سائبر کرائم بل: جسم و زباں کی موت سے پہلے


\"ARSALANزہے قسمت کہ مجھے روئے زمین کے ایک ایسا خطہ میں جو اسلام کے نام پر بنایا گیا، پیدا کیا گیا۔ مجھے مژدہ سنایا گیا کہ تم ابن آدم ہو اور حیوان ناطق تمہارا روپ۔ مجھے احساس، سمجھ، عقل  عطا کی تو مذہب کی مجال میں بھی باندھ دیا کہ یہ تمہاری اوقات ہے۔ اپنی اوقات میں رہنا۔ سمجھایا گیا کہ اس خاردار درخت کے قریب مت جانا جس سے تمہیں تکلیف پہنچے۔ مجھے سمجھایا گیا کہ شیطان بڑی بُری شئے ہے۔ تمہارا پیچھا کرے گی۔ سمجھدار تھا سمجھ گیا۔ پھر بتایا کہ ارے پگلے کبھی وہ نیکی کی راہ سے بھی حملہ کرے گا۔ نادان تھا بہک گیا۔

ابھی میرا خمیر گندھا جا رہا تھا کہ وطن عزیز کی محبت میرا لازمہ ٹھہرا۔ میرا سانچہ مٹی سے بنا تھا حاکم کی اطاعت کی پر کشش  تعلیم میں ڈھل گیا۔ آگ کی تپش میں گرمایا گیا تو اپنے حقوق کیلئے لڑنا بھی سمو گیا۔ من و تو کا جھگڑا میری حمیت بن گیا۔ فرقوں کی تفریق میں ڈالا گیا تو بکھر گیا۔ میری ذات میری نفرت و محبت کی وجہ بن گئی۔ میرا فرقہ میری ذات کا عکس بن گیا۔ اور میں اس سب میں گم ہوگیا۔ میں ہاتھ بلند کرتا تو کافر کہلاتا، میں ہاتھ چھوڑتا تو کافر کہلاتا۔ یہود کے کاہنوں اور فریسیوں کا پڑھا تو سوچا کہ خدایا ایسی قوم کیوںکر ہو سکتی ہے؟ مسجدوں کے مولویوں کو گرجتے ہوئے شیعہ کافر، بریلوی کافر، سنی کافر، شافعی کافر، حنبلی کافر کہتے سنا تو سرا ٹھایا، یوں گویا ہوا۔ اے خدا یہ میری اوقات تھی جس میں مجھے رہنا تھا؟  گھبرا کے باہر نکل آیا تو عجب دنیا تھی۔ وڈیروں، سرداروں، چوہدریوں کو اپنا حاکم پایا۔ اطاعت کا حکم تھا اطاعت کی۔ غلامی کی حد تک کی۔ میری نسل در نسل تک غلام ہو گئی۔ چہرے بدل گئے۔ لیکن فقط زنجیر بدلی جا رہی تھی۔ میں سمجھا تھا رہائی ہو گئی ہے۔

میرے شہر جلنے لگے۔ میرے لوگ مرنے لگے۔ وہ جہاں کبھی رحمتوں کا نزول تھا وہ مرجع عذاب بن گیا۔ لوگ مسیحا تلاش کرنے لگے۔ یہ بھول گئے کہ خدا نے آج تک اس قوم کی حالت ہیں بدلی نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا۔ ہندوستان میں مغلیہ سلطنت اور ریاستیں انگریزوں سے کیوں شکست کھا گئیں ۔پورے ہندوستان کو فتح کرنے والی انگریزی فوج کی تعداد صرف چند ہزار تھی لیکن ہندوستان کیونکر سرنگوں ہو گیا۔ خدا کی رحمتیں اس خطہ سے اٹھا لی گئیں کیونکہ ہم نے خود بدلنے سے انکار کر دیا۔ خدا کے رسول نے کہا تھا کہ ایک زمانہ کے علماء روئے زمین پر بد ترین مخلوق ہوں گے۔ لوگ ان کے پاس فتوے لینے جائیں گے تو کتوں اور خنزیروں کو ان کی جگہ پائیں گے۔ میں سوچتا تھا کہ یہ بہت سخت کہہ دیا۔ مگر اسی لمحے مسجدوں میں زخم خوردہ مومنوں کی سسکتی آہوں کو دیکھ کر خاموش ہو گیا۔ سکولوں اور تفریح گاہوں میں مرتے بچوں اور عورتوں کی تڑپتی لاشوں کو دیکھ کے تڑپ اٹھا۔ مندروں کو مسمار ہوتے دیکھ کر شرم سے جھک گیا۔ اور کلیساؤں کی بے حرمتی پر چھلک اٹھا۔

سنا ہے کہ سرکار نے بولنے پر بھی قدغن لگا دی ہے۔ سوچ کی بغاوت کہتی ہے کہ یہ قدغن تو سقراط اور ارسطو پر بھی لگائی گئی تھی۔ یہ قدغن تو اپنے اپنے زمانے میں یسوع مسیح اور رسول عربی ؐ پر بھی لگائی گئی تھی۔ یہ قدغن تو منصور ، خلیل جبران، رومی اور تبریز ؔ پر بھی لگائی گئی تھی۔ یہ قدغن تو منٹو، جالب، فیض اور دامنؔ پر بھی لگائی گئی تھی۔ ان میں سے کتنوں کو اس قدغن نے ایک چار دیواری میں باندھ کر رکھا اور کتنے آج پرندوں کی صورت آسمان میں پرواز کر رہے ہیں؟ سب کے سب ہی تو موجود ہیں۔ تو اب کون سی قدغن زبانوں اور سوچوں پر تالے لگا سکے گی۔ ’’ہم سب‘‘ کو بولنا ہے کہ ہمیں خدا نے بنایا ہے ملاں نے نہیں۔’’ہم سب‘‘ کو بولنا ہے کہ ہم نے خدا کو جاں دینی ہے کسی حاکم کو نہیں۔’’ہم سب‘‘ کو بولنا ہے اور اپنی اس شان کو دوبارہ زندہ کرنا ہے کہ جس کا نام اشرف المخلوقات ہے۔ ’’ہم سب‘‘ کو بولنا ہے کہ سچ زندہ ہے۔ ’’ہم سب‘‘ کو بولنا ہے کہ تم اور میں زندہ ہیں۔ ’’ہم سب‘‘ کو بولنا ہے کہ اس راہ میں مر گئے تو امر ہو جائیں گے۔ ’’ہم سب‘‘ کو بولنا ہے کہ یہی سچا جہاد ہے۔ ’’ہم سب‘‘ کو بولنا ہے کہ غلط کو غلط نہ کہنے والا مجرم ہے۔ ’’ہم سب‘‘ کو بولنا ہے کہ اور کوئی نہیں اٹھے گا۔ ’’ہم سب‘‘ کو بولنا ہے کہ یہ تھوڑا وقت بہت ہے۔۔۔۔ جسم و زبان کی موت سے پہلے۔۔۔۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
3 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments