نیشنل اکیڈمی آف پرفارمنگ آرٹس کا تھیٹر فیسٹیول 2016ء


 \"khurramپاکستان میں سنجیدگی سے تھیٹر کے فروغ کے لیے جتنی بھی کوششیں ہوئیں، وہ زیادہ ترانفرادی حیثیت میں تھیں۔ کچھ دیوانہ منش لوگوں نے ذاتی تسکین کی خاطر تھیٹر کیا اور اسے ترقی دی۔ گزرتے وقت کے ساتھ اس قافلے میں کئی مزید لوگ شامل ہوئے، پھر ہم دیکھتے ہیں، رفیع پیر تھیٹر، اجوکا تھیٹر اورتحریک نسواں جیسے تھیٹرکے گروہوں نے اس فن کے بھاری پتھر کو چوما۔ سرکاری سطح پر کراچی میں ”نیشنل اکیڈمی آف پرفارمنگ آرٹس“کے قیام کے بعد ان کوششوں کو مزید تقویت ملی، یوں تھیٹر دوبارہ سے اپنی کھوئی ہوئی مقبولیت حاصل کرنے لگا، اس میں NAPA جیسے ادارے کا مرکزی کردار ہے، جس نے نہ صرف مقامی تھیٹر گروہوں کو اپنے ساتھ ملایا، بلکہ دیگر ممالک کے تھیٹر گروہوں سے بھی پیشہ ورانہ مراسم استوار کیے۔

2011” نیشنل اکیڈمی آف پرفارمنگ آرٹس “کے تحت پہلا تھیٹر فیسٹیول منعقد ہوا، جس میں اسی ادارے سے فارغ التحصیل اور زیر تعلیم طلبا نے اپنے کھیلوں کواسٹیج کی زینت بنایا۔ 2012 کو دوسرے تھیٹر فیسٹیول میں کراچی اورپاکستان سے مختلف تھیٹرگروہوں نے بھی اس میں حصہ لیا۔  2013 میں تیسرے تھیٹرفیسٹیول کا انعقاد ہوا، جس کے بعد سے 2015 تک ہونے والے فیسٹیولز میں نہ صرف پاکستانی بلکہ مختلف ممالک کے تھیٹر گروہوں نے بھی شرکت کی، جن میں ہندوستان، برطانیہ، امریکا، جرمنی اوردیگر ممالک کے تھیٹر گروہ شامل تھے۔ ان کے علاوہ 2015 میں ہی ”ینگ تھیٹر ڈائریکٹر فیسٹیول“کے نام سے بھی چند ڈرامے پیش کیے گئے تھے، مگران کا تعلق نوجوان نسل کے مقامی ہدایت کاروں کے کھیلوں سے تھا۔ 2016 میں ہونے والے تھیٹر فیسٹیول کا انحصار ہندوستان سے مدعو دو تھیٹر گروہوں پر تھا، وہ نہ آ سکے، یوں یہ تھیٹر فیسٹیول مقامی فنکاروں تک محدود ہو کر اپنے مقررہ وقت سے پہلے ختم بھی ہو گیا۔

\"13023297_10153381890781268_760820093_n\"

کئی برس سے کامیابیاں سمیٹنے والے” نیشنل اکیڈمی آف پرفارمنگ آرٹس “کی طرف سے پیش کیا جانے والا موجودہ برس کا تھیٹر فیسٹیول ناکام ثابت ہوا، جس کی کئی ایک وجوہات ہیں۔ اس فیسٹیول کی کامیابی کے لیے ہندوستان سے آنے والے تین کھیلوں پر انحصار کیا گیا، جو پیشہ ورانہ اور تکنیکی لحاظ سے کسی بھی طوردرست نہ تھا، کیونکہ ہندوستان سے آنے والے فنکاروں کے لیے ویزے نہ ملنے یا تاخیر سے ملنے کے مسائل پرانے ہیں، لہٰذا گزشتہ تجربات کی روشنی میں چاہیے تھا، کم از کم کسی ایک اور ملک سے تھیٹر کے کھیل منگوائے جاتے۔ اب جرمنی سے ایک رقاصہ کو بلایا گیا، جس نے تھیٹریکل اندازمیں بڑی مہارت سے رقص پیش کیا، مگروہ رقص تھا نہ کہ خالص مکالماتی انداز کی کہانی، جو تھیٹرکے کھیلوں میں شائقین کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے۔ اسی طرح موسیقی کے دیگرکانسرٹس میں شامل دیارغیر سے آنے والے پردیسی فنکاروں کا فن موسیقی بھی اس تعریف پرکسی طرح پورا نہیں اترتا، لہٰذااس بنیاد پر ہم رواں برس کے فیسٹیول کے ساتھ تھیٹرکے ”عالمی “ہونے کا تکلف نہیں برت سکتے، البتہ موسیقی کے تناظر میں اس کو ”نیم عالمی “ کہا جا سکتا ہے۔

\"13023597_10153381890841268_1333316976_n\"

رواں برس تھیٹر فیسٹیول میں سب سے غیرپیشہ ورانہ بات، پیش کیے گئے کھیلوں کا پرانا ہونا تھا۔ یہ وہ کھیل تھے، جن کو کھیلا جا چکا تھا، یہ کھیل کسی اورموقع پر تیار کیے گئے تھے، جن کو پھر بھاگتے چورکی لنگوٹی کے مصداق یہاں شامل کر لیا گیا۔ ”خوابوں کے مسافر “کئی برس پرانی پروڈکشن ہے، جس میں صرف کاسٹ تبدیل کی گئی، وہ بھی اس فیسٹیول کے لیے نہیں، بلکہ اس ادارے سے فارغ التحصیل طلبا کا اسائنمنٹ تھا، جس کو تھیٹرکاحصہ بنا دیا گیا۔ اسی طرح ”کھویا ہوا آدمی“ گزشتہ برس”ینگ ڈائریکٹرز فیسٹیول“میں پیش کیا گیا تھا، اسی کو پھر اسی برس فیسٹیول کی شروعات سے چند دن پہلے کمال احمد رضوی کی رحلت کے بعد، خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے دوبارہ دکھایا گیا اورفیسٹیول میں پھرایک بار حاضرین کے لیے پیش کر دیا گیا۔ ”طرم کا مکان“ کئی برس پہلے پیش کیے جانے والے کھیل”سفید خون“ کا ایک ٹکڑا تھا، جس کو دوبارہ اس فیسٹیول میں کھیل کے طورپر پیش کر دیا گیا۔ تحریک نسواں کی طرف سے بھی پیش کیا جانے والا کھیل ”شیری“ بھی لاہور کے الحمرا ہال میں پہلے سے کھیلا جا چکا تھا۔ اسی طرح ”اباﺅٹ ٹائم“کے نام سے پیش کیا جانے والا ایک تجربہ حاضرین کے لیے اکتاہٹ سے بھرپور تھا، جس کو تھیٹر کے کھیل کے نام پر پیش کرنے کی ناکام کوشش کی گئی تھی۔

اب رہ گیا صرف ایک کھیل، جس کو ہم فیسٹیول کے لیے خصوصی طورپر بنایا گیا کھیل کہہ سکتے ہیں، وہ ”دی چارمڈرنگ“ تھا، جس میں کاسٹیوم اوراداکاری دونوں ہی لاجواب تھیں، مگراس کھیل کے شریک ہدایت کاراورمرکزی اداکار”کاشف حسین“ کا کہنا تھا کہ ”اس کھیل کی کوئی پیشگی کوئی منصوبہ بندی نہیں تھی، فیسٹیول سے دو ہفتے پہلے اس کا آئیڈیا ذہن میں آیا اور بس فٹافٹ اس کو تیار کر لیا گیا۔ “ا ب اس سے اندازہ ہوتا ہے، فیسٹیول سے دوہفتے پہلے تک بھی” نیشنل اکیڈمی آف پرفارمنگ آرٹس“ کے پاس اپنی کوئی منصوبہ بندی نہیں تھی، موجودہ فیسٹیول میں ہندوستانیوں کو مدعو کر کے، جرمن رقاصہ اورآسٹرین موسیقاروں کے زور بازو پر یہ طے کیا گیا کہ فیسٹیول ہو جائے \"13035412_10153381891216268_1950849868_o\"گا، اس فیسٹیول میں کوئی نئی جدت نہیں کی گئی، بلکہ اسی فیسٹیول کے دوران معروف ہندوستانی اداکار ”اوم پوری“ کا ایک خطبہ رکھا گیا، تاکہ اس سے کچھ خبروں کی زینت بننے میں مدد ملے، وہ مدد بھی کام نہ آ سکی، تھیٹر فیسٹیول کی بے سرومانی چھپائے نہ چھپ رہی تھی۔

یہ باریک نکتہ ذہن نشین رہے، اس فیسٹیول میں پیش کئے گئے کھیل برے نہیں تھے، لیکن ان میں کوئی نیا پن نہیں تھا، وہ سب پرانے تھے۔ جب سالانہ طورپر کسی فیسٹیول کا انعقاد ہوتا ہے، تواس میں یہ طے ہوتا ہے، کچھ نئے اقدامات ہوں گے، ورنہ پھر فیسٹیول کی کوئی ضرورت نہیں رہتی، پرانی چیز توکبھی کسی وقت بھی دکھائی جا سکتی ہے۔ ہندوستانیوں کے نہ آنے سے ان کا جتنا نقصان ہوا، وہ تو ہوا، مگر انہوں نے میزبانوں کی تمام امیدوں پر بھی پانی پھیر دیا، کیونکہ ان کے کھیلوں کی گونج میں یہ بات نہ ہوتی، جو یہاں اب زیربحث ہے۔

”نیشنل اکیڈمی آف پرفارمنگ آرٹس“ نے اب تک تھیٹر کی ترقی کے لیے بہت سنجیدہ کوششیں کی ہیں، جن کااعتراف ہر سطح پر کیاگیاہے، انہوں نے بہت مقبولیت اور کامیابیاں بھی سمیٹی ہیں، یہی وجہ ہے کہ اب ان سے یہ امید کی جاتی ہے کہ وہ فیسٹیول میں کچھ نیا پیش کریں گے، تسلسل سے اچھا اورنیا تھیٹر دیکھنے کی عادت اسی ادارے نے شائقین کو ڈالی ہے، تواب اس کو برقرار بھی رکھنا ہو گا۔

\"13016625_10153381891066268_1186859301_o\"

اسی ادارے کے ایک مقبول طالب علم اورمیڈیا میں کامیابی سے ابھرتے ستارے نے سوشل میڈیا پر شکوہ کرتے ہوئے ایک جگہ لکھا ”اس ادارے کی المنائی ایسوسی ایشن غیرفعال ہے، کوئی غیرملکی شخصیت یہاں آ کر ورکشاپ میں طلبا کو خطبہ دے کر چلی جاتی ہے، مگرہمیں کوئی اطلاع تک نہیں دیتا۔ “اس بات سے اندازہ ہوتا ہے، وہ طلبا جو اس ادارے سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد میڈیا میں مصروف ہو جاتے ہیں، ان میں سے اکثریت کے ساتھ کوئی رابطہ نہیں ہوتا، اس ادارے کی انتظامیہ اوراساتذہ کو یہ سوچنا چاہیے، بالخصوص ”ناپا ریپٹری“ کو یہ کوشش کرنی چاہیے، سالانہ فیسٹیولز کے لیے ایسے طلبا کے جوش اور تجربے کی مدد لی جائے، اس طرح افرادی قوت کا مسئلہ بھی درپیش نہیں ہو گا اور نت نئی تخلیقات کوسامنے لانے میں آسانی رہے گی۔

\"13062694_10153381891306268_1944477954_o\"”نیشنل اکیڈمی آف پرفارمنگ آرٹس “کے تحت ہونے والے کھیل چاہے، وہ فرداً فرداً پیش کیے جائیں یا پھر انہیں سالانہ فیسٹیول کی صورت پیش کیا جائے، اس میں نئے پن اور تخلیقی جہتوں کاخیال رکھا جائے، ورنہ تھیٹر کا یہ گلدستہ، جو چمن میں چہارسو خوشبو پھیلانے کا محرک بنا ہے، مرجھا بھی سکتا ہے۔ یہ ادارہ تھیٹر کے فروغ کے لیے بنایا گیا ہے، اس سے ہم سب کو بہت ساری امیدیں ہیں، امید کرتے ہیں، مستقبل میں یہ امیدیں پوری ہوں گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments