ایک مزدور باپ کا اپنے بچے سے مکالمہ


ابا تم آج کام پر کیوں نہیں گئے؟ مجھے بہت زور کی بھوک لگی ہے، مجھے فوراً کھانا چاہیے، اماں نے کہا ہے کہ گھر پر کھانے کے لیے کچھ نہیں ہے۔

بیٹا آج یکم مئی ہے اور اس دن تمام دفاتر اور مارکیٹیں بند ہوتی ہیں میں آج مزدوری کے لیے کہاں جاتا۔

ابا بہانے نہ بناؤ باہر پنکچر کی دُکان کھلی ہوئی ہے اور میں خود ابھی سائیکل کو پنکچر لگوا کر آیا ہوں اور میرا دوست جو اینٹوں کے بھٹے پر کام کرتا ہے اُسے بھی آج چھٹی نہیں ہے۔

بیٹا میرے ساتھ بحث نہ کرو آج پورے ملک میں سرکاری طور پر چھٹی ہے۔

کیوں ابا ا س دن ایسی کون سی خاص بات ہو گئی جو لوگ کام پر نہیں جاتے؟

بیٹا میں زیادہ تو نہیں جانتا لیکن سنا ہے کہ کافی عرصہ پہلے دُنیا کے کسی علاقے میں چند مزدوروں کا قتل ہو گیا تھا جن کی یاد میں پوری دُنیا میں یہ دن منانے کے لیے آج کے دن تعطیل ہوتی ہے۔

لیکن ابّا اس میں ہمارا کیا قصور ہے ہم نے تو اُن کو قتل نہیں کیا تھا نا۔ ابا تم اگر کام پر نہ گئے تو ہم اپنے پیٹ کی آگ کیسے بجھائیں گے اور آج تو اماں کی دوا بھی ختم ہے، اگر آپ دوا نہ لائے تو آپ کو پتہ ہے کہ اماں کی طبیعت مزید خراب ہو جائے گی۔ آپ نے آج کے ناغہ کے لیے پہلے سے اضافی کام کیوں نہیں کیا؟

بیٹا پہلے میں ایسی صورتحال سے نبٹنے کے لیے اوورٹائم مزدوری کر لیتا تھا لیکن اب میری کمر میں درد ہوتا ہے اور میں زیادہ دیر وزنی کام نہیں کر سکتا۔

 ابّا پھرتم نے ہمیں پیدا ہی کیوں کیا جب تم باقی ضروریات زندگی تو ایک طرف، ہمارے کھانے کی بنیادی ذمہ داری بھی صحیح طرح نہیں نبھا سکتے۔ بہرحال اب نظامی صاحب کے گھر جاؤ وہ ضرور ایسے مواقع پر کچھ نہ کچھ پکا کر بانٹتے ہیں۔

بیٹا تمہارے یاد کرانے سے پہلے میں وہاں سے ہو کر آیا ہوں۔ اُن کے ڈرائیور نے بتایا ہے کہ نظامی صاحب صرف خاص مذہبی ایام (محرم، عیدمیلاد النبیؐ وغیرہ) پر ہی نیاز بانٹتے ہیں۔ آج اُن کے گھردوست و احباب کی باربی کیو پارٹی ہے، اس لیے انہوں نے کیمرے میں مجھے دیکھ کر ملنے سے بھی انکار کر دیا تھا۔

ابا تم نے اُن کے ڈرائیور سے کہنا تھا کہ وہ چند بچی کچھی بوٹیاں ہی چھپا کر دے دیتا۔ باربی کیو کا سُن کر بھوک چمک اٹھتی ہے۔ میری تو باربی کیو کی وجہ سے دل کی دھڑکن بھی بہت تیز ہو گئی ہے۔ چلیں کوئی بات نہیں آپ درانی صاحب کے گھر سے پتہ کر لیں وہ بھی ایسے مواقع پر بریانی کی دیگ پکا کر بانٹتے ہیں۔

بیٹا واپسی پر اُدھر سے بھی ہو آیا ہوں وہ اپنے بچوں کے ساتھ عمرہ پر چلے گئے ہیں اور اب رمضان کے بعد ہی واپس لوٹیں گے۔

ابا پھر آپ ایسا کریں ساتھ والے محلّے میں رہنے والی آنٹی زبیدہ کے گھر سے کوئی بچا ہوا کھانا لے آئیں کیوں کہ میری بھوک بڑھتی جا رہی ہے۔

بیٹا میں اب وہیں سے آ رہا ہوں ان کے گیٹ کے اندر اُن کا پالتو کتا گوشت اور ہڈیاں کھا رہا تھا۔ چوکیدار نے بتایا کہ وہ آج بیوٹی پارلر سے تیار ہو کر ایک بڑے ہوٹل چلی گئی ہیں، جہاں اُنہوں نے مزدوروں کے حقوق کے لیے آواز بلند کرنی ہے۔ اب وہاں سے کھانا کھا کر ہی اُن کی واپسی ہوگی۔

ابا پھر ہم سے اچھا تو آنٹی کا کتا ہی ہے جس کو ہماری قومی تعطیل پر بھی کھانا نصیب ہے۔

اچھا ابا آج ہماری ریاست نے ہمارے اس مخصوص دن کے لیے کوئی دیگیں ویگیں نہیں پکائیں؟

نہیں بیٹا آج کیوں کہ قومی تعطیل ہے جس کی وجہ سے حکومت کو اربوں کا نقصان برداشت کرنا پڑتا ہے، ایسے میں بھلا وہ ہم غریبوں کو مفت کھانا دے کر اپنے قومی خزانے کو مزید نقصان تو نہیں پہنچاسکتی۔

چلو ابا سب کو چھوڑو ہم خود کسی ایسے دستر خوان پہ چلے جاتے ہیں جو امراء نے ہمارے جیسے مفلسوں کی پیٹ کی آگ کو بجھانے (یا اپنے ضمیر کے طعنوں کو کم کرنے کے لیے) کھول رکھے ہیں۔

لیکن بیٹا تم آج وہاں سے بھی کھانا نہیں کھا سکتے کیوں کہ وہاں اتنا رش ہے کہ تمہاری باری آنے تک سب کچھ ختم ہو جائے گا۔

تنگ آ کر بچے نے سوال بدلا کہ ابا ہم غریب کیوں ہیں؟

بیٹا کیونکہ کہ تم ایک مفلس کے گھر پیدا ہوئے ہو اس لیے تم غریب ہو۔ میرے پاس تمہیں تعلیم دلوانے کے لیے بھی وسائل نہیں ہیں اور میری مفلسی کی وجہ یہ ہے کہ میں بھی ایک غریب کی ہی اولاد ہوں یعنی نسل در نسل ہمارا یہ معاملہ ایسے ہی چلتا آ رہا ہے۔

ابا تو کیا ہمارا یہ سلسلہ ایسے ہی چلتا رہے گا یا کبھی ختم بھی ہو پائے گا؟ ہم کبھی اچھے دن نہیں دیکھیں گے؟

بیٹا تم نے مجھے کن باتوں میں الجھا دیا، میں نے تمہیں یہ خوشخبری دینی تھی کہ کل شب برات ہے اور تمہیں ہر طرف سے ڈھیروں ڈھیر کھانا آئے گا، تم چاہے جتنا مرضی کھا لینا۔

بیٹا یہ سن کر اپنی بھوک کو بھول گیا اور خوشی سے ناچنے لگا اور پھر کہنے لگا کہ ابا وہ چودھری جنرل سٹور والے سے آج ہی بات کر لو کہ کل کچھ بچا ہوا کھانا اُس کے فریزیر میں رکھوائیں گے یہ نہ ہو کہ کل وہ ہمیں انکار کر دے اور ہمارا کھانا ضائع ہو جائے۔

ٹھیک ہے بیٹا میں ابھی اس سے بات کر کے آتا ہوں تم فوراً اندر جا کر اماں کو یہ خوشخبری سناؤ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).