سیاست میں بدکلامی اور بنیادی اصولوں کی بحث


مسلم لیگ (ن) کے صدر اور پنجاب کے وزیر اعلیٰ شہباز شریف نے پنجاب کے وزیر قانون رانا ثنا اللہ خان کے علاوہ وفاقی وزیر مملکت برائے توانائی عابد شیر علی کی طرف سے خواتین کے بارے میں نازیبا کلمات پر معافی مانگی ہے۔ یہ معافی سوشل میڈیا کے علاوہ مختلف ٹاک شوز میں اتوار کو تحریک انصاف کے جلسہ میں شریک ہونے والی خواتین کے بارے میں لیگی رہنماؤں کی بد کلامی کے بعد مانگی گئی ہے۔ اس سے پہلے پنجاب حکومت کے ترجمان کی طرف سے نامناسب الفاظ کی مذمت سے کام چلانے کی کوشش کی گئی تھی۔ تاہم جب تحریک انصاف کے علاوہ دیگر لوگوں نے بھی خواتین کے بارے میں وزرا کے نامناسب طرز گفتگو پر اظہار خیال کیا اور اسے مسلم لیگ (ن) کا سیاسی کلچر قرار دیا تو پارٹی کے صدر شہباز شریف کو خود معافی مانگنا پڑی ہے ۔ انہوں نے ایک ٹویٹ پیغام میں کہا ہے کہ ’ مسلم لیگ (ن) سیاست میں خواتین کی شرکت کو تسلیم بھی کرتی ہے اور اس کی حوصلہ افزائی بھی کرتی ہے۔ خواتین کی ہتک پر مبنی کوئی بھی بیان غیر ذمہ دارانہ ہے۔ ہمیں سیاسی اظہاریہ میں احترام اور شرافت کا مظاہرہ کرنا چاہئے۔ میں خواتین کے خلاف بعض پارٹی لیڈروں کے بیانات پر معافی مانگتا ہوں ‘۔

اس بیان کے ذریعے تحریک انصاف کے جلسہ کے بعد سیاست پر بات کی بجائے مسلم لیگی لیڈروں کے خواتین کے طرز عمل پر ہونے والے مباحث کو ختم کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ لیکن یہ بات افسوس کے ساتھ نوٹ کی جائے گی کی شہباز شریف کایہ بیان اس معاملہ پر رائے عامہ کے شدید طوفان کے بعد سامنے آیا ہے ۔ اس کے علاوہ کسی بھی وزیر کے خلاف حکومتی سطح پر یا پارٹی کے پلیٹ فارم سے کوئی کارروائی دیکھنے میں نہیں آئی ہے۔ مسلم لیگ (ن) کے بعض عناصر رانا ثنا اللہ خان کے بیان پر شرمندگی کا اظہار کرتے ہوئے اس رویہ کی ذمہ داری عمران خان اور تحریک انصاف کے لیڈروں کے اشتعال انگیز بیانات پر ڈالنے کی کوشش بھی کررہے ہیں لیکن یہ بات واضح ہونی چاہئے کہ خاص طور سے خواتین کی توہین کرنے اور ان کے بارے میں ناپسندیدہ الفاظ استعمال کرنا سیاسی حرف زنی میں حد سے گزر جانے سے قطعی مختلف معاملہ ہے۔ اس کے علاوہ کسی بھی غلطی کو تسلیم کرتے ہوئے جب اس کی وضاحت کرنے یا اس کی ذمہ داری کے لئے دوسروں کے عیوب کی نشاندہی کرنے کی کوشش کی جاتی ہے تو اس سے صرف یہ ظاہر ہوتا ہے کہ دراصل غلطی ماننے کی بجائے رد عمل ظاہر کیا جارہا ہے۔ اسی رویہ کو عذر گناہ بد تر از گناہ قرار دیا جاتا ہے۔ جب تک سیاسی رہنماؤں اور ان کے حامیوں میں باہمی احترام کا طرز عمل اختیار نہیں کیا جائے گا ، اس وقت تک ملک کی سیاست میں اصولوں کی بات بھی نہیں ہو سکتی۔ پاکستان مسائل سے گھرا ہؤا ملک ہے ۔ اور اس کے رہنما ان تمام مسائل کو حل کرنے کے دعوے دار ہیں لیکن وہ مسائل حل کرنے سے پہلے اپنی تیز زبانوں سے ایک دوسرے کو زیر کرنے کی کوششوں میں لگے ہیں۔ جوں جوں انتخابات کا وقت قریب آرہا ہے، کردار کشی کی یہ کوششیں بھی تیز ہوتی جارہی ہیں۔ سیاست دان یہ سارے تجربے ماضی میں بھی کرچکے ہیں۔ ماضی میں بھی کردار کشی اور ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لئے اخلاق سے گرے ہوئے الفاظ استعمال کرنے یا الزام لگانے کا طریقہ اپنایا جاتا رہا ہے لیکن اس کے نتیجہ میں قومی سیاست میں کوئی بہتری پیدا ہونے کی بجائے سیاسی لیڈروں پر بھروسہ اور اعتبار متاثر ہؤا اور جمہوری عمل خطرات کا شکار ہؤا۔ اس کے باوجود ملک کے سیاست دان ماضی سے سبق سیکھنے اور اختلاف رائے کے لئے مہذب طریقہ اختیار کرنے کی بجائے اب بھی گام گلوچ اور الزام تراشی کو ہی لوگوں کو متاثر کرنے کا آسان ترین طریقہ سمجھتے ہیں۔

خواتین معاشرہ کا کمزور طبقہ ہیں اور پاکستانی معاشرہ میں مرد کے تسلط کے سبب خواتین کوسیاست کے علاوہ زندگی کے دیگر شعبوں میں آگے بڑھنے کے لئے مشکلات اور صعوبتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ان کے بارے میں نت نئے لطیفے عام کئے جاتے ہیں اور گھٹیا انداز میں گفتگو کرکے صنف نازک پر مرد کی برتری ثابت کرنے کی افسوسناک کوشش کی جاتی ہے۔ رانا ثنا اللہ اور عابد شیر علی کے علاوہ دیگر متعدد لیڈروں کے وقتاً فوقتاً سامنے آنے والے بیانات اس سماجی رویہ کا اظہار کہے جا سکتے ہیں۔ حالانکہ سیاست دان اور سیاسی جماعتیں معاشرہ میں انصاف اور مساوات کی فراہمی اور صنف کے علاوہ عقیدہ اور طبقاتی تقسیم سے قطع نظر ہر قسم کے طبقات کے لئے مساوی مواقع فراہم کرنے کی دعوے دار ہوتی ہیں۔ پاکستان کی نصف سے زیادہ آبادی خواتین پر مشتمل ہے ۔ لیکن معاشی، سماجی اور دیگر شعبوں میں امتیازی سلوک اور مواقع فراہم نہ ہونے کی وجہ سے انہیں مرد کا محتاج بنا دیا گیا ہے اور یہ سمجھ لیا گیا ہے کہ کسی گھر یا برادری کے مردوں کو متاثر کرکے ان کی خواتین کے ووٹ بھی ازخود حاصل کئے جا سکتے ہیں۔ سیاست دانوں کی دوڑ چونکہ صرف ووٹ کے حصول اور کسی حلقے سے نشست جیتنے تک ہوتی ہے ، اس لئے وہ مسلمہ سماجی تعصبات کو ختم کرنے کے لئے کام کرنے کی بجائے انہیں اپنی گفتگو اور مزاج کا حصہ بنا کر اپنے حلقہ انتخاب کو متاثر کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

عمران خان سے ہزار ہا اختلافات کے باوجود تحریک انصاف کی اس بات کو تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ اس پارٹی نے ملک کے نوجونوں اور خواتین کو سیاسی طور سے متحرک کرنے کے لئے بھرپور کردار ادا کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تحریک انصاف کے جلسوں میں نوجوانوں اور طالب علموں کی بڑی تعداد دیکھنے میں آتی ہے جن میں لڑکوں کے ساتھ لڑکیاں بھی شامل ہوتی ہیں۔ سیاسی اجتماعات میں خواتین کی شرکت اس لحاظ سے اطمینان بخش ہے کہ ملک کی نصف آبادی کو نظر انداز کرکے کسی بھی قسم کے عوامی نظام کا خواب نہیں دیکھا جاسکتا۔ عمران خان کی اس کاوش کی حوصلہ افزائی اور ستائش ہونی چاہئے ۔ لیکن رانا ثنا اللہ جیسے جہاں دیدہ لیڈر بھی اگر تحریک انصاف کے جلسوں میں خواتین کی شرکت کو مسلم لیگ کی برتری کے لئے خطرہ سمجھتے ہیں تو مسلم لیگ (ن) کو اس سنگین سوال کا سامنا کرنا ہوگا کہ وہ کس بنیاد پر ملک بھر کے عوام کی نمائندگی کرنے کا دعویٰ کرتی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز اب قومی سیاست میں نمایاں کردار ادا کرنے کو کوشش کررہی ہیں۔ وہ اپنے والد کی معزولی کے بعد سے شروع ہونے والے مشکل دور میں کسی بھی دوسرے پارٹی لیڈر کے مقابلے میں زیادہ ثابت قدمی سے نواز شریف کی بات کو آگے بڑھانے اور ان کے لئے سیاسی میدان ہموار کرنے کے لئے کام کررہی ہیں۔ مریم نواز کا یہ کردار مسلم لیگ (ن) کے لیڈروں کے لئے مشعل راہ ہونا چاہئے نہ کہ وہ دوسری جماعتوں کی خواتین پر پھبتی کس کے اپنی مردانگی ثابت کرنے کی ناکام اور شرمناک کوشش کریں۔

یہ بات خوش آئیند ہے کہ ملک بھر سے رانا ثنا اللہ اور اس قسم کے دیگر لیڈروں کے خواتین دشمن بیانات پر شدید ردعمل سامنے آیا ہے لیکن اس رد عمل کو صرف ایک معافی یا زبانی مذمت تک محدود نہیں رہنا چاہئے۔ نہ ہی اس صورت حال کو ایک دوسرے کی پارٹی کو نیچا دکھانے کے لئے ہتھکنڈے کے طور پر استعمال کرکے خواتین کے احترام اور معاشرہ میں مساوی مقام کے لئے کام کیا جاسکتا ہے۔ ہر سیاسی پارٹی کو انتخابات کے دوران ایسا ضابطہ اخلاق بنانے کی ضرورت ہے جس میں باہمی احترام کو بنیادی اصول کے طور پر تسلیم کیا جائے۔ اس کے برعکس اگر لیڈروں کے نازیبا بیانات کو صرف سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کے لئے استعمال کیا جائے گا تو اس سے ٹاک شوز کا پیٹ بھرنے اور کالم سیاہ کرنے کے علاوہ کوئی مقصد حاصل نہیں ہو سکتا۔ اسی لئے شہباز شریف کو مسلم لیگ (ن) کے صدر کے طور پر صرف معافی مانگنے پر اکتفا کرنے کی بجائے ان تمام لیڈروں کے خلاف پارٹی کے اندر انضباطی کارروائی کی مثال قائم کرنی چاہئے جو سیاسی بیان بازی میں حدود پھلانگنا ہی کامیابی سمجھتے ہیں۔‎


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2767 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali