ایک بدچلن ضدی عورت اور ڈاکٹر ڈی این اے


مشرقی ماحول کی پروردہ مغربی معاشرے کا حصہ بننے والی ایشیائی عورت کے لئے دوہرے سماج کا دوہرا معیا ر گلے میں پھانسی کے دو پھندوں کی طرح ہے۔یعنی جھولتے ہوئے اپنے وجود کو برقرار رکھنا ہے۔مگر یہاں کئی برس گذارنے کے بعد اندازہ ہوا کہ مرد بھلے ڈنمارک کا گورا ہی کیوں نہ ہو جب خود پر آجائے تو اپنی طرف کا ہی بھائی بند لگتا ہے۔ یعنی ایشین مرد کوئی جنس نہیں بلکہ ایک عالمی کیفیت ہے۔

اس تناظر میں یہاں ” ڈاکٹر ڈی این اے” کے نام سے ایک کیس مشہور ہوا۔ یعنی ایک انتالیس سالہ کامیاب خوبرو ڈاکٹر کہ جس نے دائمی رفاقت کے پیمان کسی اور حسینہ سے باندھ رکھے تھے کہ ایک روز یوں ہی سرِ رہگزر کسی اور جادو طراز سے نگاہ اس زعم میں ٹکرائی کہ صنفِ نازک کے قدم اکھیڑنے اور قدموں میں لا ڈالنے والے سارے ترپ کے پتے تو جیب میں ہیں لہذا ایک اضافی رومانوی تعلق بازیچہ اطفال ہی تو ہے۔

 آشنائی سے دوستی، دوستی سے محبت اور پھر خلوت تک کا سفر مغربی معاشرے میں زیادہ وقت نہیں لیتا۔ تعلق کے سرسبز اور ہموار راستے پر چلتی عورت کے اعتماد کو پہلی ٹھوکر تب لگی جب اس نے ڈاکٹر کو بتایا کہ ہماری مخمور خلوتوں کا ثبوت دنیا میں ظاہر ہونے والا ہے۔ ظاہر ہے ڈاکٹر صاحب چراغ پا ہوگئے اور کہہ ڈالا کہ یہ نشانی جانے کس کی اٹھا لائی ہو اور زبردستی میرے سر تھوپنے کی کوشش کر رہی ہو۔

بد چلنی کا الزام شاید ہر معاشرے میں مرد کی نوکِ زبان پر دھرا رہتا ہے۔یہ کہنے کے لئے اسے ذہن اور زبان کے ڈانڈے ملانے کی شعوری کوشش بھی نہیں کرنا پڑتی لیکن یہ خاتون چونکہ تیسری دنیا کی پلی ہوئی تو تھی نہیں کہ ہر الزام سے خائف ہو کر دفاعی مورچے کھودنے لگتی۔ وہ مصر رہی کہ بچہ تو تمہارا ہی ہے۔ مسیحا نے حکم دیا کہ اس نجاست سے فوراً جان چھڑا لو۔

جن لمحات کو مقدس، الوہی اور ذات کی تکمیل کہا جاتا ہے انہی باثمر لمحات کا دھڑکتا نتیجہ نجس کیسے ہو سکتا ہے۔یہ سوچ کر خاتون ڈٹ گئی۔ “میرا جسم میری مرضی۔ مجھے میرا بچہ پیدا کرنے کے حق سے کوئی محروم نہیں کر سکتا”۔

ڈاکٹر نے اسے اپنے مقابلے میں سماجی کم مائیگی کا احساس دلاتے ہوئے دھمکی دی کہ اگر وہ اپنے فیصلے پر قائم رہی تو بچہ چھینا بھی جا سکتا ہے۔

”عورت کال بندھی نہیں مرتی بال بندھی مر جاتی ہے”۔محاورہ تو یہ اردو کا ہے پر نوعیت آفاقی ہے۔

یونانی اساطیر کا عیاش دیوتا زیوس جب بہروپ بدل کر جب دیویوں اور فانی عورتوں سے جنسی تعلق قائم کرتا تو انہیں حاملہ ضرور کرتا تا کہ جسمانی و جذباتی طور پر مفتوح و مفلوج کر لے۔ بچہ چھن جانے اور رُل جانے کا خوف ہر عورت کے دل میں افعی کی مانند کنڈلی مارے خفتہ پڑا رہتا ہے۔

لیکن اس خود آشنا عورت پر یہ جذباتی دھمکی بھی کارگر نہ ہوئی۔ اب ڈاکٹر کی پٹاری سے علمی و سائنسی سنپولیہ پھنکارتے ہوئے نکلا۔

 اپنی عمر دیکھو۔ تیس کے بعد تو عورت ویسے بھی زرخیزی کھوتی چلی جاتی ہے۔ یہ بچہ جسمانی طور پر معذور بھی پیدا ہوسکتا ہے”۔

اسے کہتے ہیں ” بیسی اور گھیسی ” کے مقابل “ساٹھے پاٹھے” کا غرور۔

ڈینش ڈاکٹر نے ڈینش عورت کو ڈرانے دھمکانے کے وہ تمام الزامیہ ہتھکنڈے مسلسل استعمال کیے جو بلا تخصیص رنگ و نسل و مذہب ہر جگہ مباح سمجھے جاتے ہیں۔ مگر عورت بھی ایشیائی معاشرے کی تربیت یافتہ تھوڑا تھی کہ اس عزت کی حفاظت کے لئے لبوں پر تالے لگا لے جو کبھی ملی ہی نہیں۔

تنگ آمد بجنگ آمد خاتون نے عدالت کے دروازے پر دستک دی اور ڈی این اے ٹیسٹ کے ترازو پر پورا مقدمہ رکھ دیا گیا۔

مگر یہ کیا ؟ عورت کے پیش کردہ شواہد جھوٹے نکلے۔ لیبارٹری کی ساری گواہیاں مسیحا کے دائیں طرف جا کھڑی ہوئیں میڈیا میں ایک بار پھر طوفان اٹھا۔ بد چلن کہیں کی۔۔۔ تریا چلتر۔۔ خود غرض مکار۔ مگر یہ عورت صرف عیار ہی نہیں ہٹ دھرم بھی نکلی اس نے ڈی این اے نتائج کو چیلنج کر کے ازسرنو تحقیقات کا مطالبہ کیا۔

ڈنمارک میں ڈی این اے ٹیسٹ رائل ہسپتال میں ہوتا ہے اور شناختی کارڈ اور تصویر کے ساتھ نتائج محفوظ کیے جاتےہیں تاکہ کسی غلطی یا رد و بدل کا امکان نہ رہے۔ جب وہ ضدی عورت ہسپتال میں ان شواہد کی تصدیق کے لیے پہنچی تو علم ہوا کہ ڈی این اے کے نتائج کے ساتھ تصویر ” ڈاکٹر ڈی این اے ” کی نہیں بلکہ ڈاکٹر کے دوست کی ہے۔ اس ڈرامے میں دو دیگر ڈاکٹر بھی ملوث نکلے (ان میں سے ایک پاکستانی ہے)۔

تحقیقات سے علم ہوا کہ ڈی این اے ٹیسٹ میں ہیرا پھیری کی نئیت سے ڈاکٹر نے پہلے تو اپنے ایک دوست ڈاکٹر سے میڈیکل ثبوت لکھوایا کہ وہ سردرد جیسے نفسیاتی عارضے کی وجہ سے۔ ڈی این اے ٹیسٹ کے لیے رائل ہسپتال حاضر ہونے سے قاصر ہے لہذا اسکی صحت کے پیشِ نظر یہ ٹیسٹ اس کے اپنے ڈاکٹر سے کروا لیا جائے۔اور پھر اپنی جگہ اپنے ایک اور ڈاکٹر دوست کو ڈی این اے ٹیسٹ کے لئے بھجوا دیا۔

یعنی ایک بے بس صادق عورت کو ایک امین پیشے سے منسلک تین مردوں نے جھوٹا قرار دینے کے لیے منظم منصوبہ بنایا۔

یہاں تنہا ماؤں کو حکومت بچے کی پرورش کا دوگنا وظیفہ دیتی ہے۔ ڈاکٹر ڈی این اے کونہ صرف لاکھوں کرونرز کا ہرجانہ بھرنا پڑا بلکہ سال بھر کی جیل بھی کاٹی اور عام قانون کے مطابق بچےکے اٹھارہ برس کی عمر تک پہنچنے تک طے شدہ رقم بھی دینا پڑے گی۔باقی دو ڈاکٹروں کی شہرت اور پیشہ ورانہ دیانت ان کی پشت پر تاحیات ٹین کی طرح بجتی رہے گی۔

دیکھا آپ نے۔۔۔یہ کمبخت بد چلن ہی نہیں آستین کا سانپ بھی تھی۔

شکسپئر نے صحیح تو کہا ہے …….

“The lady doth protest too much, methinks”

صدف مرزا

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صدف مرزا

صدف مرزا کوپن ہیگن (ڈنمارک) میں مقیم ادیبہ، مترجم اور صحافی ہیں۔

sadaf-mirza has 3 posts and counting.See all posts by sadaf-mirza