جلسہ لا ہور دا۔۔۔ ایجنڈا کسے ہور دا


کل جلسوں والی رات تھی

پڑنا تھا خرچہ ترا

کچھ نے کہا یہ چال ھے

کچھ نے کہا چسکا ترا

تحریک انصاف کا جلسہ دیکھ کر جو پہلا خیال کوندا وہ یہ تھا کہ عمران خان اگر سیاستدان یا کرکٹر نہ ہوتے تو اچھے ٹی وی پروڈیوسر ضرور ہوتےکیونکہ تقریر میں بریخت کےفلسفہء تھیٹر کے مطابق کمال مشاقی سے وڈیوز، گیت، نعرے اور جذباتی رنگا رنگی موجود تھی اور سب سے بڑھ کر مجموعی تاثر یہی ملا کہ نرگس مستانہ جس دیدہ ور کی تلاش میں اپنی جی حضوری پہ روتی تھی وہ آ گیا ہے۔ عطار کے لونڈے سے دوا لینے کی عادت شاید رگ و پے میں سرایت کر گئی ہے کہ ایوب خان امریکہ کے دورے پر عزتوں کا رکھوالا نظر آیا، حالانکہ ھم آج جتنے بھی گرے ہوئے ہیں۔ ایوب خاں کے اسی دورے میں سیٹو اور سینٹو والے معاہدوں کی مہربانی ہے۔ قرضوں کی دوائے درد و غم کا مداوا عوام سے ستائیس ہزار ارب اکٹھے کر کے ہو گا لیکن میں تو پھوٹی کوڑی بھی دینے کا روادار نہیں کیونکہ قرض اتارو ملک سنوارو کے چکر میں جذباتی نعروں سے پمفلٹوں پر پلے بڑھے مارکسسٹوں کی طرح میں اپنی ماں سے جھوٹ بول کر کچھ رقم جمع کروا آیا تھا لیکن پھر پتہ چلا کہ قدم بڑھانے والے صاحب کا بھتیجا میرے پیسے ایک غیر ملکی دوشیزہ کے گیٹ پر جلا آیا صرف اس لیے کہ اس نے یہ احسان لینے سے انکار کر دیا تھا۔

ہاں اس میں شک نہیں کی خان صاحب پر خدانخواستہ معاشی بدعنوانی کا کوئی الزام نہیں پھر دھڑکا کیوں لگا ہوا ہے۔ خان صاحب کا سٹیمنا بتاتا ہے کہ نشہ جیسی کسی علت کا شکار نہیں، جواء کبھی کھیلا نہیں، شوکت خانم نے اگر لگایا اور ڈوب گیا تو ناہنجارو یہی تو سرمایہ داری نظام کی خوبصورتی ہے کہ ایمزون کا مالک بستر سے نکلا تو پتہ چلا کہ کروڑوں ڈالر کما گیا۔ خان صاحب سرمایہ داری نظام میں ہی ایسا بندوبست کریں گے کہ قرضے یوں اتریں گے جیسے امریکی ایئر پورٹوں پر قرض داروں کی شلواریں اترتی ہیں۔ اوہ یاد آیا خان صاحب نے ایک زبردست جگاڑ کی یعنی کمال ہوشیاری سے شاھد خاقان عباسی کے امریکی ایرپورٹ پر کپڑے اترنے کا من گھڑت قصہ دکھایا نہیں جا سکا تو زبانی بیان کر دیا۔ بھولا کانا کہا کرتا تھا کہ، “جھوٹ کسے دے پیو دا کہ جناں مرضی بولو” ( جھوٹ کسی کے باپ کا ہے؟ جتنا مرضی بولو) ۔ یہ تو بالکل درست ہے کہ ساری دنیا کہتی تھی پاکستان ورلڈ کپ نہیں جیت سکتا لیکن خان صاحب نجی محفلوں اور ٹیم میٹنگز میں یہی کہتے تھے کی جیت جائے گا۔ سوچیں اگر آپ کپتان ہوتے تو کیا کہتے؟ ظاہر ہے یہی کہتے ورنہ جوتے پڑتے کہ گھر سے ہی ہار والا منہ لے کر گیا تھا۔ خان صاحب کو خود پر تو پتہ نہیں البتہ ویوین رچرڈز پر بہت اعتماد تھا اسی لیے اسے پاکستانی ڈریسنگ روم میں بلا کر حوصلہ بلند رکھنے پر لیکچر دلوایا کرتے تھے۔ آپ چاہے انضمام الحق سے یا رمیز راجہ سے پوجھ لیں۔

معاف کیجیے گا بات شروع ہوئی تھی امریکی غلامی سے تو مجھے یاد آیا کہ خان صاحب امریکی غلامی سے نجات دلانے ایک بار گھر سے نکل بھی پڑے تھے لیکن راستے میں ہوا نکل گئی جب ابو جندل کو بھارت میں گرفتار کروایا گیا اور پاکستان نے نیٹو کی سپلائی غیر مشروط طور پر کھول دی۔ خان صاحب ڈرون حملوں کے خلاف نیٹو کے راستے بند کروانے پر مصر تھے۔ ویسے خان صاحب نے کبھی یہ نہیں سوچا کہ فاٹا والے ڈرون کو بہتر سمجھتے تھے یا حکومت کے طالبان کے خلاف حملوں کو۔

تحریک انصاف کے جلسے میں شریک افراد کی تعداد پر ھم تو جناب کچھ کہ کر بیوی سے جھاڑیں نہیں کھا سکتے۔ ایسا نہیں کہ بیگم صاحبہ انصاف پسند ہیں میرا مطلب تحریک انصاف پسند ہیں یا اوسط درجے کا سیاسی شعور رکھنے والوں کی طرح تقریر کے سحر میں گم ہو کر تبدیلی کی آ س لگا لیں بلکہ حقیقت کچھ یوں ہے کہ تنخواہ تین مہینے بعد ملی ہے اور یقین کیجیے تنخواہ نہ ملنے کا حد سے گزر جانا ہے بد دعا ہو جانا۔ ایسا لگنے لگتا ہے آ پ کسی اجنبی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ جنوبی پنجاب میری جنم بھومی ہے اور مجھ سے زیادہ کون چاھے گا اسے شہباز شریف کے تسلط سے نکلتا دیکھنا لیکن “کہاں مے خانہ کا دروازے اور کہاں واعظ / پر اتنا جانتے ہیں کل وہ جاتا تھا کہ ھم نکلے” ۔ حضور! جنوبی پنجاب والے آ زادوں نے ہی تو آ نے والی حکومت کو ناکوں چنے چبوانے ہیں ۔ صوبہ بن گیا تو کرسیوں کی نئی دوڑ شروع ہو جائے گی۔ میلہ خان صاحب نے خوب لوٹا لیکن قلق ہے کہ جہاں احسن رشید اور سلومی صاحبہ کو یاد کیا وہاں پروین رحمان کو بھی کر لیتے، اب تو ڈرنے کی ضرورت نہیں ایم کیو ایم سے۔

ایم کیو ایم سے یاد آیا بلاول کے بارے میں جب اچھا سوچنا چاھتا ہوں، وہ کوئی فضول بات کر دیتا ہے۔ موصوف کہتے ہیں عمران اور بانی ایم کیو ایم ایک ہی جیسے ہیں ۔ بندہ پوچھے بانی ایم کیو ایم نے کب اپ کے ابا کو چور، ڈاکو اور بیماری کہا تھا! بہتی گنگا میں ہاتھ دھوتے اگر کوئی پکڑا گیا تو وہ ہیں آ پ کے اور ہمارے رضا ربانی۔ محترم سے رہا نہیں جا رہا تھا عوام دشمن باجی، اوہ معاف کیجیے، عوام دشمن بجٹ کے خلاف بول کر زرداری صاحب کی شاباش لینے کے لئے مرے جا رہے تھے۔ بازاروں میں غریبوں کا بہتا لہو، شاھراھوں پر بکتا مزدور کا گوشت، آ گ سی سینے میں ابلتی، مرنے کی حسرت میں جیتی مخلوق واہ ! کیا کیا نا جذباتی وارداتیں گنوا دی جناب نے اور سعید غنی نے تو کمال ہی کر دیا یعنی مجمع سے کہا کہ مل کر کہو، ” بلاول”، ” بلاول”, ” بلاول” ۔۔۔ میں انتظاد ہی کرتا رہا کہ٬ ” بلاول ڈاڈھو سٹھو آ ھے”، ” چاروں صوبیاں جی ھکو گل..۔بلاول، بلاول “، ” زرداری کمان بلالول تیر” جیسے نعرے بنے ہوں گے لیکن پی پی پی نئے نعرے لگانے سی ڈرتی ہے شاید اینٹ سے اینٹ بجانے والے نعرے کا خوف کا شعور میں بیٹھ گیا ہے۔ اچھا جناب ایک جلسہ ریلوے گراؤنڈ مردان میں بھی ہو رھا تھا اور مولانا نے تو سیدھا سیدھا امریکہ کو جنگیں اور بحران کھڑے کرنے پر لتاڑ دیا۔ وزیر اعظم بننے کی درخواست کسے این پیٹرسن سے نہیں کریں گے ۔ امریکہ نے کہاں سوچنا ہے ایسا۔ یہ میرا ناقص خیال ہے۔ اب دیکھیں نا ساری زندگی جو معاشی اور جہادی حمایت کرتے رہے انہوں نے “میں ہوا کافر تو وہ کافر مسلماں ہو گیا” کے مصداق نہایت کورے پن سے کہ دیا کہ خاص فرقوں کی حمایت مغرب کو خوش کرنے کے لیے کی۔ مولانا سفید کو سیاہ اور سیاہ کو سفید کہ سکتے ہیں۔ آ پ کا خیال ہے میں تحریک انصاف کے جلسے کی تعداد گول کر گیا۔ دل ہی تو ہے سیاستِ درباں سے ڈر گیا / میں اور جاءوں در سے ترے بن صدا کیے” ۔ کسی نے خوب تبصرہ کیا ہے،

جلسہ لا ہور دا / مجمع پشور ( پشاور) دا تے ایجنڈا کسے ہور دا


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).