بچے والدین کی عادتیں کیسے اپناتے ہیں ؟


میری بھانجی وردہ میر کی بیٹی الیزا ‘ جسے میں پیار سے مونا لیزا کہتا ہوں‘ اب دو سال کی ہو گئی ہے۔ وہ مجھے دیکھتی ہے تو بھاگی بھاگی آتی ہے اور بڑے تپاک سے گلے ملتی ہے۔میں اس کی پیاری پیاری باتیں اور حرکتیں دیکھ کر بہت محظوظ ہوتا ہوں۔

وردہ کہے ’ہیلو‘ تو الیزا بھی کہتی ہے ’ہیلو‘

وردہ کہے ’گڈ بائے‘ تو الیزا بھی کہتی ہے ’گڈ بائے‘

وردہ صوفے پر لیٹ جائے تو وہ بھی ماں کے ساتھ لیٹ جاتی ہے

ایک دن وردہ نے کہا الیذا بالکل ایک بندریا کی طرح ہے

 MONKEY SEE MONKET DO

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ الیزا ایسا کیوں کرتی ہے؟ الیزا ہی نہیں اس عمر کے سب بچے اور بچیاں ایسا کیوں کرتے ہیں ؟ وہ اپنے والدیں کی حرکتوں کی نقل کیوں اتارتے ہیں؟ ان تمام باتوں اور حرکتوں کا ایک جواب MIRROR NEURONS ہیں جن کی وجہ سے بچے ماں باپ کو جو بات یا عمل کرتا دیکھتے ہیں وہی کرتے ہیں۔ اس طرح وہ زندگی گزارنے کے آداب سیکھتے ہیں۔

مرر نیورونز صرف انسانی بچوں میں ہی نہیں جانوروں میں بھی پائی جاتی ہیں۔ آئیں میں آپ کو وہ دلچسپ کہانی سنائوں جب سائنسدانوں نے مرر نیورونز دریافت کیں۔ ایک لیبارٹری میں چند سائنسدان ایک بندر کے دماغ پر تحقیق کر رہے تھے۔ انہوں نے بندر کے جسم اور دماغ کے ساتھ بہت سی تاریں جوڑی ہوئی تھیں۔ تحقیق کے دوران دوپہر کے کھانے کا وقت آ گیا۔ سائنسدان کیفی ٹیریا چلے گئے لیکن ایک طالب علم کو لیباٹری میں چھوڑ گئے۔آپ چشمِ تصور سے دیکھنے کی کوشش کریں

لیبارٹری کے ایک طرف طالب علم لنچ کھا رہا تھا

لیبارٹریی کے دوسرے طرف بندر اسے لنچ کھاتے دیکھ رہا تھا

جب سائنسدان واپس آئے تو وہ یہ دیکھ کر حیران ہوئے کہ بندر کے دماغ اور جسم میں وہ تمام تبدیلیاں نظر آئیں جیسے اس نے بھی لنچ کھایا ہو۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے آپ کے سامنے کوئی حلوہ کھا رہا ہو تو آپ کے منہ میں پانی آ جائے اور رال ٹپکنے لگے۔

اس مشاہدے کے بعد سائنسدانوں نے تحقیق کی اور ثابت کیا کہ بندر کے دماغ میں ایسی نیورونز ہیں جو کسی اور کو کوئی کام کرتے دیکھتی ہیں تو فعال ہو جاتی ہیں۔ ایسی نیورونز اب مرر نیورونز کہلاتی ہیں کیونکہ یہ نیورونز ایک آئینے کی طرح ہیں جن میں دوسروں کے اعمال کا عکس نظر آ تا ہے اور انہیں فعال کر دیتا ہے۔

اس تحقیق نے انسانی نفسیات کے بہت سے رازوں سے پردہ اٹھایا ہے۔ میں یہاں صرف دو کا ذکر کروں گا تا کہ آپ کو انسانی دماغ اور نفسیات کی پیچیدگیوں کا اندازہ ہو سکے۔

ماہریںِ نفسیات ایک طویل عرصے سے جانتے تھے کہ بعض انسان دوسرے انسانوں سے زیادہ ہمدرد ہوتے ہیں۔ وہ دوسروں کے سکھ میں سکھ اور دوسروں کے دکھ میں دکھ محسوس کرتے ہیں۔ وہ اوروں کے دکھ میں ان سے ہمدردی کا اظہار کرتے ہیں اور پھر ان کی مدد کرنے کی کوشش بھی کرتے ہیں۔ اب ماہرین یہ سمجھتے ہیں کہ اس ہمدردی کا جسے انگریزی میںEMPATHY  and COMPASSION  کہا جاتا ہے مرر نیورونز سے گہرا تعلق ہے۔۔

بعض بچوں کی نفسیات کے ماہرینِ کا خیال ہے کہ بچوں کی ذہنی بیماری AUTISM کا تعلق بھی ان ہی مرر نیورونز سے ہے۔ جن بچوں میں مرر نیورونز یا تو ہوتی ہی نہیں یا بہت کمزور ہوتی ہیں وہ ماں باپ سے ایک جذباتی رشتہ قائم نہیں کر سکتے اور جب وہ محبت بھرا رشتہ قائم نہ ہو تو وہ ان سے بہت کچھ سیکھ بھی نہیں سکتے اس لیے وہ ماں باہپ کے ساتھ رہتے ہوئے بھی جذباتی طور پر لا تعلق ہوتے ہیں جس سے ماں باپ کو بہت پریشانی ہوتی ہے۔ وہ وہاں ہوتے ہوئے بھی نہیں ہوتے۔ ایسے بچوں کا اب ماہرینِ نفسیات علاج کرنے پر تحقیق کر رہے ہیں تا کہ وہ طریقے جانے جائیں جن سے ایسے بچے صحتمند ہو سکیں اور وہ بچے اپنے ماں باپ اور دوسرے انسانوں کے ساتھ ایک صحتمند اور محبت بھرا رشتہ قائم کر سکیں۔

مرر نیورونز کی تحقیق نے والدین کو یہ بھی بتایا ہے کہ چھوٹے بچے وہ نہیں کرتے جو ماں باپ انہیں کہتے ہیں بلکہ وہ کرتے ہیں جو وہ کرتا دیکھتے ہیں۔ بچے گفتار اور کردار کے فرق کو لاشعوری طور پر جانتے ہیں۔ مرر نیورونز کی تحقیق والدین کے لیے ایک لمحہِ فکریہ ہے۔

جب کسی خاندان میں بچے بڑے ہوجاتے ہیں تو والدین کی ذمہ داریاں بڑھ جاتی ہیں۔ والدین چاہتے ہیں کہ بچے ان کا احترام کریں۔ بہت سے والدین اس لیے پریشان رہتے ہیں کیونکہ ان کے بچے ان کی بات نہیں مانتے۔ ’ہم سب‘ کے چند والدین نے مجھ سے فرمائش کی کہ میں اس موضوع پر کچھ لکھوں۔

میں جن والدین کا اپنے کلینک میں علاج کرتا ہوں میں انہیں چند مشورے دیتا ہوں جو آپ کی خدمت میں حاضر ہیں۔

میں والدین کو مشورہ دیتا ہوں کہ وہ بچوں کے بغیر ایک میٹنگ کریں اور ان اصولوں اور ان اقدار پر تبادلہِ خیال کریں جو وہ اپنے بچوں کو سکھانا چاہتے ہیں۔ اگر ماں باپ آپس میں متفق نہیں ہوں گے تو بچے ان اصولوں پر عمل نہیں کریں گے۔

اگر باپ بچے کو کسی بات پر سرزنش کر رہا ہے اور ماں جا کر اسے گلے لگا لیتی ہے تو پھر بچہ باپ سے کچھ نہیں سیکھ سکتا۔ اسی طرح اگر ماں بچے کو کچھ سکھا رہی ہے اور باپ آ کر ماں کو غلط ثابت کرتا ہے تو بچہ ماں کا احترام نہیں کرتا۔ میں والدین کو مشورہ دیتا ہوں کہ وہ بچوں کے سامنے خاموش رہیں اور بعد میں اپنی رائے کا اظہار کریں۔ بچوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ دونوں والدین کا احترام کریں۔

میں والدین کو یہ بھی مشورہ دیتا ہوں کہ وہ ہر ہفتے اپنے بچوں کے ساتھ ایک میٹنگ کریں اس میٹنگ میں وہ بچوں کی شکایات سنیں اور ان کے ساتھ مل کر ان مسائل کا حل تلاش کریں۔ جو ماں باپ بچوں کی رائے کا احترام کرتے ہیں وہ بچے ماں باپ کا بھی احترام کرنا سیکھتے ہیں۔ اس طرح ایک محبت بھرا جمہوری رشتہ قائم ہوتا ہے جس میں مسائل کو خوش اسلوبی سے حل کیا جا سکتا ہے۔

جدید نفسیات ہمیں بتاتی ہے کہ بچوں پر جزا (انعام) کا اثر سزا سے کہیں زیادہ ہے۔

میری ایک مریضہ اپنے سات سالہ بچی کو لے کر آئی جو سکول کا ہوم ورک نہیں کرتی تھی اور جب ماں سرزنش کرتی تھی تو بچی ماں کی بے عزتی کرتی تھی۔ میں نے بچی کا انٹرویو لیا اور پوچھا کہ اسے کون سی چیزیں پسند ہیں۔ پھر میں نے اسے بتایا کہ جس دن وہ سکول کا ہوم ورک مکمل کرے گی اور ماں سے عزت سے پیش آئے گی اس دن اسے ایک سٹار ملے گا جو اس کی ماں اس کے کیلنڈر پر لگا دے گی۔ جب پانچ سٹار جمع ہو جائیں گے تو اسے ایک انعام ملے گا چاہے وہ آئس کریم ہو یا اس کی پسند کا کوئی اور انعام۔ میرا ‘اس بچی اور اس کی ماں کا یہ معاہدہ ہو گیا۔ اس ملاقات کے بعد میں ان سے مہینے میں ایک دفعہ ملتا۔

پہلے مہینے اس بچی کو اٹھارہ سٹار ملے دوسرے مہینے چوبیس سٹار تیسرے مہینے ستائیس سٹار اور چوتھے مہینے تیس ستار۔ بچی کی ماں اس BEHAVIOUR MODIFICATION PROGRAM سے بہت خوش ہوئی۔ میں والدین سے کہتا ہوں کہ وہ جانیں کہ ان کے بچے کس چیز سے MOTIVATE ہوتے ہیں اور جب وہ ماں باپ کے پسندیدہ کام کریں تو انہیں ان کی پسندیدہ چیزوں سے نوازیں اس طرح بچے بھی خوش ہوں گے اور ماں باپ بھی۔ اس طرح والدین اور بچوں میں خوف کی بجائے محبت‘ پیار اور احترام کا رشتہ استوار ہوگا۔

میں سمجھتا ہوں والدین بننا امریکہ کے صدر بننے سے زیادہ مشکل کام ہے۔ صدارت تو چار یا آٹھ سال بعد ختم ہو جاتی ہے لیکن واللدین بننے کی ذمہ داری کم از کم بیس سال تک چلتی رہتی ہے جب تک بچے جوان ہو کر اپنی زندگی کی ذمہ داریاں خود اپنے کندھوں پر اٹھانے کے قابل نہیں ہو جاتے۔خوش قسمت ہیں وہ ماں باپ اور بچے جن کا ایک دوسرے سے محبت پیار اور احترام کا رشتہ ہے۔

ڈاکٹر خالد سہیل

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ڈاکٹر خالد سہیل

ڈاکٹر خالد سہیل ایک ماہر نفسیات ہیں۔ وہ کینیڈا میں مقیم ہیں۔ ان کے مضمون میں کسی مریض کا کیس بیان کرنے سے پہلے نام تبدیل کیا جاتا ہے، اور مریض سے تحریری اجازت لی جاتی ہے۔

dr-khalid-sohail has 690 posts and counting.See all posts by dr-khalid-sohail