بروقت انتخابات کو یقینی بناتے دو جلسے


جلسہ یقینا بہت بڑا تھا۔ ہر حوالے سے شاندار دِکھتا اور منظم بھی۔حاضرین کی تعداد کے اعتبار سے مینارِ پاکستان پر اب تک ہوئے تمام ”جلسوں کی ماں“ لیکن ہرگز نہیں تھا۔ اس میں جذبے اور جنون کی وہ بے ساختہ شدت وحدت بھی نظر نہیں آئی جو اکتوبر2011کے جلسے میں دیکھنے کو ملی تھی۔ عمران خان صاحب کا اس جلسے کے بارے میں فخروانبساط مگر بالکل جائز تھا۔ ان کے کئی برسوں سے دشمن ہوئے ٹی وی چینل نے بھی اس جلسے سے قبل ان سے معافی مانگ لی ہے۔ ان دنوں بظاہر معاشی مشکلات میں گھرے اس چینل نے اپنے پروگرام اوراشتہارات قربان کرکے ان کی 115منٹ لمبی تقریر کو براہِ راست سنوایا۔ اس جلسے کے بارے میں منفی تاثر اجاگر کرنے کے امکانات والے مناظر کو دکھانے سے گریز کیا۔

سرشاری کے ان لمحات میں خان صاحب کو اپنی تقریر کے دوران شاہ محمود قریشی کا سابقہ رعونت بھرا رویہ اور راولپنڈی کے بقراطِ عصر کے وہ فقرے بھی یاد آگئے جو ان دونوں نے اس وقت اختیار واستعمال کئے جب عمران خان اپنی جماعت کو منظم کرنے میں مصروف تھے۔ ذکر اس حوالے سے ڈاکٹر عامر لیاقت صاحب کا بھی ہوسکتا تھا جو کراچی سے خاص طورپر اس جلسے میں شرکت کے لئے لاہور تشریف لائے۔ اپنے نئے کپتان کی محبت میں غالباََ گراﺅنڈ میں سوکر ہی رات گزاری۔ انگریزی محاورے والا Last Laughلیکن خان صاحب کو نصیب ہوا۔

خان صاحب کی خود اعتمادی کا بھرپور اظہار ان کا انداز تقریر بھی تھا۔ مجمع کے جذبات کو ”اوئے“ وغیرہ کے استعمال کے ذریعے گرمانے کے بجائے انہوں نے اپنی ذات اور جدوجہد کے بارے میں ایک طویل داستان سنائی۔ یہ داستان سناتے ہوئے انہوں نے جلسے میں لگی ایک میگاسکرین پر چند تصاویر اور وڈیوز بھی دکھائیں۔ یہ رویہ عموماََ چند شعبوں کے ماہرین بہت بڑی کمپنیوں کے بورڈ آف گورنرز کے اجلاسوں میں اپنی بات کو مائیکروسافٹ پاورپوائنٹ کے ذریعے سمجھانے کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ جشن نما جلسوں میں ایسی Presentationکی گنجاش نہیں ہوتی۔ خان صاحب کو مگر احترام سے سنا گیا۔ ہوٹنگ نہیں ہوئی۔ چند حاضرین یقینا خاموشی سے کھسک لئے ہوں گے۔یہ سب مگر سکرین پر نظر نہیں آیا۔

ان کی سنائی داستان کا بنیادی پیغام یہ تھا کہ وہ جو کہتے ہیں کردکھاتے ہیں۔ ایک ضدی کرکٹرہوتے ہوئے بازی کو آخری گیند تک جیتنے کی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں۔ وہ چار بہنوں کے اکلوتے بھائی اور ماں کے لاڈلے تھے۔ ربّ کریم نے انہیں دولت اور شہرت سے بے پناہ نوازا۔ اپنی خوش حالی میں عمر کی ساٹھویں دہائی میں مست رہنے کے بجائے لیکن انہوں نے شوکت خانم ہسپتال کی معجزہ کن تعمیر کے بعد قوم کی حالت بدلنے کی ٹھان لی۔ اب وہ پاکستان کو اقبال کے خواب میں آیا پاکستان بناکر رہیں گے۔ اسے قائدِ اعظم کی جانب سے طے شدہ ایجنڈے کے مطابق تعمیر کریں گے۔

اقبال اور قائد کے بعد قیامِ پاکستان کے بعد کی 70سالہ تاریخ میں انہیں قابلِ تقلید مگر فیلڈ مارشل ایوب خان ہی نظر آئے۔ امریکہ میں ان کے شاندار استقبال کا ذکر بہت حسرت کے ساتھ ایک بار پھر بہت شدت کے ساتھ کیا۔ فرطِ جذبات میں لیکن یہ حقیقت بھول گئے کہ امریکہ کو اپنے دورے سے مسحور کردینے والے اس فیلڈ مارشل نے اپنے اقتدار کے آخری ایام میں الطاف گوہر سے ”جس رزق سے آتی ہو….“ لکھوائی تھی۔ 1965کی پاک-بھارت جنگ کے بعد وہ امریکہ نہیں آنجہانی سوویت یونین کے زیرنگین تاشقند گئے تھے۔وہاں بھارت سے جنگ بندی کا معاہدہ کیا۔ اس معاہدے کی وجہ سے پاکستان اور بھارت کشمیر سمیت اپنے مسائل کو فقط باہمی مذاکرات کے ذریعے حل کرنے کی راہیں تلاش کرنے کا عہد کر بیٹھے۔ اس ضمن میں پاکستان اب جب بھی ”عالمی ضمیر“ جگانے کی کوشش کرتا ہے تو عالمی طاقتیں اور بین الاقوامی ادارے ہمیں تاشقند معاہدے کی شقیں یاد دلانا شروع ہوجاتے ہیں۔

بہرحال جلسہ بہت بڑا تھا۔ عمران خان صاحب کا اعتماد وہاں دیدنی تھا۔ شاہ محمود قریشی اور راولپنڈی کے بقراطِ عصر کی ”بزتی جئی“ ہوگئی۔ کپتان نے 115منٹ لمبی Presentationکردی۔ ان کے بدترین دشمن ٹھہرائے چینل اسے نہایت احترام سے براہِ است دکھانے پر مجبور ہوئے۔ وہاں خان صاحب نے اس ملک کی تقدیر سنوارنے کے لئے 11نکات بھی پیش کردئیے۔ ان سب چیزوں نے باہم مل کر مجھے پیغام یہ دیا کہ آئندہ انتخابات ہر صورت بروقت ہوں گے۔ان کا اہتمام عمران خان صاحب کو بالآخر اس ملک کا وزیر اعظم منتخب ہونا بھی یقینی بناتا نظر آرہا ہے۔ آئندہ انتخابات کے بروقت ہونے کے بارے میں کئی ہفتوں سے جو بدگمانیاں پھیلائی جارہی ہیں ان کے تناظر میں عمران خان صاحب کا لاہور کے جلسے میں نظر آیا اعتماد خیر کی خبر ہے۔ جمہوری نظام چلتا رہے گا اور اسے صاف ستھرا اور مستحکم بنانے کے لئے چانس اب شاید عمران خان کو ملے۔ وہ آگئے تو گرمئی بازار دیکھنا۔

آئندہ انتخابات کے بروقت ہونے کے امکان پر اس لئے بھی یقین کرنے کو جی چاہتا ہے کہ اتوار ہی کے دن پیپلز پارٹی کے بلاول بھٹوزرداری نے کراچی کے لالوکھیت میں ایک جلسہ کیا۔ لالوکھیت کو لیاقت آباد ہوئے اب کئی برس گزر ہیں۔ پیپلز پارٹی مگر یہاں 44سال کے طویل وقفے کے بعد ہی کوئی جلسہ منعقد کرنے کے قابل ہوئی۔ اس جماعت نے جسے بلاول ”مستقل قومی موومنٹ“ کہتے رہے اس علاقے کو ”دوسروں“ خاص کر پیپلز پارٹی کے لئے نوگوایریا بنارکھا تھا۔ پیپلز پارٹی لیکن اب وہاں کے مکینوں سے آئندہ انتخابات کے لئے ووٹ مانگتی نظر آئی۔ ووٹ ملتے ہیں یا نہیں میرے خیال میں ایک فروعی سوال ہے۔ اہم تر بات یہ ہے کہ پیپلز پارٹی 44برسوں کے طویل وقفے کے بعد اس علاقے میں ایک بڑا جلسہ کرنے کے قابل ہوئی۔ اس کے ذریعے ووٹ مانگے اور ان سب نے مل کر اس تاثر کو یقینی بنادیاکہ آئندہ انتخابات بروقت ہوں گے۔

ایک ہی دن ملک کی دو اہم ترین سیاسی جماعتوں کی جانب سے لاہوراور کراچی میں جلسوں کے انعقاد نے جمہوری نظام کے تسلسل کا پیغام دیا ہے۔ نون کے لاحقے والی مسلم لیگ نے اپنا چھٹا بجٹ بھی پیش کردیا ہے۔31مئی کو اس کی پانچ سالہ آئینی مدت مکمل ہوجائے گی۔ اس کے بعد دومہینوں کے لئے وفاق اور صوبوں میں نگران حکومتیں آئیں گی جو 60دنوں کے اندر نئے انتخابات کروانے کی پابند ہوں گی۔ اس سال اگست میں لہذا 2013کے بعد ایک بار پھر محض انتخابی اور آئینی عمل کے ذریعے عوام کے ووٹوں سے منتخب ہوئی نئی وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو اقتدار منتقل ہوجائے گا۔

دنیا کے تقریباََ ہر خطے میں روزافزوں پھیلتے خلفشار کے موسم میں وطنِ عزیز اس سارے عمل کے بعد استحکام کا جزیرہ نظر آئے گا۔ اسےFailing Stateکہنے والے شرمندہ ہوں گے۔ پیر کی صبح اُٹھنے کے بعد اس خوش کن خیال کو دریافت کرتے ہوئے مجھے بہت مسرت محسوس ہورہی ہے۔
بر ملا


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).