تاریخ کے دسترخوان پہ ہماری حرام خوری


جون ایلیا نے کہا تھا ہم تاریخ کے دستر خوان پہ ہزاروں سالوں سے حرام خوری کر رہے ہیں۔ یہ بات سچ ہے اور سچ کڑوا ہوتا ہے۔ مولانا آزاد کہتے ہیں کہ مسلمانوں نےبرصغیر پہ ایک ہزار سال بادشاہت قائم نہیں کی تھی بلکہ وہ خدا بن بیٹھے تھے۔ کوئی جمہوریت تھی نہ ہی آئین۔

اصول ہے جیسا کرو گے ویسا بھرو گے۔ ہمیں ہزار سال تک کے اعمال کی قیمت چکانا پڑ رہی ہے۔ احساس برتری کا یہ داغ بہت گہرا ہے۔ جب جون ایلیا صاحب کہتے بہیں کہ ہم تاریخ کے دسترخوان پہ ہزاروں سالوں سے حرام خوری کر رہے ہیں۔ تو اس کا مطلب ہے کہ اپنی تباہی کے ہم خود ذمہ دار ہیں۔ اس کا الزام دوسروں کو دینا غلط ہے۔

ازمنہ وسطی کی سوچ اب بھی ہمارے ساتھ ہے۔ اسی بنا پہ سارے عالم اسلام کا غم ہمارے دلوں میں ہے۔ ایسا ضیا دور سے شروع نہیں ہوا بلکہ یہ تو ہزاروں سالوں سے چلا آرہا ہے۔ ترکی کی سلطنت عثمانیہ کو بچانے کے لیے برصغیر کے مسلمانوں کا غلط فیصلہ اور اس کے اثرات ہمارے سامنے ہیں یہ ایک چھوٹی سی مثال ہے جب اپنے حالات کو یکسر نظر انداز کرتے ہوئے اس خطے کے مسلمانوں نے وہ فیصلہ لیا جو نہ ان کے حق میں بہتر تھا نہ ہی اس کا فائدہ ترکی کو ہوا البتہ نقصان کی پوری صدی سامنے ہے۔

پھر جمعیت علما اسلام کی پاکستان مخالفت ہندوستان کی محبت میں ہرگز نہیں تھی بلکہ یہ شمال میں مسلمانوں کی حکومت کی بحالی کے لیے تھا۔ دیو بند کی تحریک ریشمی رومال بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے۔ دیو بند ہی عرب کے صحرائی اسلام کو برصغیر میں لائے لیکن وہ اس خطے کے سیاسی تقاضوں کو سمجھ نہیں پائے۔

اورنگ زیب اور ابدالی کی مفتوح علاقے کی توسیع، بالا کوٹ حادثہ اور تحریک ریشمی رومال طالبان کا آغاز تھیں۔ جن کا آغاز اورنگزیب سے ہوا۔ ہم اس کے لیے سعودی عرب کو مورد الزام نہیں ٹھہرا سکتے۔ تحریک خلافت سے لیکر برصغیر میں جنم لینے والی ہر تحریک تک برصغیر کے مسلمان سب سے زیادہ اسلام پسند تھے۔

خلافت کے بخیے تو عربوں نے لارنس آف عریبیہ کے تحت ادھیڑ دیے۔ پاکستان میں ہمارے پاس ایک اصلاح شدہ اور ترمیم شدہ صحرائی اسلام کا ورژن ہے۔ جہاں تک ثقافت کی بات ہے تو وہ ہندو روایات سے جڑی ہے۔ جبکہ فکری مماثلت طالبان سے ہے۔ اس طرح کا دو شاخہ نظام ہماری قومیت کی جڑوں پہ ضرب لگا رہا ہے۔

مسئلہ یہ ہے کہ ہماری سیاست نواز سے لیکر عمران تک سلفی ہے۔ یہ بہت آسان ہے کہ گہری بصیرت میں جائے بغیر سعودیوں یا سلفیوں کو برا بھلا کہا جائے۔ مگر ہندوستان کا پہلا سلفی اورنگزیب تھا۔

ہمارے خون میں ایک عجیب طرح کا دوہرا پن شامل ہے۔ اس لیے میرے خیال میں سیاست کو ثقافت سے منسلک کرنا چاہیے۔ نہ کہ مذہب سے یہ بہت مختلف ہے۔ طالبان نے اسے مذہب سے ملایا اوراسی لیے پاکستان کو دارالحرب قرار دیا۔ یہاں دو طرح کی تقسیم نظر آتی ہے ایک صحرائی مذہب، دوسرا برصغیر کا اسلام۔ مولانا نوری لبرل اسلام کا ورژن تھے جبکہ مولانا مفتی محمود صحرائی ورژن تھے۔ افغانستان میں جنگ تب ختم ہوگی جب وہ اپنی قرون وسطی کی سوچ کو بدلیں گے۔

 کاش سٹالین اس خطہ اراضی کو بھی اپنے قبضے میں لے لیتا یا برطانوی اس علاقے کا انضمام کرنے میں کامیاب رہتے تو حالات مختلف ہوتے۔ قرون وسطی کے قندھار اور پشاور میں فرق ظاہر کرتا ہے کہ ترقی کا کتنا تفاوت تھا۔ قندھار اور قبائلی علاقوں کی ترقی پشاور میں نظر نہیں آتی۔

یہ تاریخی ، سیاسی اور دیوبندی نظریات ہیں جنہوں نے برصغیر کوغیر ملکی حملہ آوروں سے جوڑا جو شمال سے اپنی ملینیم ہسٹری کے فائدے کے لیے تھا۔ ازبکستان پاکستان اور افغانستان سے زیادہ ترقی یافتہ اور روشن خیال ہے۔ شائد جبری کیمیونزم یا جبری کالونی ازم نے اس روشن خیالی کو ترویج دی ہو۔ اس وقت جب پورے خطے میں سیاسی تناسب اور عملیت کا فقدان تھا۔

آج ہم تاریخی ذہنی انحراف کا شکار ہیں۔ ہم تاریخ کی حقیقت کو قبول نہیں کرتے ہم اپنی نشاتہ ثانیہ گنوا چکے ہیں اور اس کی بھاری قیمت چکانا پڑ رہی ہے۔۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنے جذبات پہ قابو پائیں۔ اور آگے بڑھنے کے راستے تلاشیں تاکہ ہم نئی راہ تلاش کر سکیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).