لاپتا افراد زندہ ہیں یا مُردہ؟


سوات میں طالبانائزیشن کے دوران ہزاروں کی تعداد میں لوگوں کو گرفتار کیا گیا یا انہیں جبری گمشدگی کا شکار بنادیا گیا۔ان میں بچے، جوان اور بوڑھے تک شامل ہیں۔اگرچہ ان میں سے کچھ لوگوں کو رہا کیا گیا ہے لیکن ان میں سے سیکڑوں لوگوں کو نا معلوم بیماری کی آڑ میں زندگیوں سے محروم کرکے ان کی نعشیں لواحقین کے حوالے کردی گئی ہیں۔دوسری جانب ایسے سیکڑوں لوگ بھی تھے جنہیں سیکیورٹی فورسز نے گرفتار کیا لیکن ان لوگوں کا اس کے بعد کوئی اتا پتہ نہیں چلا کہ یہ لوگ کہاں گئے؟ انہیں زمین کھا گئی یا آسمان نگل گیا۔ لواحقین در در کی ٹھوکریں کھانے کے باوجود اس نتیجے پر نہیں پہنچ سکے کہ ان کے پیارے کس حال میں ہیں اور یہ کہ وہ زندہ بھی ہیں یا مر گئے ہیں یا مار دئیے گئے ہیں۔ اگرچہ سوات کے تقریبا ً ہر گاؤں سے سیکڑوں کی تعداد میں لوگوں کو جبری گم شدگی کا شکار بنا دیا گیا ہیلیکن ان میں گاؤں کوزہ بانڈئی کے نوجوانوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔ اگرچہ ان تمام لوگوں کو اس کالم کا حصہ بنانا مشکل ہے لیکن ایک نوجوان ارشد علی ولد گل شیرین کی کہانی اس امید پر قلم بند کر رہا ہوں، شاید ارشد علی اور ان کے گھر والوں کے ساتھ انصاف کیا جائے گا۔ ارشد کی کہانی ایسی دکھ بھری ہے جو دردِ دل رکھنے والوں کو خوں کے آنسو رلا دینے کے لئے کافی ہے۔

ارشد کو غائب ہوئے دس سال مکمل ہونے کو ہیں۔ دس سال قبل ارشد کی شادی ہوئی تھی اور اللہ نے اسے پھول جیسی بیٹی سے نوازا تھا ۔ ارشد کی عمر اس وقت بمشکل بیس سال تھی جب سیکیورٹی فورسز نے اسے گھر سے اٹھا لیا تھا لیکن وہ دن اور آج کا دن خاندان والے پاگلوں کی طرح ہر در اور ہر اس دفتر کے چکر لگا چکے ہیں جہاں سے ان کو انصاف ملنے کی توقع تھی لیکن ان چکروں میں دس سال کا طویل عرصہ بیت گیا اورکسی کو معلوم نہیں ہوسکا کہ ارشد کہاں اور کس حال میں ہے۔ ارشد کے والدین تھک ہار کر ہمت ہار چکے ہیں اور اس کی ماں تو ارشد کی تصویر لئے دن رات روتی رہتی ہے اور اب تو وہ بس ایک زندہ لاش لگتی ہے۔ ارشد کی بیوی کا حال صرف اللہ جانتا ہے جبکہ بیٹی جس نے ابھی تک باپ کو نہیں دیکھا ہے، ہر کسی سے پوچھتی پھرتی ہے کہ میرے ابو کہاں ہیں؟ اس ننھی اور معصوم بچی کا یہ سوال دل کو چھلنی کر کے رکھ دیتا ہے۔ اگرچہ ارشد کے غائب ہونے کا سانحہ اپنی جگہ لیکن اب ارشد کے والدین ارشد کی بیوی کی ڈھلتی جوانی کی وجہ سے ایک دہرے عذاب سے دوچار ہیں اور ان کو یہ غم کھائے جارہا ہے کہ دس سال سے گھر میں حسرت و یاس کی تصویر بنی ارشد کی بیوی کا کیا کیا جائے۔ خاندان والے اس بات پر متفق ہوچکے ہیں کہ ارشد کی بیوی کی دوسری شادی کرائی جائے لیکن خاندان والے اس شش و پنج میں بھی مبتلا ہیں کہ اگر ارشد کی بیوی کی دوسری شادی کرادی جاتی ہے اور پھر ارشد واپس آجاتا ہے تو پھر کیا ہوگا؟ کیونکہ سیکیورٹی فورسز نے ابھی تک خاندان والوں کو یہ تک نہیں بتایا ہے کہ ارشد زندہ ہے یا اس کا کسی ’’نامعلوم بیماری‘‘ کی وجہ سے انتقال ہوچکا ہے۔ ارشد کے گھر والوں نے سپریم کورٹ میں بھی کیس دائر کیا ہوا ہے لیکن ابھی تک کوئی شنوائی نہیں ہوسکی ہے۔ ارشد کے گھر والے تھک کر ہمت ہار چکے ہیں اور اب تو وہ سیکیورٹی فورسز سے بس یہ پوچھنا چاہتے ہیں کہ ان کو اتنا بتادیا جائے کہ ان کا ارشد زندہ ہے یا وہ اس دنیا میں نہیں رہا ہے۔ وہ تو اتنا تک کہتے ہیں کہ اگر ارشد اس دنیا سے کوچ کر گیا ہے تو والدین کو بتادیا جائے تاکہ وہ صبر کر سکیں۔ وہ سیکیورٹی فورسز سے قبر کے بارے میں بھی پوچھنے کی جسارت نہیں کرینگے اوروہ ارشد کو اپنے دلوں میں ہی دفن کردینگے ۔ اس کا فائدہ یہ ہوگا کہ وہ اس کی بیوی کی شادی کسی اور سے کرسکنے کے قابل ہوسکیں گے۔

ارشد علی کی طرح ایسے سیکڑوں گھرانے ہیں جن کے بچے غائب کر دیے گئے ہیں۔ بہت سارے والدین تو بچوں کی راہیں تکتے تکتے یا تو اندھے ہو چکے ہیں اور یا پیوند خاک ہوچکے ہیں ۔سیکیورٹی فورسز اور حکومت سے درخواست ہے کہ وہ گرفتار لوگوں کو انصاف فراہم کریں ۔ اگر ان میں سے کوئی مجرم ہے تو اس کو سزا دے اور اگر کسی کا جرم اس قدر ’’بھیانک ‘‘ہو کہ وہ پھانسی کا حقدار ہے تو اسے پھانسی پر لٹکا دیا جائے لیکن کم ازکم خاندن والوں کو ان گمشدہ لوگوں کی حقیقی صورت حال سے آگاہ کردیا جائے تاکہ وہ روز جینے اور مرنے سے نجات حاصل کرسکیں اور تاریک راہوں میں مرنے والے اپنے پیاروں کے لئے وہ کم سے دعا تو کرسکیں۔

وقت تیزی سے بدل رہا ہے۔ لوگوں میں شعور اور آگہی آ رہی ہے۔ سکیورٹی اداروں اور حکومت کو ذمہ داری کا مطاہرہ کرنا چاہیے کیوں کہ منظور پشتین اور پختون تحفظ موومنٹ کی توانا آواز گم شدہ لوگوں کے اہل خانہ کے دل میں گھر کرتی جارہی ہے اور وہ اس صدا میں اپنے دکھوں کا مداوا ڈھونڈ رہے ہیں۔ ان کے مطالبات ان متاثرہ اور غم زدہ لوگوں کے مجروح دلوں پر مرہم کی پٹیاں بنتی جا رہی ہیں۔ اب وقت آگیا ہے کہ گمشدہ لوگوں کا مسئلہ حکمت اور تدبر سے حل کردیا جائے۔ عام لوگوں کو منظور پشتین سے کوئی لینا دینا نہیں لیکن منظور کے دلوں کو چھو لینے والے مطالبوں سے لوگوں میں ایک ایسی تحریک پیدا ہوسکتی ہے جس سے ریاست کے لئے خطرات پیدا ہوسکتے ہیں۔اس لئے اس کا آسان اور عام فہم حل یہ ہے کہ جبری طور پر غائب کئے جانے والے لوگوں کو عدالتوں میں فی الفور پیش کیا جائے، جو بیمار ہیں یا جن پر بے پناہ تشدد کیا گیا ہے، ان کا انسانی ہمدردی کی بنیاد پر علاج معالجہ کیا جائے اور متاثرہ خاندانوں کو اپنے پیاروں سے ملاقات کرنے کی اجازت دی جائے کیوں کہ دنیا میں کہیں بھی ایسا نہیں ہوتا کہ ملزم یا مجرم کو اس کے رشتہ داروں سے ملاقات نہیں کرنے دیاجائے۔ اس کے علاوہ جیلوں اور اذیت خانوں میں جتنی بھی ماورائے عدالت اموات ہوئی ہیں، ان کی اعلیٰ سطح پر تحقیقات کی جائیں کیوں کہ ہم کسی جنگل کے باسی نہیں ہیں اور نہ ہی ہمارا معاشرہ قرون وسطیٰ کا ہے۔ محض شک کی بنیاد پر کسی کو مجرم ٹھہرا کر اسے بنیادی انسانی حقوق سے محروم رکھنا کسی مہذب معاشرے کا شیوہ نہیں ہے۔

ارشد جیسے کتنے نوجوان ہیں جن کی شادیاں ہوئی ہیں، جن کے چھوٹے چھوٹے بچے باپ کی شفقت کے بغیر جوان ہو رہے ہیں، اور وہ روز اپنے ماؤں سے پوچھتے رہتے ہیں کہ ہمارا بابا کہاں ہیں؟ اور مائیں بے چاری بے بسی کی تصویر بنیں اس کا جواب محض بہتے ہوئے آنسوؤں کی صورت میں ہی دیتی ہیں۔ اگر ریاست ماں کی سی ہے تو اس کے سینے میں ماں جیسا دل بھی ہونا چاہئے۔ ماں اپنے بچوں کی لغزشوں، کوتاہیوں اور غلطیوں کو معاف کردیا کرتی ہے۔ ریاست کو بھی ماں جیسا کردار ادا کرکے ایسا ہی کرنا چاہئے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).