محنت کش خواتین


ہمیشہ کی طرح آج بھی مزدوروں کا عالمی دن خاموشی سے گزر جائے گا۔ یوم مزدور کو چھٹی نہ ہوتی تو شاید مزدوروں کا یہ عالمی دن ہم بھول ہی جاتے۔ یوم مئی کو موقع پر ہم شکاگو کے محنت کشوں کو ان کی جدوجہد کی وجہ سے سرخ سلام پیش کرکے خراج تحسین پیش کرتے ہیں مگر افسوس کہ پاکستان میں آج کے دن بھی ہمارے محنت کش اپنے حقوق سے بےخبر اور اس دن کو منانے سے محروم ہیں۔ بڑھتی ہوئی مہنگائی کے اس دور میں مزدوروں کی کم سے کم اجرت طے تو ہوتی ہے مگر اس پر عمل درآمد بہت کم ہی دیکھنے کو ملتا ہے۔ مرد محنت کشوں کے مقابلے میں خواتین محنت کشوں کی اجرت تو نہ ہونے کے برابر ہے۔

ایک تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق ملک میں 12 ملین محنت کش خواتین کام کر رہی ہیں ان میں ساڑھے چار ملین شہری علاقوں میں اور ساڑھے سات ملین دیہی علاقوں میں۔ پاکستان وہ واحد ملک نہیں ہے جہاں خواتین محنت کشوں کو معاشی ترقی میں تفریق اور عدم توازن کا سامنا ہے۔ ہماری محنت کش خواتین جو گھر داری، بچوں کی نگہداشت اور دیگر امور کے ساتھ مردوں کے مقابلے میں کئی گناہ زیادہ کام کرتی ہیں مگر پھر بھی استحصال کا شکار ہیں۔

یوم مئی کو یہ محنت کش خواتین اپنے اپنے کاموں میں مگن ہوں گیں۔ کوئی فیکٹری میں کام کررہی ہوگی تو کوئی کھیتوں کھلیانوں میں تو کوئی دستکاری اور سلائی کڑھائی کرکے تو کوئی کوئلے کی بوریاں بھر رہی ہوگی تو کوئی بھٹہ مزدوری میں اپنے ہاتھوں سے اینٹیں بنا رہی ہوگی تو کوئی کسی کی گھر میں جھاڑو پوچا کر کے اپنے گزر بسر کا انتظام کر رہی ہوگی تو کہیں یہ خواتین سخت گرمی میں کھیتوں کھلیانوں میں فصلوں کی کٹائی میں مصروف ہوں گیں۔ اپنے حقوق سے بے خبر یہ محنت کش خواتین جن کا چرچا مزدوروں کے عالمی دن پر شاید بہت کم ہی سنائی دیتا ہے یہ نہ کسی سے لڑ سکتی ہیں نا ہی کسی کے خلاف کوئی قانونی کارروائی کر سکتی ہیں۔

زرعی اور لیبر اصلاحات کے باوجود بھی یہ خواتین اپنے سماجی تحفظ سے بے خبر اور لاچار نظر آتی ہیں۔ نہ ان کے پاس اپنے حقوق کو حاصل کرنے کے لیے تربیت موجود ہے نہ ہی سیاسی خود مختاری۔ صنفی تفریق کا شکار یہ خواتین بڑھتی ہوئی مہنگائی بھوک اور افلاس کا شکار ہیں۔ کسی بھی دور حکومت میں ان کے سماجی اور معاشی حقوق پر توجہ نہیں دی گئی۔ اور موجودہ دور حکومت کے اس آخری بجٹ میں تو ان محنت کشوں کو بلکل ہی نظر انداز کیا گیا ہے۔ جب صنفی امتیاز کا یہ عالم ہو کہ خواتین کی عقل کو ان کے ٹخنے میں ہونے سے تشبیہہ دی جائے اور ملک کے مالیاتی، ٹیکنیکل شعبوں یا پھر اعلیٰ عہدوں ہوں ان کی نمائندگی 0 عشاریہ سے زیادہ نہ ہو تو پھر ایسے میں معاشرہ کیسے ترقی کی منازل طے کر سکتا ہے۔

ملک کی ترقی و خوشحالی میں بھی ان خواتین کا نام اور کام بھی شمار کیا جانا چاہیے۔ پورا ملک ایسی محنت کش خواتین سے بھرا پڑا ہے جو گھر کا چولھا جلانے کے لیے صبح سویرے گھر سے نکلتی ہیں اور مشکل سے دو وقت کا کھانا کمانے کے قابل ہوتی ہیں ایسے میں اگر بیماری اور کوئی مصیبت سامنے آگئی تو پھر سمجھو کہ جیسے کوئی آفت آن پڑی اور ان کا سب کچھ ہی گیا۔ ذہنی اذیت، ناروا سلوک، صحت کے مسائل اور مہنگائی کا شکار ہماری ملک کی یہ محنت کش خواتین جس ہمت اور حوصلے سے اپنی زندگی کی گاڑی چلا رہی ہیں شاید ہی کوئی اور کر پائے۔ تمام تر کاموں اور جدوجہد کے باوجود ان کو وہ مقام و مرتبہ نہیں مل رہا جو ان کا حق ہے۔ فیکٹری میں کام کا معاوضہ ہو یا کھیتوں میں کام کا یا بھٹہ مزدوری کی اجرت ہو دستکاری کا معاوضہ ہر جگہ خواتین کا معاوضہ مردوں کی نسبت کم ہے اور وہ صنفی امتیاز کا شکار ہیں۔

کیا کبھی اس ملک میں ان محنت کش خواتین کے لیے بھی کوئی پالیسی بنائی جائے گی؟ کیا ان کے حقوق اور ترقی کے لیے بھی کام کیا جائے گا یا صرف نعرے اور وعدے ہی جاری رہیں گے؟ ہم محنت کشوں کی بدحالی کو خوشحالی میں تبدیل کر سکتے ہیں یہ مگر اس کے لیے ہمیں سب سے پہلے اپنی سوچ کو تبدیل کرنا پڑے گا اور پھر یقیناً ہم ان محنت کش خواتین کی بھی قسمت تبدیل کرنے کے قابل ہو پائیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).