مدیحہ گوہر: مزاحمت کی علامت


مدیحہ گوہر رخصت ہوئیں اور اپنے پیچھے بڑا کام‘ بڑا نام اور مداحوں کا ایک بڑا سوگوار حلقہ چھوڑ گئی ہیں۔ وہ کراچی میں پیداہوئیں‘ انگریزی ادب میںایم اے کیا۔انگلستان چلی گئیں جہاں انھوںنے لندن یونیورسٹی سے تھیٹر میں ایم اے کی ایک اورڈگری لی‘ پھر پاکستان واپس آگئیں۔ پاکستان میں حبس و جبر کا موسم تھا‘ انحراف اور مزاحمت مدیحہ کے مزاج کاحصہ تھی، انھوں نے مزاحمت کے لیے تھیٹر کا انتخاب کیا اور یہیںسے‘ اجوکا ‘ تھیٹرکی بنیاد پڑی۔

ناٹک اور ناٹک منڈلیوں کا رشتہ ہماری سرزمین سے بہت پرانا ہے۔ سنسکرت ڈراما ہزاروں برس کی تاریخ رکھتا ہے تو اردو تھیٹرکی روایت لگ بھگ 500 برس پرانی ہے اس روایت کا آغاز گوا فتح کرلینے کے بعد پرتگیزیوں نے کیا۔ یہاں آنے والے پرتگیزی فاتحوں کے ساتھ پادری بھی آئے جنھیں مقامی آبادی کو عیسائی کرنے کی بے تابی تھی۔ اس کا طریقہ انھوںنے یہ نکالا کہ اردو میں حضرت عیسیٰ کی زندگی کے بارے میں ڈرامے اسٹیج کیے۔ جوش تبلیغ کا یہ عالم تھا کہ پرتگیزی مشنریوں کے لیے اردو سیکھنی لازمی ٹھہری۔

اس زمانے میں ہندوستانی ایکٹر بھلاکہاں سے ملتے چنانچہ فادرخود اسٹیج پر آکر ان ڈراموں میں حصہ لیا کرتے تھے۔یہ بھی دلچسپ بات ہے کہ اس کے بعد اردو تھیٹرکو بڑھاوا انگریزوں نے دیا اور پارسیوں نے اسے عروج پر پہنچایا۔ ادھر لکھنؤ اور اودھ میں بادشاہ نصیر الدین حیدر اور ان کے بعد واجد علی شاہ نے رہس‘ ناٹک اور تھیٹر کو یوں اپنایا کہ کئی ناٹکوں میں واجد علی شاہ نے خود کردار ادا کیا۔

ہزاروں برس پرانے سنسکرت ڈراموں سے پارسی تھیٹر‘ رونق لکھنوی‘ آغا حشر اور دوسرے ڈراموں کے خیال نے اس وقت مجھ پر یلغار اس لیے کی کہ مدیحہ گوہر کو یاد کررہی ہوں۔مدیحہ ہمارے تھیڑکاایک بڑا نام۔ وہ بھی چلی گئیں۔ تین برس سے ہم سب جانتے تھے کہ وہ کینسر سے لڑرہی ہیں اور یقین تھا کہ وہ اس کو شکست دے دیں گی۔لیکن کتنے ہی عزیز دوستوں نے کینسرکے سامنے سرِ تسلیم خم کردیا اور ہم دیکھتے رہ گئے۔

مدیحہ گوہر اور شاہد ندیم نے ’’اجوکا‘‘ کے نام سے تھیٹر گروپ اس وقت قائم کیا جب اس جرأت کا تصور بھی محال تھا۔ وہ زمانہ جب خود ساختہ امیر المومنین جنرل ضیاء الحق پورے جاہ وجلال کے ساتھ اس ملک پر حکومت کرتے تھے اور ان کا خیال تھا کہ لوگوں کے ’’اخلاق‘‘ کی نگہداری ان کی ذاتی ذمے داری ہے۔

سترہویں صدی میں جس طرح اورنگزیب نے موسیقی اور تمام فنون لطیفہ پر پابندی عائد کی تھی اور یہ خیال کیا تھا کہ اس نے ان فنون کو گہرا دفن کردیا ہے‘ اسی طرح ہمارے امیر المومنین بھی اسی خوش گمانی میں مبتلا تھے‘ لیکن ’’اجوکا‘‘ اور اس جیسے کئی دوسرے تھیٹرگروپوں نے ان کی یہ خوش گمانی خاک میں ملا دی۔ کراچی میں منصور سعید اور ان کے ساتھیوں نے ’’گلیلو‘‘ جیسے یاد گار ڈرامے پیش کیے۔

مدیحہ گوہر‘شاہد ندیم اور ان کی ٹیم نے اپنے ڈراموں کو اس مہارت سے پیش کیا کہ دیکھنے والا انھیں بھول نہیں سکتا۔ بہ طور خاص ’’بری‘‘ میں 80 برس سے زیادہ عمرکی عذرا بٹ اور سمعیہ ممتاز کوکیسے فراموش کیا جاسکتا ہے۔ یہ ڈراما عورتوں کے لیے جنرل ضیاء الحق کے بنائے ہوئے سیاہ قوانین کے خلا ف لکھا گیا اور عورتوں کے عالمی دن کے موقعے پر پہلی مرتبہ 8 مارچ 1987ء کو اسٹیج کیا گیا تھا۔ جیل کی کال کوٹھری میں قید چار عورتوں کی یہ کہانی جب اسٹیج پر دکھائی دیتی ہے تو آنسو روکنے مشکل ہوجاتے ہیں۔

اس تھیٹر گروپ کا ’’بلھا‘‘ صرف لاہور اور کراچی میں ہی مقبول نہیں ہوا ‘ ہندوستانی پنجاب میں مدیحہ جب بھی ’’بلھا‘‘ اسٹیج کرتیں تو خوش ذوق ناظرین کا ہجوم اسے دیکھنے کے لیے بے تاب ہوجاتا ۔’ ’کالامینڈا بھیس‘‘ کالوکیل سندھ دھرتی ہے‘ یہ ایک سچی کہانی پر مبنی ہے جس میں ایک عورت‘ ایک بیل کے عوض دے دی جاتی ہے۔ چولستان کا صحرا جہاں پانی کی ہر بوند ہیرے کی کنی جیسی ہے اور جہاں گائوں کے واحد کنویں پر علاقے کے وڈیرے کا قبضہ ہے۔

مدیحہ کا اسٹیج ڈراما ’’ایک تھی نانی‘‘ پاکستان اور ہندوستان دونوں جگہ بہت مقبول ہوا۔ یہ ہندوستان میں رہنے والی زہرہ سہگل اور پاکستان کی شہری عذرا بٹ کی کہانی ہے۔ زہرہ سہگل بالی ووڈ کی متعدد فلموں میں ’دادی‘ یا ’نانی‘ کے طور پر جلوہ گر ہوئیں۔ کیسی دلچسپ بات ہے کہ 90 برس کی زہرہ سہگل پر نظر پڑتے ہی لوگ جم کر ٹیلی وژن کے سامنے بیٹھ جاتے اور ان کی بے ساختہ اور فطری اداکاری کی داد دیتے، شاید ہم سب ان کے چہرے میں اپنی نانیوں، دادیوں اور مائوں کے کھوئے ہوئے چہرے ڈھونڈتے ہیں۔

’’ننھی کی نانی‘‘ بٹوارے کے بعد ان دونوں بہنوں کی زندگی کے گرد بنی ہوئی اور شاہد ندیم کی لکھی ہوئی کہانی ہے جس کا الم دلوں میں زہر کی طرح لہریں لیتا ہے۔ یہ جنرل ضیاء الحق کا حبس زدہ دورِ حکومت تھا جب خدیجہ گوہر کی بہادر بیٹی مدیحہ نے اپنے شوہر شاہد ندیم کے ساتھ مل کر ’’اجوکا تھیٹر‘‘ کی بنیاد ڈالی تھی ۔

اس سے پہلے بیٹی اور داماد، خدیجہ گوہر کے ساتھ سر جوڑ کر بیٹھے اور طے یہ کیا گیا کہ عورتوں کے خلاف امتیازی قوانین، کاروکاری، گھریلو تشدد اور جہیز جیسے گمبھیر مسئلوں پر شاہد ندیم ڈرامے لکھیں گے اور مدیحہ دوسرے اداکاروں کی مدد سے انھیں اسٹیج کریں گی ۔ یہ وہ زمانہ تھا جب یہ تمام معاملات ’’سیاسی‘‘ تھے ۔ اب آپ خود ہی سوچئے کہ ان موضوعات پر لکھنے جانے والے ڈراموں کو اسٹیج کرنے کی اجازت بھلا کون دیتا۔

اس موقعے پر خدیجہ گوہر نے کہا کہ کسی ہال کے چکر میں نہ پڑو۔ آخر میرے گھرکا لان کس لیے ہے۔ یوں ’’اجوکا تھیٹر‘‘ کا پہلا ڈرامہ خدیجہ گوہر کے لان پر کھیلا گیا اور پاکستان میں اس ڈرامہ گروپ کا آغاز ہوا جو 3دہائیوں سے ملک کا سب سے اہم تھیٹر گروپ ہے۔ مجھے روبینہ سہگل یاد آرہی ہیں‘ وہ اور مدیحہ ساتھ پڑھتے تھے اور یہ روبینہ تھیںجنہوںنے مدیحہ کے ابتدائی ڈراموں میں اداکاری بھی کی۔

اجوکا تھیٹر کی مدیحہ گوہر ’بری، بُلّھا،ایک تھی نانی‘ اور اپنے دوسرے ڈرامے لے کر کئی بار ہندوستان گئیںاور وہاںانھوںنے خوب داد پائی۔ہندوستان کے راجیہ سبھا ٹی وی پران سے ایک طویل گفتگو کی گئی جس میںانھوںنے اپنے کام کے بارے میںخیالات کا اظہار کیا۔

غلام عباس ہمارے ایک بڑے لکھنے والے تھے‘ انھوںنے ایک افسانہ ’دھنک‘ لکھا جس پر ہماری حکمران اشرافیہ نہایت برہم ہوئی اور غلام عباس کا یہ افسانہ یاد فراموشی کی مچان پر رکھ دیا گیا۔ کئی دہائی بعد مدیحہ اور شاہدندیم نے یہ افسانہ ڈھونڈھ کرنکالا اور اسے ’’ہوٹل موئنجو ڈروکی 71ویں منزل‘‘ کے نام سے ’اجوکا‘ کے بینرتلے پیش کیا۔ یہ ڈراما میں نے کراچی ’آرٹس کونسل میں دیکھا اور دوسروں کی طرح عش عش کراٹھی۔

غلام عباس کی یہ کہانی ایک ’’فینٹسی‘‘ (Fantasy) تھی۔ اس میں دکھایا گیا تھا کہ پاکستان میں سائنسی ترقی اس انتہا کو پہنچی ہے کہ ایک پاکستانی خلانورد چاند کی سطح پر اتر رہا ہے اور اس منظر کو دیکھنے کے لیے ساری دنیا کے سائنسدان اور سفارتکار ’’ہوٹل موئنجوڈرو‘‘ کی 71 ویں منزل پر جمع ہیں۔ پاکستانی خلانورد کی مہم کامیاب ہوجاتی ہے اور اس کے ساتھ ہی مولویوں کی وہ تحریک شروع ہوجاتی ہے جو پاکستان کی اس کامیابی کو ’’غیر اسلامی‘‘ قرار دیتی ہے۔ یہ تحریک کامیاب ہوجاتی ہے۔

ملک میں انتہاپسندوں کی حکومت قائم ہوجاتی ہے جس کا نتیجہ فرقہ وارانہ اور مسلکی فسادات کی صورت میں نکلتا ہے۔ آخر اس فتنہ و فساد کا انجام یہ ہوتا ہے کہ ملک تباہ و برباد ہوجاتا ہے‘ ہر طرف خاک اڑنے لگتی ہے۔ عرصۂ دراز بعد اونٹوں پر سوار غیر ملکی سیاح پہنچتے ہیں اور ہوٹل موئنجو ڈرو کے کھنڈرات کو عبرت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ یہی وہ جگہ ہے جہاں بہت دنوں پہلے دنیا کے عالی دماغ ایک پاکستانی کے چاند پر اترنے کا منظر دیکھنے کے لیے جمع ہوئے تھے۔

اس روز کراچی کے اسٹیج پر ’’ہوٹل موئنجو ڈرو‘‘ دیکھتے ہوئے خیال آرہا تھا کہ غلام عباس صف اول کے افسانہ نگار تو تھے ہی‘ کیسے دانا وبینا تھے کہ انھوں نے اب سے چار پانچ دہائیاں پہلے پاکستان پر انتہا پسندوں کے ہاتھوں گزرنے والی قیامت دیکھ لی تھی۔

مدیحہ کو ابھی بہت کچھ کرناتھا لیکن موت نے ان کا بستروقت سے بہت پہلے لپیٹ دیا۔ مدیحہ کی ماں خدیجہ گوہر ایک اچھی ادیب تھیں اور ان کی دونوں بیٹیاںمدیحہ اور فریال بھی ماںکی طرح لاہورکی ادبی اور سماجی زندگی کا دھڑکتا ہوا حصہ رہیں۔ خدیجہ اور مدیحہ جا چکی ہیں‘ فریال سلامت رہیںاور مدیحہ کے شوہر شاہدندیم، بیٹی سویراور بیٹا نروان اب مدیحہ کے مشن کو لے گر آگے بڑھیںگے۔

یہ سطریں لکھتے ہوئے مجھے 2004ء میں مری کے ’’شانگریلا‘‘ ہوٹل کی وہ شام یاد آرہی ہے جب صنوبر کے پیڑوں سے لپٹ کر وقت رخصت ہورہا تھا اور مدیحہ نے اور میں نے قرۃ العین حیدر کے ناول ’’آگ کا دریا‘‘ کے بارے میں لمبے چوڑے منصوبے بنائے تھے۔ گوتم، شنکر، چمپا، کمال۔ اس ناول کے تمام کردار ہماری نگاہوں میں گھومتے رہے تھے اور ہم انھیں اسٹیج پر دکھانا چاہتے تھے۔ ہم دونوں کی وہ باتیں شاید آج بھی وہاں کسی پیٹر کے پتوں پر آرام کر رہی ہوں۔

(یہ تحریر محترمہ زاہدہ حنا نے لکھی ہے اور روز نامہ ایکسپریس کے شکریے کے ساتھ شائع کی جارہی ہے۔ آج صبح سہواً اس تحریر پر وجاہت مسعود کا نام شائع ہو گیا تھا۔ ادارہ معذرت خواہ ہے۔)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).