دوا ساز ادارے اور ڈرگ ری کال پر ایک نظر


گزشتہ دنوں میڈیا میں دواؤں سے متعلق چلنے والی خبروں اور سوشل میڈیا پر ان خبروں پر عالمانہ رائے کا اظہار کرتے عوام کے خیالات جان کر کافی افسوس ہوا۔ بنیادی طور پر ایک فارماسسٹ ہونے اور فارما انڈسٹری سے تقریباً ایک دہائی تک منسلک رہنے کی وجہ سے اس شعبے سے ایک خاص انسیت موجود ہے۔

مورخہ 7 اپریل 2018 کو روزنامہ ڈان اور اردو روزنامہ دنیا میں ایک بین الاقوامی دوا ساز ادارے کی جانب سے ایک توجہ دلاؤ نوٹس شائع کیا گیا جس میں مخاطب صرف ڈاکٹر اور فارماسسٹ ہی نہیں بلکہ مریض اور ان کے تیماردار بھی تھے۔ اس نوٹس میں دوا ساز ادارے کی جانب سے ایک سیرپ کی از خود احتیاطی واپسی (ری کال) کے احکامات دیے گئے اور اس بات پر بھی زور دیا گیا یہ ری کال مریض کی حفاظت اور اچھے اخلاقی طرز عمل کے طور پر کی جارہی ہے ایک اہم نکتہ یہ بھی بتایا گیا کہ یہ دوا کسی اور ادارے (تھرڈ پارٹی) نے بنائی ہے۔

اس ضمن میں یہ معلوم ہوا کہ یہ ری کال ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی کی خصوصی ہدایت پر کی گئی۔ یہ ایک ایسا امرتھا جو پاکستان کے اندر دوا ساز اداروں کے اچھے کردار اور ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی آف پاکستان کے اچھے کنٹرول کو ثابت کرتا ہے۔

چند روز بعد اس نوٹس کے متعلق ایک نوٹس روزنامہ ڈان میں مورخہ 12 اپریل 2018 کو شائع ہوا۔ جس میں ایک کمپنی (جس کو پہلے نوٹس میں تھرڈ پارٹی کہا گیا تھا) نے کہا کہ سیرپ کے تمام بیچز اس نے نہیں بلکہ جس دوا ساز ادارے نے ری کال دی ہے اُسی نے بنائے ہیں اور وہ بیچز دسمبر 2016 سے پہلے بنائے گئے تھے اور اس سے سیرپ سے مریض کو نہیں بلکہ دوا کی کوالٹی کو خطرہ ہے۔

دونوں نوٹس نیک نیتی پر مبنی تھے اور دوا بنانے اور ترسیل کے معیاری اصولوں پر مبنی ہیں۔ بات یہی ختم ہوجاتی تو ٹھیک تھا مگر اس بات کو لے کر میڈیا اور سوشل میڈیا پر اس اندازسے چرچا کیا گیا کہ جیسے پاکستان کے اندر جب بین الاقوامی دوا ساز ادارے اس طرح کی دوائیں بنارہے ہیں تو قومی اداروں میں دوا کی کوالٹی کا کیا معیار ہوگا۔ بہت سے صاحب علم طبقات بھی ہاتھ دھو کر دوا ساز اداروں کے پیچھے پڑگئے۔ دوسری جانب ایک صوبائی ڈرگ کنٹرول یونٹ کی جانب سے بھی کچھ دواؤں کی کوالٹی پر بات کی گئی اور پھر یہی مشاہدہ کیا گیا کہ سوشل میڈیا اور میڈیا پر موجود حضرات اس ضمن میں مفکرانہ اور عالمانہ رائے رکھتے ہیں۔ جو ان دوا ساز اداروں اور ریگولیٹرز کو بھی گمراہ کرتی نظر آئی۔ یہاں میں ایک بات زور دے کر بتانا چاہوں گا کہ دواؤں کی ری کال دوا سازی کے معیاری طریقہ کار (اسٹینڈرڈ پروسیجر) کا حصہ ہوتے ہیں جو یہ بتاتے ہیں کہ دوا سازی ترسیل کا نظام انتہائی کنٹرول ہے۔ امریکا جیسے ملک میں بھی ایک ادارے فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن کی جانب سے اس سال اب تک اٹھارہ ری کال کی جاچکی ہیں۔

میری میڈیا او رخصوصاً سوشل میڈیا استعمال کرنے والوں سے گزارش ہے کہ دواؤں کے بارے میں مرتب کردہ بین الاقوامی معیار کی پابندی کے طریقہ کار کو عام عوام کے لئے ایسا دہشت ناک نہ بنائیں جس سے عوام کا اپنے اداروں پر اعتماد متزلزل ہو۔ یاد رکھیں کہ دوا سازی کی صنعت پاکستان میں سب سے زیادہ پڑھے لکھے طبقے کو باعزت روزگار بھی فراہم کرنے کا ذریعہ ہے۔ اور اس طرح کے غیر ذمہ دارانہ عمل سے نقصان بہر صورت پاکستان کا ہوگا۔

ڈاکٹر طارق علی
ایسوسی ایٹ پروفیسر
فیکلٹی آف فارماسیوٹیکل سائنسز
ڈاؤ یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز کراچی


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).