فیمینزم والیو مرد کو بھی درد ہوتا ہے


ہر معاشرے نے جنس کی بنیاد پر تقسیم کی ہوئی ہے ایک مرد اور ایک عورت، اور اس کے پیچھے بیالوجیکل حقیقت موجود ہے جس کی کوئی نفی نہیں کر سکتا۔ لیکن کیا جنس کی بنیاد پر تقسیم اس بات کا لائنسس تصور کیا جائے گا کے ان میں سے کسی ایک کے ساتھ معاشرتی بنیادوں پربھی تقسیم کی جائے؟ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ عورتوں کی ہمیشہ حق تلفی کی گئی لیکن کیا خواتین کے حقوق کے بارے میں بات کرتے کرتے ہم نے مرد حضرات کی حق تلفی تو نہیں کردی؟ اس بات پر ذرا سوچنے کی ضرورت ہے۔ جب ہم مساوی حقوق کی بات کرتے ہیں تو ہمارے ذہن میں ہمیشہ خواتین کے حقوق کی بات آجاتی ہے لیکن اگر سوچا جائے تو کچھ جگہوں پر خواتین مرد حضرات کی حق تلفی کر جاتی ہیں۔ اگر مساوی حقوق کی بات کریں تو یہ مساوات ہمیں اس وقت سے ذہن میں رکھنی چاہیے جب بچپن سے ہی بچوں کو برابر مواقع دیے جاتے اس کی وجہ سے جنسی بنیادوں پر تفریق کا تصور ہی ختم ہوجاتا ہے۔

حالیہ وقت میں فیمینزم کی ایک لہر چل رہی ہے ہمارے ملک میں جہاں عورت راج کی بات کی جارہی، جہاں میرا جسم میری مرضی اور اپنا کھانا خود گرم کرو کی باتیں کی جا رہی ہیں لیکن ان کو شاید یہ بات معلوم نہیں ہے کہ مرد اس وقت بھی اپنا کھانا خود گرم کرتا ہے جب وہ اپنی عورت کو مساوی حقوق دیتے ہوئے نوکری کرنے کی اجازت دیتا ہے اور سارا دن کا تھکا ہارا گھر پہنچتا ہے اور گھر آتے ہی جب اسے شدید بھوک کا احساس ہوتا ہے تو وہ اپنا کھانا خود گرم کرتا ہے۔

ہمارے ذہنوں میں ایک بات پھنسی ہوئی ہے کہ مرد کو درد نہیں ہوتا یا مرد روتے نہیں، رونا ایک فطری عمل ہے اس کوبھی جنسی بنیادوں پر تقسیم کرنا اور ایک جنس کے ساتھ اس کو منصوب کردینا بھی زیادتی ہے۔ دیکھا جائے تو بہت سے مواقعوں پر مرد وں کو حق تلفی کا سامنا کرنا پڑتا ہے، عورتوں کو اگر گھر سے نکال دیا جائے تو بہت سی موم بتی مافیا اپنے اداروں کی چھت تلے ان کوسایہ دینے کے لئے پیش پیش ہوتی ہیں لیکن جب کسی مرد کو گھر سے نکال دیا جائے تو اس کو سخت ٹھٹھرتی سردی ہو یا گرمی بہت سی راتیں فٹ پاتھ پر گزارنی پڑتی ہیں اور یقین مانیں اس وقت مرد کو درد بھی ہوتا ہے اور مرد روتے بھی ہیں۔

ڈومیسٹک وائیلنس کی شکار عورتوں کو تو شلٹر مہیا کردیا جاتا ہے لیکن زیادتی کا شکار مرد در در کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہوتا ہے اور اس وقت بھی مرد کو درد ضرور ہوتا ہے۔ ہمارے معاشرے کی ایک سوچ ہے کہ مرد بہت مضبوط ہوتا ہے جس میں کوئی شک نہیں ہے لیکن رونا ایک احساس ہے جو کسی کی مضبوطی کو نہیں آزماتا، مضبوط انسان وہ نہیں ہے جو روتا نہیں ہے بلکہ میں نے کچھ ایسی خواتین کو بھی دیکھا ہے کہ جو رونے کے احساس سے عاری ہوتی ہے تو کیا ان کو بھی درد نہیں ہوتا؟ مضبوط انسان تو وہ ہے جو روتا تو ہے لیکن پھر اپنی کیفیت پر قابو پا کر ایک نئے عزم کے ساتھ اپنی پریشانیوں پر قابو پالیتا ہے اور مرد اس کام میں خواتین سے آگے ہیں شاید اسی لئے ہم یہ سوچتے ہیں کہ مرد کو درد نہیں ہوتا۔

مردوں کی مضبوطی کا اندازہ ان کی قوت برداشت سے لگایا جاتا ہے کہ اگر مرد مشکل سے مشکل حالات میں بھی روئے نہ تو مرد کہلایا جاتا ہے اور اگر رو لے تو اس کو طعنہ دیا جاتا ہے کہ عورتوں کی طرح آنسو مت بہاؤ تو کیا آنسو صرف عورتوں کی ملکیت ہے؟ مرد کو درد تب بھی ہوتا ہے جب اس کے بچے بھوکے ہوں اور اس کے پاس ان کو دینے کے لئے دو وقت کی روٹی نہ ہو، مرد کو درد تب بھی ہوتا ہے جب اس کی ماں، بہن، بیٹی کے ساتھ زیادتی ہو، مرد کو درد تب بھی ہوتا ہے جب اقبال خان کے بیٹے مشال خان کو بے دردری سے قتل کیا گیا ہو، مرد کو درد تب بھی ہوتا ہے جب وہ سات سمندر پار اپنے گھر سے دور ہوتا ہے اور اس کو گھر کے ماحول کی ضرورت ہوتی ہے لیکن وہ گھر کی ضروریات پوری کرنے کے لئے مجبوراً وہاں رہ رہا ہوتا ہے۔

بھوک کی فکر، چھت کی فکر، عزت کی فکر مرد کو یہ احساس دلاتی ہے کہ اس کندھوں پر ایک بہت بڑا بوجھ ہے جس کو اس نے بغیر روئے ساری زندگی اپنے کندھوں پر اٹھائے رکھنا ہے کیونکہ اگر وہ اس بوجھ کو اٹھانے سے انکاری ہوگیا تو عورتوں کے حقوق کے علمبردار اس کو بزد ل قرار دے کر عورت راج کی باتیں کرنا شروع کر دیں گی لیکن یقین مانئیے عورت کے اعصاب اس قدر مضبوط نہیں ہیں کہ وہ اس بوجھ کو ساری عمر اپنے کندھوں پر اٹھائے پھرتی رہے۔ عورت اگر نوکری کرتی ہے تو اس کو گھر کا خرچ چلانے کی فکر نہیں ہوتی بشرطیکہ کہ وہ اکیلی ہو، لیکن مرد کو اس بات کی فکر بھی رہتی ہے کہ اگر اس نے کام نہیں کیا تو اس کے گھر میں چولہا نہیں جلے گا اور یہی بات ہے کہ سارا دن وہ اپنی عزت نفس کو ایک کونے میں رکھ کر صرف یہ سوچتا ہے کہ اس نے اپنے خاندان کی ہر ضرورت پوری کرنی ہے اور اسی وجہ سے وہ زمانے بھر کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہوتا ہے اور یقین مانیے کہ لوگوں کی جلی کٹی سنتے ہوئے اس کا دل کرتا ہے کہ وہ چیخ چیخ کے روئے لیکن مرد کو درد نہیں ہوتا، مرد روتے نہیں کیونکہ مرد بزدل نہیں ہوتے۔

مرد اپنے سامنے کسی کا ایک لفظ اونچا برداشت نہیں کرتے مگر میں نے بیوی بچوں کی روزی روٹی کے لئے خاموشی سے گالیاں کھاتے دیکھا ہے۔ میں نے مرد کا ضبط بہت بار دیکھا ہے اس وقت بھی جب جوان بیٹی گھر اجڑنے پر واپس لوٹی تو اس نے اس کے غم کو چھپاتے ہوئے بیٹی کو سینے سے لگایا اور کہا کہ میں ابھی زندہ ہوں فکر نہ کرو لیکن اس کی کھنچتی ہوئی کنپٹیاں اور سرخ ہوتی ہوئی آنکھیں بتا رہی تھیں کہ ڈھیر تو وہ بھی ہوچکا ہے، رونا تو وہ بھی چاہتا ہے لیکن یہ جملہ کہ مرد کبھی روتا نہیں اسے رونے نہیں دیتا۔

بات رونے کی یا درد ہونے کی نہیں ہے بلکہ بات اس غلط سوچ کی ہے جو ہمارے معاشرے میں جنم لے رہی ہے، مغربی فیمینزم کو ہم غلط سمت میں لے کے جا رہے ہیں جہاں وہ مساوی حقوق کی بات کرتے ہیں تو ہم صرف عورت راج کی بات کرتے ہیں، جہاں وہ ہر جگہ چاہے وہ بینک کے سامنے لگی لمبی لائنیں ہوں یا بس میں بیٹھنے کی جگہ اس پر دونوں کا حق سمجھتے وہی ہم اپنا کھانا خود گرم کرو کے نعرے لگاتے ہیں۔ معاشرے میں دونوں کے درمیان ہم آہنگی اور مساوات کی فضا تب ہی قائم ہوگی جب ہم حقوق کو صرف ایک جنس سے منسوب نہ کرے بلکہ ہم اس سوچ کے ساتھ رہے کہ ہم سب انسان ہیں اور مرد اور عورت دونوں روتے ہے کیونکہ یہ ایک قدرتی عمل ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).