ٹرمپ کی سخت گیر پالیسی اور کوریا میں امن کی امید


جمعہ کو شمالی اور جنوبی کوریا کی سرحد پر دونوں ملکوں کے لیڈروں کی ملاقات اور خیر سگالی کے اظہار کے لئے شمالی کوریا کے لیڈر  کم جونگ اُن  کی جنوبی کوریا کے علاقے میں چہل قدمی سے دنیا بھر میں یہ امید پیدا ہوئی ہے کہ دہائیوں پرانے تنازعہ کو ختم کرنے کا وقت قریب آگیا ہے ۔ شمالی کوریا میں  کم  خاندان کی آمریت اور  اس کی امریکہ مخالف حکمت عملی کی وجہ سے 1953 میں کوریا میں جنگ بندی کے باوجود  کوریا کے دونوں حصوں کے درمیان  محاذ  آرائی جاری رہی ہے۔ 65 برس قبل  اگرچہ شمالی اور جنوبی کوریا کے درمیان جنگ بندی کا معاہدہ ہو گیا تھا لیکن اس خطہ میں مستقل امن کے لئے کوئی معاہدہ طے نہیں ہو سکا تھا۔ اس  کی وجہ یہ تھی کہ امریکہ دشمنی میں شمالی کوریا کے لیڈروں نے اپنے ملک کو حصار بند کرلیا تھا اور امریکہ کی قیادت میں باقی دنیا نے شمالی کوریا کے لیڈروں کے آمرانہ طرز عمل اور  جنگی تیاریوں کی وجہ سے اس پر پابندیاں عائد کرتے ہوئے مصالحت اور امن کے دروازے بند کئے ہوئے تھے۔ یہ سلسلہ یوں تو گزشتہ چھ سات دہائیوں سے جاری رہا ہے تاہم  1989 میں سوویٹ یونین کے خاتمہ کے بعد سے پیونگ یانگ کو عدم تحفظ کا شدید احساس ہؤا اور اس نے تیزی سے میزائل اور جوہری پروگرام کو عملی  جامہ پہنچانے کے لئے کام شروع کردیا تھا۔ شمالی کوریا کی کے ساتھ مواصلت نہ ہونے کے سبب   مغربی دارالحکومتوں میں شمالی کوریا کے میزائل اور جوہری پروگرام کے حوالے سے ہمیشہ تشویش موجود رہی ہے۔ جوں جوں یہ پروگرام آگے بڑھتا رہا تو ایک طرف اس کے قریب ترین ہمسائے جنوبی کوریا  اور جاپان خود کو غیر محفوظ سمجھنے لگے تو دوسری طرف امریکہ نے   اپنے حلیف ملکوں کے تحفظ کے لئے  شمالی کوریا پر اقتصادی پابندیاں عائد کرنا شروع کردی تھیں۔

گزشتہ برس امریکہ میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے حکومت سنبھالنے کے بعد سے  ایران کے علاوہ شمالی کوریا کے بارے میں تند و تیز بیانات کا سلسلہ شروع کیا۔ اس کے ساتھ ہی شمالی کوریا کے لیڈر  کم جونگ اُن  نے میزائل اور جوہری تجربوں میں شدت پیدا کردی۔ گزشتہ برس ستمبر میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے  اپنے پہلے خطاب میں ڈونلڈ ٹرمپ نے شمالی کوریا کی اینٹ سے اینٹ بجادینے کی بات کرکے دنیا بھر میں سنسنی کی لہر دو ڑا دی تھی۔  یوں لگتا تھا کہ ٹرمپ کی پر جوش قیادت میں امریکہ شمالی کوریا کے جوہری پروگرام  کو روکنے کے لئے کسی بھی وقت حملہ کرسکتا ہے۔ پیونگ یانگ کی طرف سے اس قسم کے حملہ کے بارے میں متنبہ کرتے ہوئے یہ دعویٰ کیا جارہا تھا کہ اس نے امریکہ میں اہداف کو نشانہ بنانے کی صلاحیت حاصل کرلی ہے ۔ اس لئے اگر شمالی کوریا کے خلاف فوجی طاقت استعمال کرنے کی کوشش کی گئی تو یہ ملک امریکہ کو براہ راست جوہری ہتھیاروں کی زد پر لے لے گا۔ اس قسم کی بیان بازی سے کشیدگی اور تناؤ میں اضافہ ہؤا  اور یوں لگنے لگا کہ تیسری عالمی جنگ کا آغاز امریکہ کی طرف سے شمالی کوریا کے خلاف کسی اچانک  کارروائی کے نتیجے میں ہو سکتا ہے۔ چین نے اس صورت حال کو تبدیل کرنے کے لئے سفارتی کوششوں کا آغاز کیا اور ایک طرف امریکہ کو معتدل اور متناسب رویہ اختیار کرنے کا مشورہ دیا گیا تو دوسری طرف شمالی کوریا پر اثر و رسوخ استعمال کرتے ہوئے اسے اشتعال انگیزی سے باز رہنے کے لئے کہا جاتا رہا۔ تاہم کسی بھی ملک کے علاقائی اور اقتصادی مفادات کے علاوہ سفارتی دباؤ کی  بھی حدود ہوتی ہیں۔ کوئی بھی ملک خواہ وہ کتنا ہی بڑا اور طاقتور ہو کسی بھی خود مختار ملک کو  کسی منصوبہ پر عمل کرنے سے باز رکھنے کا دعویٰ نہیں کرسکتا۔ اسی لئے چینی کوششوں کے باوجود شمالی کوریا نے جوہری دھماکوں اور دور مار میزائل کے تجربے کرنے کا سلسلہ جاری رکھا تھا۔

جوں جوں شمالی کوریا کی جوہری   قوت  اور دور مار میزائلوں کے ذریعے انہیں داغنے کی صلاحیت  میں اضافہ ہورہا تھا، واشنگٹن کی تشویش اور ڈونلڈ ٹرمپ  کا غصہ بھی بڑھ  رہا تھا۔ دھمکیوں  سے مرعوب کرنے میں ناکامی اور براہ راست حملہ کے عواقب سے باخبر ہونے کے سبب ٹرمپ  اپنے مرغوب  مواصلاتی ذریعے ٹویٹر کو  شمالی کوریا کے لیڈر کا مذاق اڑانے اور دھمکانے کے لئے استعمال کرتے رہے ۔جبکہ دوسری طرف اقوام متحدہ کے ذریعے شمالی کوریا پر مزید اقتصادی پابندیاں عائد کرنے کی کوششیں بھی  ہوتی رہیں۔   تصادم کی اس صورت حال میں  شمالی کوریا کے لیڈر کم جونگ اُن نے اچانک ایک غیر روائیتی خیر سگالی کا مظاہرہ کرتے ہوئے شمالی کوریا کے کھلاڑیوں کو جنوبی کوریا کے  شہر پیونگ چانگ میں منعقد ہونے والی اولمپکس گیمز میں شرکت کے لئے بھیجنے کا فیصلہ کیا اور اپنے کھلاڑیوں کے ہمراہ اپنی بہن کم یو جونگ کی قیادت میں ایک اعلیٰ سطحی وفد بھی جنوبی کوریا بھیجا۔ اس طرح انہوں نے اس خطے میں امن کی بحالی کے لئے پہلا اور ٹھوس قدم اٹھایا۔ جنوبی کوریا کی طرف سے اس خیر سگالی کا پر جوش طریقے سے خیر مقدم کیا گیا اور جنوبی کوریا کے صدر مون جے ان  نے بنفس نفیس شمالی کوریا کے لیڈر کی طاقتور بہن سے ملاقات کی۔ اس کے تھوڑے عرصے بعد ہی جنوبی اور شمالی کوریا میں مواصلت اور تعاون کو فروغ دینے کا سلسلہ شروع ہؤا اور شمالی کوریا کے حکام نے یہ یقین دہانی کروائی کہ وہ اپنے جوہری پروگرام کو محدود کرنے پر آمادہ ہیں۔  اسی دوران کم جونگ اُن نے امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو  براہ راست  ملاقات کی دعوت دی  تاکہ دونوں ملک باہمی  تعاون کے منصوبے پر کام کرسکیں۔ صدر ٹرمپ نے یہ دعوت قبول کرلی۔ اب آئیندہ چند ہفتوں کے دوران یہ ملاقات ہونے والی ہے۔   جمعہ کو جنوبی اور شمالی کوریا کے درمیان غیر فوجی علاقے میں دونوں ملکوں کے لیڈروں  کے درمیان ہونے والی ملاقات دراصل شمالی کوریا اور امریکی رہنماؤں کے درمیان ملاقات کی تیاری قرار دی جاسکتی ہے۔ اس  ملاقات کے بعد جاری ہونے والے اعلامیہ میں یہ تو کہا گیا ہے کہ دونوں ملک  جزیرہ نماکوریا کو  جوہری ہتھیاروں سے پاک کرنے اور جنگ کی بجائے امن کی طرف پیش قدمی کا ارادہ رکھتے ہیں لیکن  اس میں مستقبل کے لائحہ عمل کے حوالے سے کوئی واضح پیغام سامنے نہیں آیا ہے۔

جنوبی کوریا  کے صدر مون جے ان کے خصوصی مشیر چنگ اُن من  نے سی این این کی رپورٹر کرسٹیان امان  پور کو انٹرویو دیتے ہوئے  واضح کیا ہے کہ  اس قسم کا معاہدہ ٹرمپ کی کم جونگ اُن سے ملاقات میں ہی طے پاسکتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ امریکہ کوریا کے معاملات میں براہ راست فریق ہے اور اس نے جنوبی کوریا  میں 28 ہزار اور جاپان میں 50 ہزار فوجی تعینات کئے ہوئے ہیں۔ اس کے علاوہ جوہری ہتھیاروں سے لیس  امریکی طیارہ بردار جہاز بھی اس علاقے میں موجود رہتے ہیں۔  تاہم  جنوبی کوریا کے لیڈر یہ واضح کررہے ہیں کہ وہ شمالی کوریا کے ساتھ امن قائم کرنے اور کم جونگ اُن کے ساتھ مل کر چلنے کے  لئے تیار ہیں۔ اس صورت حال میں  امریکی صدر کی شمالی کوریا کے لیڈر کے ساتھ ملاقات بے حد اہمیت اختیار کرگئی ہے۔   گزشتہ تین ماہ کے دوران رونما ہونے والے حالات پر نظر رکھی جائے تو یہ واضح ہوتا ہے کہ شمالی کوریا نے نہایت ہوشیاری سے   سفارتی اہمیت حاصل کرنے کے لئے پیش قدمی کی ہے اور ایک ایسے وقت میں امریکی صدر کو مذاکرات کی دعوت دی گئی  جب یہ معلوم ہوتا تھا کہ صدر ٹرمپ کسی بھی وقت شمالی کوریا پر حملہ کا حکم جاری کردیں گے۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے پاس  کم جونگ اُن  کی پیش کش کو مسترد کرنے کا کوئی جواز یا موقع نہیں تھا۔  تاہم  یہ دعوت قبول کرنے کے بعد سے ٹرمپ کی طرف سے مسلسل یہ تاثر دینے کی کوشش کی جارہی ہے کہ شمالی کوریا کے رویہ میں تبدیلی ان کے سخت طرز عمل اور دباؤ کی وجہ سے آئی ہے۔ انہوں نے گزشتہ روز جرمنی کی چانسلر اینجلا مرکل کے ساتھ ملاقات کے بعد میڈیا سے باتیں کرتے ہوئے یہ واضح کیا کہ وہ جلد ہی شمالی کوریا کے لیڈر سے ملیں گے لیکن اس کے ساتھ ہی یہ دعویٰ بھی کیا ہے کہ اگر  ملاقات کے دوران  انہیں اندازہ ہؤا کہ  یہ بے سود ملاقات ہے تو وہ اس کا بائیکاٹ کرکے  آجائیں ۔ صدر ٹرمپ نے ٹویٹ پیغام میں   شمالی اور جنوبی کوریا کے لیڈروں کے درمیان ملاقات کا کریڈٹ بھی خود لینے کی کوشش کی ہے اور کہا ہے کہ ’  کوریا میں امن کے لئے پیش رفت پر امریکہ   اور اس کے عظیم لوگوں  کو فخر محسوس کرنا چاہئے‘۔

ماہرین اور تجزیہ نگار اگرچہ یہ کہہ رہے ہیں کہ یہ ایک خوش آئیند پیش رفت ہے  لیکن اس بات پر اختلاف موجود ہے کہ  اس کا سہرا کس کے سر باندھا جائے گا۔ امریکی تجزیہ نگار  اسے اپنے صدر کی سخت گیر پالیسی کا ثمر کہنے کی کوشش کررہے ہیں لیکن عالمی ماہرین کا خیال ہے کہ  اس حوالے سے شمالی کوریا کے لیڈر بازی لے گئے ہیں۔ انہوں نے ہی امن اور صدر ٹرمپ سے ملاقات کا ایجنڈا طے کیا ہے اور امریکہ کے پاس ان کی بات ماننے کے سوا کوئی راستہ نہیں تھا۔ ماہرین کا خیال ہے کہ شمالی کوریا کے لیڈر نے سوچ سمجھ کر اس وقت کا تعین کیا ہے کیوں کہ وہ کامیاب جوہری اور میزائل تجربے کرنے کے بعد اپنی دفاعی پوزیشن مستحکم کرچکا ہے۔ اب وہ امریکہ سے بات چیت میں برابری کی بنیاد پر  مذاکرات کرے گا اور جوہری ہتھیاروں کے حوالے سے رعایت دینے کے بدلے میں مراعات طلب کرے گا۔ شمالی کوریا نے اپنے کارڈز نہایت احتیاط سےچھپا کررکھے ہیں لیکن  ماہرین کے خیال میں کم جونگ اُن صرف امریکی سرمایہ کاری اور سفارتی سطح پر قبولیت  کو ہی کافی نہیں سمجھیں گے بلکہ وہ تعاون کے بدلے جنوبی کوریا اور جاپان سے امریکی فوجوں کے انخلا کا مطالبہ بھی کرسکتے ہیں۔

کوریا میں امن کے لئے صدر ٹرمپ اور کم جونگ اُن کی ملاقات نہایت اہم ہو گی لیکن اس سے  فوری طور پر بڑی امیدیں نہیں باندھی جا سکتیں۔  یہ دیکھنا ہو گا کہ امریکہ شمالی کوریا  کوجوہری پروگرام بند کرنے کے عوض کیا پیش کش کرتا ہے ۔ اس خطہ کے امور پر کام کرنے والے ماہرین و محققین کا خیال ہے کہ اگر  دونوں سربراہوں کی ملاقات  میں رہنما اصول  بھی متعین کرلئے جائیں تو یہ امن کی طرف اہم پیش رفت ہو گی اور امریکی صدر بھی اسے اپنی سفارتی کامیابی کا ڈھنڈورا پیٹنے کے لئے استعمال کرسکیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2772 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali