمت؟

شاید ایسا نہ ہو شاید یہ سب فقط 2018 کے انتخابات میں اپنے ووٹرز کو متحرک کرنے کا فارمولا ہوشاید یہ مخالفین پر دباؤ بڑھانے کا نسخہ ہو شاید ایک تجربہ کار سیاست داں کے طرح اُنھیں ادراک ہو کہ لکیر کہاں ہے۔

سیاسی جماعتیں، اچھی بری، نظریاتی، غیرنظریاتی، ایک اثاثہ ہوتی ہیں، بالخصوص اُن ممالک میں، جہاں تین بار مارشل لا لگ چکا ہو۔ مسلم لیگ ن موجودہ سیاسی ڈھانچے کا اہم ترین اثاثہ ہے، جسے کسی صورت ضایع نہیں ہونا چاہیے۔
مگر یہ بھی یاد رہے کہ یہاں کسی کے سر کی قیمت پاکستان نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).