مذہبی آزادی کا حق، پاکستان اور امریکہ کی واچ لسٹ


دنیا میں مذہبی آزادیوں کی صورت حال پر نظر رکھنے والے امریکی ادارے نے حکومت کو مشورہ دیا ہے کہ پاکستان کا نام ان ملکوں کی فہرست میں شامل کیا جائے جہاں مذہبی آزادی کو خطرہ لاحق ہے یا کسی عقیدہ پر عمل کرنے کے حوالے سے پابندیاں عائد کی جاتی ہیں۔ یوں تو اس تجویز کو امریکہ کی پاکستان دشمنی کہہ کر مسترد کیا جاسکتا ہے ۔ یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ امریکی محکمہ کی تجویز سے پاکستان کی صورت حال تبدیل نہیں ہو سکتی۔ یا دل کو خوش کرنے کے لئے یہ سمجھ لینا بھی کافی ہو سکتا ہے کہ امریکہ یہ فہرست سیاسی دشمنی کی وجہ سے تیار کرتا ہے تاکہ ان ملکوں کے خلاف پروپیگنڈا کیا جاسکے جو اس کی سامراجی پالیسیوں کے خلاف عالمی سطح پر سینہ سپر ہیں۔ اسی لئے چین اور روس کے نام اس فہرست میں پہلے سے ہی شامل ہیں۔ ان دل خوش کن دلائل کو اگر یہ کہہ کر مسترد کیا جائے کہ مذہبی قدغن کے حوالے سے سعودی عرب بھی پہلے سے اس امریکی فہرست میں شامل ہے حالانکہ وہ امریکہ کا قریبی حلیف ہے۔ اس پر بہت اعتماد کے ساتھ یہ جواب دیا جاسکتا ہے کہ سعودی عرب حلیف ہونے کے باوجود مسلمان ملک ہے، اس لئے امریکی ’پروپیگنڈا ‘ کو معتبر بنانے کے لئے اس کا نام اس فہرست میں شامل کیا گیا ہے لیکن اسرائیل کو ایسی واچ لسٹ میں ڈالنے کی زحمت نہیں کی گئی جس کی مسلمان دشمنی اور فلسطینیوں کے خلاف مظالم کی پوری دنیا گواہ ہے۔

اس کے علاوہ اسی رپورٹ کا وہ حصہ بھی ہماری پاکستانیت اور قومی وقار کو تقویت پہنچانے کے کام آسکتا ہے جس میں بھارت میں موجودہ حکومت کے تحت مذہبی آزادیوں کی ابتر صورت حال کا ذکر کرتے ہوئے واضح کیا گیا ہے کہ بھارتی معاشرہ تیزی سے عدم برداشت کی طرف بڑھ رہا ہے۔ ایک خاص مذہب کو بڑھاوا دینے کے لئے مختلف ہتھکنڈے اختیار کئے جاتے ہیں۔ گائے کے ذبیحہ پر تشدد، مسیحی مبلغوں پر دباؤ اور مذہبی مساوات کے لئے کام کرنے والی این جی اوز کے خلاف اقدامات اس بات کا اشارہ کرتے ہیں کہ انڈیا کا کثیر المذہبی اور کثیر الثقافتی کردار خطرے میں ہے۔ رپورٹ کے اس حصہ میں وزیر اعظم مودی کی پارٹی کو مذہبی تشدد کا ذمہ دار بتایا گیا ہے لیکن بھارتی سپریم کورٹ کی تعریف کی گئی ہے کہ وہ مذہبی آزادی کے تحفظ کے لئے مؤثر نگرانی کا کردار ادا کررہی ہے۔ تاہم اس رپورٹ میں پاکستانی سپریم کورٹ کے بارے میں ایسے ہی مثبت خیالات کا اظہار شامل نہیں۔ لہذا اس رپورٹ کے مندرجات میں خود کو ’بے گناہ‘ ثابت کرنے اور بھارت کو مذہبی شدت پسند معاشرہ قرار دینے کا وافر مواد موجود ہے ۔ اپنے اپنے زاویے سے اس کا حوالہ دے کر امریکہ کے تعصب، سیاسی ضرورتوں اور خود امریکی معاشرہ میں موجود صورت حال کے ذکر سے پاکستانی قوم کی نرگسیت پسندی کو تشفی دی جا سکتی ہے۔ تاہم اہل پاکستان کو یہ سوچنے کی ضرورت ہوگی کہ اپنے بارے میں خوشنما تصویر بنا کر ایک سراب کے سائے میں آگے بڑھا جاسکتا ہے یا حقیقت حال کو تسلیم کرکے، اسے تبدیل کرنے کے لئے اقدامات کی ضرورت ہوگی۔

مذہبی آزادیوں پر قدغن اور اقلیتی عقائد کے حامل لوگوں کے لئے مشکلات کے حوالے سامنے آنے والی معلومات کو وسیع تر تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔ اگرچہ تازہ امریکی رپورٹ میں پاکستان کے حوالے سے مذہبی آزادیوں کی خراب صورت حال کا ذکر کرتے ہوئے دہشت گردی کا ذکر نہیں کیا گیا لیکن مذہبی آزادی کے حق، قبولیت کے ماحول اور مذہبی تشدد کے معاملات کو الگ کرکے دیکھنا ممکن نہیں ہے۔ یہ باور کرنے کی ضرورت ہے کہ پاکستان گزشتہ دو دہائیوں سے جس مذہبی دہشت گردی کا سامنا کرتا رہا ہے اور جس کا مقابلہ کرنے کے لئے کبھی پاک فوج مسلح آپریشن شروع کرتی ہے، کبھی قومی ایکشن پلان کے ذریعے اس کی بیخ کنی کی کوشش کی جاتی ہے اور کبھی سینکڑوں علمائے دین کا فتویٰ لے کر پیغام پاکستان کے نام سے ایک نیا قومی بیانیہ استوار کرنے کی کوشش ہوتی ہے ۔۔۔ وہ دہشت گردی دراصل ایک ایسے مزاج سے ہی جنم لیتی ہے جو دوسرے عقائد اور مذاہب کو تسلیم کرنے اور ان کے ماننے والوں کے لئے احترام اور قبولیت کو مسترد کرکے معاشرہ کو یک رنگی یا ایک عقیدہ و مذہب کی اجارہ داری میں دینے کی تبلیغ کرتا ہے۔ بد قسمتی سے اس رویہ کا پرچار کرنے والے خود کو نظریہ پاکستان یا دو قومی نظریہ کا محافظ قرار دیتے ہوئے یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ پاکستان کے قیام کی وجہ دراصل اسلام کا ایک قلعہ حاصل کرنا تھا۔ اب جب کہ یہ قلعہ حاصل کرلیا گیا ہے تو اس کی حفاظت کے لئے دوسرے مذاہب اور عقائد کو مسترد کرنا ہی بہترین اور ضروری راستہ ہے۔ یہ رویہ مختلف دلائل اور حوالوں سے استوار کرنے کے لئے بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کے انتقال کے بعد سے مسلسل کام ہوتا رہا ہے۔ پاکستان کی پہلی آئین ساز اسمبلی میں منظور کی جانے والی قرار داد مقاصد نے اس رویہ کی بنیاد رکھی تھی اور یہ بنیاد اس قدر مضبوطی سے قومی نفسیات میں راسخ کردی گئی ہے کہ 1956 اور 1962 کے آئین مسترد کرنے اور ملک کو 1973 کے آئین کی طرف لے جانے کے باوجود قرار داد مقاصد پاکستانی آئین کا حصہ ہے اور کوئی اس کے بارے میں دلیل دینے یا حجت کرنے کا حوصلہ نہیں کرسکتا۔ نہ ہی یہ سوال اٹھایا جاسکتا ہے کہ آخر کیا وجہ ہے ملک کی پہلی آئین ساز اسمبلی کے تمام اقلیتی ارکان نے 12 مارچ 1949 کو منظور کی جانے والی اس قرارداد کی مخالفت کی تھی۔ اور اگر یہ قرارداد اس نظریہ پاکستان کی بنیاد ہے جس کے تحت اقلیتوں کا قافیہ تنگ کرنا ضروری ہے تو بانی پاکستان کی نگرانی میں قائم ہونے والی آئین ساز اسمبلی میں اقلیتوں کے نمائیندے کیوں شامل کئے گئے تھے۔

پاکستان کو مذہبی ہیجان اور اس کی بنیاد پر معاشرہ میں بڑھتے ہوئے رجحان سے نمٹنے کے لئے اس مزاج کو سمجھنا اور مسترد کرنا ہو گا جو اسلام کو پاکستان کی بنیاد بتاتے ہوئے باقی عقائد کے بارے میں نفرت، تعصب اور عدم قبولیت کو عام کرنے کا سبب بنا ہے۔ اس حوالے سے ٹھنڈے دل و دماغ سے یہ دیکھنے کی بھی ضرورت ہوگی کہ قرار داد مقاصد کس حد تک قائد اعظم کی 11 اگست 1947 والی تقریر کی روح سے متصادم ہے جس میں مجوزہ پاکستانی آئین کے بنیادی خدوخال واضح کئے گئے ہیں۔ اگر بانی پاکستان کے ارشادات اور خواہشات کے مطابق قومی مزاج کو فروغ نہیں دیاجاسکتا تو یہ ملک قائد اعظم کے خواب کی تعبیر نہیں ہو سکتا۔ اور ہم دانستہ یا ناداستہ ایک ایسا معاشرہ قائم کرنے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں جو قائد اعظم کے ارفع انسانی مساوات کے اصولوں پر استوار نہیں ہو گا بلکہ مذہب کی اجارہ داری قائم کرنے کی یہ دوڑ پاکستان کو دنیا کے مقابل لا کھڑا کرے گی جہاں افہام و تفہیم اور ایک دوسرے کو قبول کرنے کے اصول کو کسی بھی صحت مند معاشرہ کے لئے بنیادی اصول کے طور پر تسلیم کرلیا گیا ہے۔

قیام پاکستان کو عقیدہ کے تحفظ کی جدوجہد قرار دینے والوں کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اگر یہ تفہیم درست ہے تو برصغیر کی تقسیم کے وقت کثیر تعداد میں مسلمانوں کو بھارت میں ہی کیوں چھوڑ دیا گیا اور 1971 میں ہم مذہب ہونے کے باوجود ملک کے کثیر آبادی والے مشرقی حصّہ نے علیحدگی کا فیصلہ کیوں کیا تھا۔ عقیدہ کی بنیاد پر برتری کا مطالبہ کرنے والے دراصل نظریہ پاکستان کی اس بنیاد سے انحراف کرتے ہیں جو اقلیتی اور اکثریتی عقائد رکھنے والوں کے مساوی حقوق کی بنیاد پر استوار ہے۔ اس حق سے انکار کی وجہ سے ہی قائد اعظم نے انگریزوں کو ہندوستان کے مسلمانوں کے حقوق کو یقینی بنانے کے لئے پاکستان کا مطالبہ منظور کرنے پر مجبور کیا تھا۔ اگر مساوات کا یہ اصول پاکستان میں نافذ نہیں ہو گا تو یہ اس جد و جہد کی نفی کرنے کے مترادف ہو گا جو 1940 کی قرارداد کے مطابق سب کے مساوی حقوق کے اصول کے لئے شروع ہوئی اور کامیابی سے ہمکنار ہوئی تھی۔ عقیدہ کی بنیاد پر دوسروں کو مسترد کرنے والے دراصل اسی مزاج کے نمائیندہ ہیں جس کا مظاہرہ مسلمانوں کے لئے علیحدہ ملک کے مطالبہ کو ماننے سے انکار کرنے والے کانگرسی اور ہندو لیڈر کررہے تھے۔

پاکستان کے بارے میں امریکی ادارے کی رپورٹ کی اس سے زیادہ اہمیت نہیں ہو سکتی کہ یہ ہمیں اس بات کی یاددہانی کرواتی ہے کہ پاکستان کو بانی پاکستان کے نظریہ اور اصولوں کے مطابق ایک ایسا معاشرہ بنانے کی ضرورت ہے جہاں ہر عقیدہ کا حامل شخص اطمینان سے زندگی گزار سکے اور اسے اپنے تحفظ کے بارے میں تشویش لاحق نہ ہو۔ یہی نظریہ پاکستان ہے اور اسی کو عام کرنے کی ضروت ہے۔ بصورت دیگر امریکہ ہی نہیں دنیا کی دیگر اقوام بھی پاکستان پر انگلیاں اٹھاتی رہیں گی اور ہمارے رہنما اپنا دفاع کرنے میں ناکام رہیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2772 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali