ناکام ہوتی ریاست میں فوج کیسے قابل اعتبار ہے؟


کوئٹہ میں انسانی حقوق کے لئے جد و جہد کرنے والی ہزارہ کمیونٹی کی لیڈر ایڈووکیٹ جلیلہ حیدر نے پاک فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ کی درخواست اور یقین دہانی پر گزشتہ چار روز سے جاری بھوک ہڑتال آج علی الصبح ختم کرنے کا اعلان کیا ہے۔ جنرل قمر جاوید باجوہ کل رات ہی ہزارہ خواتین کی بھوک ہڑتال ختم کروانے کے لئے کوئٹہ پہنچے تھے۔ اس سے پہلے پیر کے روز وزیر داخلہ احسن اقبال نے پریس کلب کے باہر بھوک ہڑتالی کیمپ میں جاکر ہزارہ اقلیتی کمیونٹی کو مکمل تحفظ فراہم کرنے کی یقین دہانی کرواتے ہوئے ہڑتال ختم کرنے پر آمادہ کرنے کی کوشش کی تھی لیکن ہڑتالیوں نے حکومت پاکستان کے اعلیٰ ترین نمائیندے کی بات کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا تھا اور مطالبہ کیا تھا کہ جنرل قمر جاوید باجوہ خود ان کے پاس آ کر ہزارہ لوگوں پر حملوں اور قتل و غارت گری ختم کروانے کا وعدہ کریں، تب ہی وہ ہڑتال ختم کریں گی۔ اس کے بعد ہی پاک فوج کے سربراہ کوئٹہ پہنچے اور وزیر داخلہ منگل کو رات گئے دوبارہ ہڑتالی کیمپ میں آئے اور جوس پلا کر ہڑتال ختم کروائی ۔ اور ہڑتالیوں کے لیڈروں کو فوجی چھاؤنی میں جنرل قمر جاوید باجوہ سے ملاقات کے لئے لے گئے۔ اس ملاقات میں آرمی چیف نے تحفظ فراہم کرنے اور ریاست کی ذمہ داری کے حوالے سے وہی باتیں کیں جو اس سے پہلے وزیر داخلہ کہہ چکے تھے لیکن ہڑتال کرنے والے مظلوم لوگوں کو ان کی بجائے فوج کے سربراہ کی باتوں کا زیادہ اعتبار تھا۔

یہ کہنا مشکل ہے کہ جنرل قمر جاوید باجوہ سے ملاقات کے بعد حاصل ہونے والی یقین دہانی کی وجہ سے اب ہزارہ شیعہ کمیونٹی کے خلاف جاری دہشت گردی کا خاتمہ ہو جائے گا ۔ کیوں کہ صورت حال کی سنگینی کا اندازہ آج سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ثاقب نثار کے اس تبصرہ سے بھی کیا جاسکتا ہے کہ ’جن لوگوں پر ہزارہ کو قتل کرنے کا الزام ہے وہ کھلے عام جلسے کررہے ہیں‘۔ چیف جسٹس نے بھی ہڑتال ختم ہونے اور گزشتہ کچھ عرصہ کے دوران ہزارہ افراد پر یکے بعد دیگرے حملوں کے بعد اس معاملہ کا سو موٹو نوٹس لیا ہے اور 11 مئی کو تمام متعلقہ اداروں سے اس بارے میں رپورٹ طلب کی ہے۔ اگرچہ یہ سوال کیا جاسکتا ہے کہ عوام کے حقوق کے لئے دن رات مصروف رہنے اور جہاد کرنے کے دعوے دار چیف جسٹس کو آخر آرمی چیف کی مداخلت کے بعد ہی از خود نوٹس لینے اور ہزارہ کی زندگیوں کو قیمتی سمجھنے کا اعلان کرنے کا خیال کیوں آیا۔ وہ اس سے پہلے ہزارہ خواتین کی ہڑتال اور احتجاج پر کیوں خاموش رہے۔ اس کے علاوہ چیف جسٹس ملک کے سب سے ذمہ دار اور کسی حد تک سب سے طاقتور عہدے پر فائز ہیں۔ لیکن انہوں نے بھی اس معاملہ کا نوٹس لیتے ہوئے ایک سیاسی بیان نما تبصرہ کرنے پر ہی اکتفا کیا ہے کہ جو لوگ ہزارہ کے قتل میں ملوث ہیں ، وہ کھلے عام جلسے کررہے ہیں۔ اگر چیف جسٹس کے عہدے پر فائز شخص جانتا ہے کہ وہ کون لوگ ہیں جو ان گھناؤنے جرائم میں ملوث ہیں تو وہ سو موٹو کے ذریعے صرف روٹین کی کارروائی کرنے پر کیوں اکتفا کررہے ہیں اور صوبائی حکومت اور سیکورٹی اداروں کی سرزنش کرتے ہوئے صرف رپورٹیں طلب کرنا کیوں کافی سمجھتے ہیں۔ انہیں تو نام لے کر ان عناصر کی نشاندہی کرنا چاہئے تھی کہ ان کی معلومات کے مطابق کون سے لوگ ہزارہ کے خلاف قتل و غارت گری میں ملوث ہیں۔ اور ا داروں کو حکم دینا چاہئے تھا کہ ان مخصوص لوگوں کے خلاف کارروائی کرکے انہیں اس بارے میں رپورٹ پیش کرتے ۔ پھر ان لوگوں کے خلاف ترجیحی بنیادوں پر مقدمات کی سماعت کرکے ملزموں کو کیفر کردار تک پہنچانے کا تہیہ کیا جاتا۔ اس طرح ہزارہ کے علاوہ اس ملک میں اکثریتی مذہبی گروہوں کے تشدد اور جبر کا شکار سب اقلیتوں کو تحفظ کا احساس ہوتا اور وہ یہ یقین کرسکتیں کہ موجودہ چیف جسٹس مظلوم اور محروم طبقات کو تحفظ فراہم کرنے کے لئے مؤثر اقدامات پر یقین رکھتے ہیں۔ موجودہ صورت میں تو چیف جسٹس کے تازہ سو موٹو کا حشر بھی ماضی میں لاپتہ افراد کی بازیابی کے لئے ہونے والے عدالتی اقدامات جیسا ہی ہو گا کہ چیف جسٹس سرکاری عمال اور سیاسی لیڈروں پر غصہ نکال کر معاملہ کی سماعت غیر معینہ مدت تک کے لئے مؤخر کردیں گے۔ ظلم کا شکار ہونے والے بدستور حفاظت اور انصاف کو ترستے رہیں گے اور ظالم بھی دندناتے پھرتے رہیں گے۔

تاہم اس معاملہ میں چیف جسٹس کے بعد از وقت سو موٹو اور قاتلوں کی نشاندہی کرنے میں ناکامی سے بھی زیادہ تشویش کی بات یہ ہے اس وقت عام شہری ریاست کی نمائندہ حکومت کے وزیروں پر اعتبار کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ بلکہ وہ براہ راست آرمی چیف سے ضمانت مانگتے ہیں۔ ان لوگوں کی مجبوری اور بے بسی کے پیش نظر یہ سمجھا جا سکتا ہے کہ وہ کیوں فوج سے ہی انصاف اور تحفظ کی یقین دہانی چاہتے ہیں۔ لیکن فوج کے سربراہ کو اس بات کا جواب دینا چاہئے کہ کیا وجہ ہے کہ ملک میں بدامنی اور ظلم کا شکار ہونے والے سارے مظلوم طبقات صرف آرمی چیف کو ہی ہر مسئلہ کا حل سمجھتے ہیں۔ انہیں ملک کی منتخب قانونی حکومت کے وعدوں اور یقین دہانی پر کوئی اعتبار نہیں ہے۔ وزیر داخلہ جب وفاقی حکومت کے نمائیندے بن کر ہڑتالیوں سے ملے تو ان کی بات ماننے سے انکار کردیا گیا۔ لیکن چند گھنٹوں کے بعد جب وہ جنرل قمر جاوید باجوہ کے نمائیندے بن کر ہڑتالی کیمپ میں گئے تو انہیں ہڑتال ختم کروانے میں کوئی دقّت نہیں ہوئی۔ یہ صورت حال صرف ہزارہ لوگوں کے عدم تحفظ تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ اس ملک میں جس کسی کوبھی مشکل کا سامنا ہوتا ہے اور وہ کوئی مطالبہ لے کر میڈیا کے ذریعے اپنی آواز سامنے لا سکتا ہے تو اس کی یہی خواہش ہوتی ہے کہ فوج کے سربراہ ہی اس کا مسئلہ حل کرسکتے ہیں۔ جنرل قمر جاوید باجوہ نے ہزارہ کے وفد سے باتیں کرتے ہوئے ریاست کی ذمہ داری کی بات کی ہے لیکن کیا ریاست کی طاقت کی بات کرتے ہوئے پاک فوج کے سربراہ دراصل فوج کی قوت اور صلاحیت کی بات کررہے ہوتے ہیں۔ امید کی جانی چاہئے کہ ملک میں جمہوریت اور جمہوری اداروں کے تسلسل اور تحفظ کی بات کرنے والے آرمی چیف ہرگز فوج کو ریاست سمجھنے یا باور کروانے کی غلطی اور کوشش نہیں کررہے ہوں گے۔ لیکن ہزارہ کی ہڑتال ختم کروانے سے لے کر ماضی قریب میں رونما ہونے والے چند دیگر واقعات کی روشنی میں یہ دونوں اصطلاحات خلط ملط ہو رہی ہیں۔ ان کی وضاحت کرنے اور پارلیمنٹ کو ریاستی قوت کی علامت کے طور پر پیش کرنے اور تسلیم کروانے کے لئے کام کرنے کی ضرورت ہے۔

پاک فوج ملک کے دفاع کے لئے قائم کیا جانے والا ایک نہایت ضروری ادارہ ہے۔ لیکن اس کے ارکان کو تنخواہیں دینے اور اس کی کارکردگی کو بہتر بنانے کے لئے جنگی ساز و سامان خریدنے تک کے ا خراجات اس قوم کی آمدنی میں سے فراہم کئے جاتے ہیں ۔ حال ہی میں قومی اسمبلی میں جو نیا بجٹ پیش کیا گیا ہے اس میں فوجی اخرجات میں 20 فیصد کے لگ بھگ اضافہ کرکے 1100 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں۔ قومی بجٹ کی دیگر مدات میں سے بھی فوج کے اہلکاروں کی تنخواہوں ، مراعات یا پنشن وغیرہ کے اخراجات کے لئے اضافی رقوم فراہم کی جاتی ہیں ۔ اس طرح فوج پر اٹھنے والے مصارف اس رقم سے کہیں زیادہ ہوتے ہیں جو دفاع کی مد میں قومی بجٹ میں دکھائے جاتے ہیں۔ یہ تمام رقوم پاکستان کے اکیس کروڑ عوام کی جیبوں سے ادا ہوتی ہیں ۔ یہی عوام اپنے ووٹ کے ذریعے ان لوگوں کو منتخب کرتے ہیں جو قومی اسمبلی میں بیٹھ کر دفاعی بجٹ سمیت اہم مالی اور سیاسی فیصلے کرنے کے مجاز ہیں۔ اس طرح پارلیمنٹ عملی لحاظ سے بھی اور آئین کے تقاضوں کے مطابق بھی فیصلے کرنے کا سب سے بڑا اور واحد ادارہ ہے۔ اس ادارے کے سامنے کوئی بھی دوسرا قومی ادارہ اپنی ضروریات کے لئے درخواست تو دے سکتا ہے لیکن وہ پارلیمنٹ کو اپنی بات ماننے پر مجبور نہیں کرسکتا۔ اس طرح پارلیمنٹ ہی ریاست کا چہرہ اور اس کی طرف سے فیصلے کرنے کا جائز اور جمہوری فورم ہے۔ حکومت اکثریت کی نمائیندہ ہونے کے طور پر انتظامی معاملات طے کرنے اور اہم فیصلوں تک پہنچنے کی مجاز ہوتی ہے۔ پاکستان میں اس صورت حال کو اگر کتابی باتیں سمجھ لیا گیا ہے اور ریاست کے چھوٹے ادارے اگر خود ہی ریاست کو اہمیت دینے کی بجائے خود اپنے گمان میں ’ریاست‘ بن بیٹھے ہیں اور یہ تاثر اس قدر قوی ہو گیا ہے کہ عام شہری سے لے کر معاشرہ کے مختلف گروہوں تک ۔۔۔ سب ہی ریاستی طاقت کی بات کرتے ہوئے پارلیمنٹ کی بجائے فوج کو اس طاقت کا مرکز سمجھتے ہیں۔ تو یہ طریقہ کار غلط اور ناقابل قبول ہونا چاہئے۔

اس کج روی کو ختم کرنے کے لئے ملک کے سیاست دانوں کو بھی عقل کے ناخن لینے چاہئیں لیکن صرف سیاست دانوں کو مورد الزام ٹھہرا کر اس قومی خرابی کو دور نہیں کیا جا سکتا۔ طاقت کے دیگر مراکز پر بھی اس غلط فہمی کو دور کرنے کے لئے کام کرنے کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ ان اداروں میں سپریم کورٹ اور فوج کی قیادت سر فہرست ہے۔ ان دونوں کو پارلیمنٹ اور اس کی نمائندہ حکومت کو مناسب احترام دینے کی روایت کو آگے بڑھانا چاہئے۔ یہ احترام دے کر ہی سپریم کورٹ اور فوج بھی خود اپنے لئے احترام کی توقع کرسکتے ہیں۔ لیکن اگر پارلیمنٹ کو بے توقیر کرکے ریاست پر غیر متعلقہ اداروں کی ’اجارہ داری ‘ کی روایت کو فروغ دیا جائے گا تو یہ نہ آئین کی پاسداری ہوگی اور نہ ہی جمہوریت پر یقین کا اظہار ہوگا۔ اس صورت میں ریاستی انتظام کے ایک زیلی ادارے فوج کا سربراہ طاقت کا محور قرار پائے گا اور حکومت اور پارلیمنٹ کا نمائیندہ وزیر داخلہ ہاتھ باندھے کسی اچھے بچے کی طرح ان کی باتوں پرسر ہلانے پر مجبور ہوگا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2764 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali