اردو کا ماتم


مملکت خداداد کو پہلے دن سے ہی بڑے خطرات کا سامنا رہا ہے اور یہ خطرات ہر گزرتے دن کے ساتھ مزید خطرناک ہوئے جاتے ہیں۔

زمانۂ حال ہی کو دیکھیں، سرحدوں پر دشمن منڈلا رہے ہیں، ملک کے اندر دشمنوں کے ایجنٹ شر پھیلانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ کراچی میں پانی کا ٹینکر خریدنے کے لیے اب تگڑی سفارش کی ضرورت پڑنے لگی۔ ملک میں اچھی سارنگی بجانے والوں اور بنانے والوں کا کوئی پرسان حال نہیں۔

ہمارے جج وہ کام کرنے پر مجبور ہیں جو ہمارے بابوؤں کو کرنے چاہیں، ہمارے بابو وہ کام کر رہے ہیں جو کسی کو نہیں کرنے چاہیے۔

جانوروں کے ڈاکٹر مجھ جیسے بیکار صحافی کو لمبے لمبے مراسلے بھیجتے ہیں کہ ہمارے ساتھ حیوانوں سے بھی برا سلوک ہو رہا ہے اور کوئی ہمارے حق میں آواز اٹھانے کے لیے تیار نہیں۔

قصہ مختصر انسان، حیوان، چرند، پرند، ندیاں، دریا، گلیشیئر، پہاڑ سب کو خطرات درپیش ہیں۔ اگر کسی کو کوئی خطرہ درپیش نہیں وہ ہماری اردو زبان ہے۔

پھر بھی کبھی کبھی ہمارے موسمی مرثیہ نگار نعرے مارتے ہیں کہ اردو لٹ گئی، تباہ ہو گئی، برباد ہو گئی، اردو کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے، وغیرہ وغیرہ۔ یہ سب مرثیے ظاہر ہے اردو میں ہی لکھے جاتے ہیں، اردو میں ہی پڑھے جاتے ہیں، اس پر سب مباحث بھی اردو میں ہی ہوتے ہیں۔

اب ان لوگوں کو کس زبان میں سمجھایا جائے کہ اردو کی صورت ٹھیک ہے، اردو مزے میں ہے، اردو پھل پھول رہی ہے، اردو کی فکر چھوڑیں۔

چلیں اردو زبان میں ہی سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اپنے ارد گرد نظر دوڑائیے اگر کوئی پرائمری پاس ہے تو اردو پڑھ سکتا ہے۔ اگر کبھی سکول کی شکل نہیں دیکھی تو اردو سمجھ لیتے ہیں اور اپنی ماں بولی کے ساتھ ملا کر بول بھی لیتے ہیں۔ اگر کوئی کسی پہاڑ پر یا کسی صحرا میں ہمارے قومی پانیے سے بچھڑا ہوا اپنی بکریاں چرا رہا ہے اور بانسری بجا رہا ہے اور جسے یہ بھی نہیں پتہ کہ ہماری قومی زبان اردو ہے وہ چاہے بول نہ سکے سمجھ ضرور لیتا ہے۔

زندہ انسانوں کو چھوڑیں، ٹی وی آن کر لیں، اگر نوے چینل ہیں تو ان میں سے نوے فیصد پر اردو میں ہی گفتگو ہو رہی ہے۔ دو پنجابی چینل ہیں کبھی کبھی ان پر جاتا ہوں تو وہاں بھی سب کچھ اردو میں ہو رہا ہوتا ہے۔

اخبار اردو میں، بیوپار اردو میں، موسیقار اردو میں، تھانیدار اردو میں، پھر بھی نہ جانے کیوں کہا جاتا ہے کہ اردو خطرے میں ہے۔ اگر ایسا کہنے والوں کا اشارہ چند لاکھ بچوں کی طرف ہے جو انگریزی میڈیم سکول میں پڑھتے ہیں اور ان کے ممی ڈیڈی ان سے انگریزی میں بات کرتے ہیں تو جانے دیں وہ بچے کوئی خطرہ نہیں ہیں کیونکہ زیادہ تر قوم کو جو انگریزی تعلیم دی جاتی ہے وہ تقریباً اردو میں ہی ہوتی ہے۔

کچھ دہائياں پہلے تک اردو زبان کو چھوٹے چھوٹے علاقائی قسم کے خطرے ہوتے تھے جن پر کما حقہ قابو پایا جا چکا ہے۔

اردو

پاکستان میں کسی زمانے میں قوم پرست ہوتے تھے جو اردو کے خلاف جھنڈا بلند کیے رکھتے تھے۔ میں زندگی میں پہلی بار جب سندھی قوم پرست نوجوانوں سے ملا تو انھوں نے مجھ سے اردو میں بات کرنے سے انکار کر دیا۔ نوجوانوں کا تعلق جیے سندھ سٹوڈنٹس فیڈریشن کے ایک دھڑے سے تھا (صحافت سے ریٹائر ہونے کے دن ہوا چاہتے ہیں آج تک حساب نہیں کر پایا کہ جیے سندھ کے کل کتنے دھڑے ہیں۔)

مجھے سندھی نہیں آتی تھی۔ ہم سب کی انگریزی ملا کر تین منٹ میں ختم ہو گئی۔ میں نے اپنی شستہ پنجابی میں بات جاری رکھی جب تک چائے آ گئی تو سندھی قوم پرست نوجوان اردو میں اردو سامراجی کردار پر لیکچر دے رہے تھے اور سبط حسن کی کتابوں سے لمبے لمبے اقتباسات سنا رہے تھے۔

اکبر بگٹی ایک زمانے میں مرکز سے ناراض تھے اور اردو کا بائیکاٹ کر رکھا تھا۔ اسلام آباد میں ملنے والے صحافیوں سے اردو میں بات کرنے سے انکار کرتے تھے۔ اسلام آباد میں یقیناً ان سے انگریزی میں بات کرنے والے بہت ہوں گے لیکن اردو کے اس عارضی منکر کے انجام سے یقیناً اردو زبان کو درپیش آخری خطرات بھی دور ہو گئے۔

پاکستان کے قیام کے 71 سال بعد بھی ہم ان بحثوں میں الجھے ہوئے ہیں کہ پاکستان کے قیام کے مقاصد کیا تھے۔ مجھے نہیں پتہ کہ اردو کا فروغ ان مقاصد میں شامل تھا یا نہیں لیکن پاکستان میں اردو پراجیکٹ ہر طرح سے کامیاب رہا ہے اور اب پاکستان میں اردو کو اتنا ہی خطرہ ہے جتنا اسلام کو۔ یعنی خطرہ بالکل نہیں ہے لیکن آپ شور مچانا شروع کریں تو دل میں تھوڑا سا شک پیدا ہونے لگتا ہے۔

اردو کے پھیلاؤ کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ جب کسی تاریک زنداں خانے میں ملک کے کسی باغی یا ناراض بچے سے جب اردو میں سوال پوچھا جاتا ہے تو چاہے اسے اردو بولنی آتی ہو یا نہ آتی ہو سوال ضرور سمجھ جاتا ہے۔ اور اگر یہ بہانہ کرے کہ آپ کی اردو مجھے سمجھ نہیں آتی تو سوال کرنے والوں کے پاس ابلاغ کے اور طریقے بھی ہیں جس کے بعد قیدی فرفر اردو بولنے لگتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).