بلاول بھٹو زرداری، سبز یونیورسٹی اور زرد تنقید


ذوالفقار علی بھٹو صاحب یونیورسٹی آف کیلیفورنیا (برکلے) اور یونیورسٹی آف آکسفورڈ میں پولیٹیکل سائنس، تاریخ اور قانون کے طالب علم تھے اور یونیورسٹی آف ساؤتھ ہیمپٹن میں قانون کے استاد۔ رہے۔ ان کے لکھے ہوئے خطوط، سوشلزم پر دئے گئے لیکچرز کی سیریزاور کتابوں میں انگریزی ادبیات کا وسیع مطالعہ جھلکتا ہے ۔ بھٹو صاحب نے اپنے خلاف بنائے جانے والے قتل کے مقدمے کا دفاع کرتے ہوئے، لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف، سپریم کورٹ میں اپیل کی سماعت کے دوران 4 اور 5 دسمبر 1978 کو اپنا تاریخی بیان مکمل کیا جو کہ پچاس صفحات پر مشتمل ہے۔ اس بیان کے آخر میں انہوں نے اپنےذاتی جذبوں کے اظہار کے لئے کسی مغربی شاعر کے لفظ مستعار لینے کے بجائے سرائیکی زبان کے مہان شاعر اللہ ڈیوایا پرجوش کی ایک کافی کا درج ذیل مصرعہ درج کیا۔

درداں دی ماری دلڑی علیل ہے

کیونکہ درد دل کا ہو یا روح کا، یا تو اپنی بولی میں رویا جا سکتا ہے یا پھر سرائیکی زبان میں کہ اس سے درد کا ذائقہ اور سواد کچھ اور گہرا اور گُوڑا ہو جاتا ہے۔ کہتے ہیں جب بھٹو صاحب داتا دربار، شاہ سائیں کے مزار یا حضرت لال شہباز قلندرکے مزار پر حاضری دیتے تھے تووہاں پر موجود مجاور انکی داہنی کلائی میں کچھ رنگوں کے دھاگے باندھ دیا کرتے تھے۔ ہو سکتا ہے وہ اپنےمحبوب بھٹوکی کلائی میں دھاگے باندھتے ہوئے بڑے جذ ب کے عالم میں آںکھیں موند کر کہتے ہوں،”شالا حیاتیاں مانڑیں۔“ مگرآج کی طرح اُن دنوں بھی غریبوں کی دعائیں پوری نہیں ہوتی تھیں۔

 ان دھاگوں سے بنی اس ڈوری کے رنگوں کو کبھی غور سے دیکھئے گا یہ اب بھی عاشقوں کی کلائی کے گرد بندھی نظر آتی ہے۔ یہ دیکھنے میں بہت پراسرارلگتی ہے۔ سورج کی ڈوبتی شعاؤں جیسی نارنجی اور زعفرانی پھولوں جیسے پیلے دھاگوں میں، بہت اداس روسی سرخ رنگ ملا ہوتا ہے اور جسے دیکھنے سے عاشق اور معشوق جسم کو بھول کر روح کی پہنائیوں میں اتر جاتے ہیں ۔ اس بھٹو کو شاید اس وقت کبھی خیال بھی آیا ہو گا کہ انہی اداس اور پر اسرار رنگوں کوایک دن اسکا نواسہ اپنی کلائی میں باندھے گا۔ کلفٹن (کراچی) میں واقع شو جی کے مندر میں آرتی پوجا میں انہی رنگوں کی آمیزش سے بنی پھینٹے کی پگڑٰی باندھے، چہرے پر دمکتی مسکراہٹ لیے آرتی پوجا کو احترام اور محبت سے دیکھے گا یاعمر کوٹ میں ہولی کے رنگوں سے رنگے کسی فرشتے جیسے معصوم بچے کے سامنےجھک کر ماتھے پہ تلک اورگال پہ گلال لگانے کی رسم کو اپنی مسکراتی آنکھوں سے داد دے گا۔ یا پھر عیسائیوں کے گرجا گھر میں ماں مریم کے سامنے جب مؤدب کھڑا ہو گا تو اپنی نم آنکھوں کو کیمروں کی بےباک روشنی سے چھپانے کے لئے جب رخ موڑے گا تواس کی آنکھ کی لالی میں سرخ انقلاب کی چمک واضح دکھے گی۔ اور ہو سکتا ہےاپنی ماں کویاد کر کے اس کے ذہن میں بھی کسی سرائیکی کافی کے کہیں سنے ہوئے، کبھی نہ بھول سکنے جیسےبول اچانک گونج جاتے ہوں۔

یہ سندھ ہے۔ جہاں برصغیر کی صوفی ازم تحریک کے نقوش اورمذہبی رواداری کے سلسلے بہت پرانے ہیں۔

 بابا فرید گنج شکر،امیر خسرو، شاہ حسین، سلطان باہو، وارث شاہ، خواجہ غلام فرید، میاں محمد بخش، شاہ عنایت، شاہ بھٹائی، سچل، رومی، سرمد، منصوراورکبیر سے ہوتے ہوئے۔۔۔ بابا ذہین شاہ، بابا انور شاہ، حضرت ابوانیس، برکت علی، خواجہ باقی باللّٰہ، غرض کہ ایک سلسلہ حق وآگہی ہے، جو محبت، عفو و درگزر، رواداری، برداشت، عقیدے و مسلک کا احترام ، بھائی چارے اور امن و آشتی کا پیغام زمانوں میں پھیلایا۔ جہاں رامائن، مہابھارت اور کربلا کے واقعات، گوتم بدھ، راجا رام چندر، بابابا گرونانک اور شیخ نظام الدین اولیاء سے یکساں محبت و عقیدت تھی۔

 اولیائے کرام کی دُعاؤں کے طفیل بہت کچھ سنورا۔ آشیانے آباد ہوئے، آدابِ زندگی نکھرے، اسرارورموز کی ایک ایسی کائنات دریافت ہوئی جس نےدنیا کو اناالحق کے انقلابی پیغام سے آشنا کروایا۔ بقول اختر حامد علی خان کے کہ” کسی زمانے میں جب صوفی تحریک زندہ تھی۔ خانقاہیں حُب اللّٰہ، حُبِ رسولﷺ، انسان دوستی، غریب نوازی اور حریت پسندی کے مراکز تھے، بادشاہوں اور امراء کے ظلم و جبر کے خلاف عوام کی ڈھال، پناہ گاہیں تھیں اورجب دورِانحطاط آیا تو وہ قبرپرستی،ٹونے ٹوٹکے اور نذرونیاز کے جال میں الجھ گئے۔ میاں پیرزادے پُرعیش زندگی بسر کرتے ہیں اور عوام کو قوالی اور عرس میں اُلجھا رہے ہیں۔ “

بات سچ ہے۔ دھمال, مزار, صوفی کافیاں, شاہ سائیں کا لازوال کلام گانے والے ، داتا دربار و لال شہباز قلندر کے مزار پہ حاضری اب بھی ہے۔ مگر اب وہ سچے اور سُچے لوگ کہاں؟ اب تو کوفیوں کی سی روش ہے پر دل کو سنبھالے رکھنے کے لئے آموختہ ضروری ہےکہ سندھ صوفیوں کی دھرتی ہے۔ دوستو تمہید دراز ہوئی جاتی ہے۔ ماضی کے دیاروں میں جھانکو تو حال کی شکستگی ماتم کرنے کو بال کھولے سامنے کھڑی نظرآتی ہے۔ پیچھا چھڑانا مشکل۔ کہاں ایسی بلندی اورکہاں یہ پستی ۔

ابھی کل ہی کی بات ہے۔ سوشل میڈیا پر بےعلم لفظوں کا ایک طوفان بد تمیزی برپا ہوا۔ لفظوں کے تیر، تفنگ، بھالے۔۔۔ بلاول مندروں میں، کلیساؤں میں، گرجا گھروں میں؟ پڑھے لکھے، لبرل، ماڈرن افراد نے داد دی اور بولے اقلیت کا ساتھ دیں، ان کے زخموں پر مرہم لگائیں۔ ہم ان کے ہیں وہ ہمارے ہیں، کوئی امتیاز روا نہ رکھا جائے۔ یہی بھٹو کی پارٹی کی پہچان ہے۔ ابھی کچھ ہی دن گزرے کہ سبزرنگ کی پگڑی باندھے بلاول نے” دارالمدینہ انٹر نیشنل یونیورسٹی” کے قیام کی سفارش کردی ۔ اوراس بار ان پڑھے لکھے ماڈرن لبرلز کی باری تھی، کیا سوچنا، کیا تدبر کرنا۔ لمحہ نہ لگایا، ہاتھوں میں ہاتھ دئیے میدان کارزار میں کود پڑے۔ تیوریاں چڑھی ہوئی، لفظوں سے طنزو تحقیر کی بہتی جھاگ۔۔۔۔ اسلام کے نام پر یونیورسٹی؟ یہ کیا تماشا ہے، ہمیں بے وقوف سمجھا ہے، نامنظور، نامنظور۔ اسی دشنام طرازی کے بیچ ایک اور خبر آتی ہے، بلاول بھٹو زرداری نے امجد صابری مرحوم کے نام پرکراچی میں ایک قوالی انسٹیٹوٹ بنانے کا عندیہ دیا۔ میدان کارزار اب تک گرم ہے۔ دونوں قسم کے ردعمل میں کوئی فرق نہیں ۔ دونوں فریق ایک دوسرے کو سپیس نہیں دینا چاہتے۔

 دونوں انتہا ؤں میں تفکر، تدبر، معاملہ فہمی اور تحمل کی کمی ہے۔ اور انتہا پسندی اور جمہوری فکر ایک دوسرے کا متضاد ہیں۔ کیا یہ دونوں عناصر کبھی عوامی، قومی اورجمہوری انٹرسٹ کے حوالے سے اٹھنے والے کسی بھی قدم کو ریشنل بنیادوں پر پرکھ سکتے ہیں؟

ایک یونیورسٹی کے قیام پر ایسا غیر سنجیدہ طرز عمل؟

 کیا لبرل قوتیں مذہب اسلام کے وجود سے انکاری ہیں یا مذہبی جماعتوں سے خوفزدہ؟ مذہبی تنظیموں کے سیاسی کردار کے خلاف ہیں یا انکے جمہوری حقوق انہیں دینے کے لئے تیا ر نہیں؟ ان تمام صورتوں میں انہیں موجودہ زمینی حقائق کی روشنی میں اپنی سوچ پر نظر ثانی کرنی پڑے گی۔ آپ غیر مذہبی ہیں، لادین ہیں، اگناسٹک ہیں، سیکیولرہیں یا کچھ اور۔ بہت اچھا ہے۔ مگرآپ کو یہ ماننا پڑے گا کہ آپ کے ملک میں، آپ کی فکر سے اختلاف کرنے والے بے شمار لوگ بھی بستے ہیں۔ اور حقیقت یہ ہے کہ مذہبی تنظیمیں پاکستان کی ایک حقیقت ہیں اوران میں شامل لوگوں کی تعداد کروڑوں میں ہے اور جمہوری طرز حکومت میں جب کوئی گروہ معاشرے میں ایک اسٹیک ہولڈر کی حیثیت اختیار کرجائے تو آپ اسکو نظر انداز نہیں کر سکتے نہ ہی رد نہیں کر سکتے ہیں۔ یہ اکیسویں صدی ہے، اب جبر اور طاقت کے ذریعے کوئی بھی گروہ زیادہ دیر اور زیادہ دن اپنی بات نہیں منوا سکتا۔

باقی تحریر پڑھنے کے لئے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیے

ڈاکٹر شہناز شورو
Latest posts by ڈاکٹر شہناز شورو (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2