کیسے مناؤں پیا


\"zeffer05\"

نجی اسکول ہی کیا، سرکاری اسکولوں کا بھی ایک سا احوال ہے۔ امسال بچوں کی تعلیمی امتحان میں کام یابی کی مسکراہٹ ابھی چہرے سے اتری نہ تھی، کہ کتابوں کاپیوں کی قیمتیں دیکھ کر اڑن چھو ہو گئی۔ فورا یاد آیا کہ بیوی کو گزشتہ ماہ سمجھایا بھی تھا، گھر کے اخراجات محتاط رہ کر کرے، کیوں کہ اس مہینے بچوں کے یونیفارم، اسکول شوز، بستے، کاپیاں کتابیں خریدنے کا اضافی خرچ ہوگا، لیکن یہ عورت ذات سمجھتی کہاں ہے۔ میں دہاڑا، تو وہ چلائی۔ ’بتایئے تو کیا فالتو خرچ کیا ہے، میں نے۔۔۔‘

تھوڑی دیر تو تکار جاری رہی۔ بات چیت بند ہوگئی۔ بڑی بیٹی نے ایک کاغذ لا کر تھمایا، کہ اماں نے دیا ہے۔ پہلے تو میں ڈر گیا، کہیں طلاق کا کاغذ نہ ہو۔ دیکھا تو پچھلے ماہ کے خرچ کا حساب تھا۔ بہت جوڑ توڑ کی پر سمجھ نہ سکا کہ کس مد میں غلط خرچ ہوا ہے۔ فورا غلطی مان لینا کوئی مردانگی نہیں ہے۔ مسئلہ اپنی جگہ پہ تھا۔ پہلے تو سوچا بچوں کو اسکول سے اٹھا لوں، کہ اس نظام تعلیم میں رکھا ہی کیا ہے۔ پھر اس انقلابی فکر کو التوا میں ڈال دیا۔ بیوی سے صلح کرتے بنی۔

ایک دوست جو نجی اسکول چلاتے ہیں، انھوں نے رعایتی نرخوں پر دو پبلشرز کی نصابی کتب بھجوا دیں۔ باقی سامان لینے کے لیے بیوی بچوں کو لے کر اسٹیشنری شاپ گیا۔ ہر کتاب کی قیمت بڑھی ہوئی تھی، جب کہ دکان دار کہنے کو دس فی صد رعایت کر رہا تھا۔ اسکول کی نازک اندام کاپیاں پچھتر رپے میں فروخت کی جارہی تھیں۔ اتنے داموں میں اس سے بہ تر نوٹ بک لی جا سکتی تھی، لیکن رکاوٹ یہ تھی، کہ اس کاپی پر اسکول کا نام نہیں پرنٹ ہوتا۔ یہ سراسر اسکولوں کی غنڈا گردی ہے۔ اسی طرح ناقص مٹیرئیل سے بنے اسکول بیگ پندرہ سو سے دو ہزار رپے میں فروخت کیے جا رہے تھے۔ یہ بستے تین چار ماہ سے زیادہ نہیں نکالتے، اور داغ اجل دے جاتے ہیں۔ پرائس کنٹرول کمیٹی جیسے ادارے کہیں ہیں؟ اور ایسے کسی ادارے کے ملازمین کو تن خواہیں ملتی ہیں؟ سرکار ہو، یا حزب مخالف، انھیں ایسے سوالوں سے کوئی دل چسپی نہیں۔ میڈیا میں اٹھائے جانے والے مسائل کی تو رہنے ہی دیجیے۔ کیوں کہ جب تک ملک نازک دور سے گزر رہا ہے۔ عوام کو قربانی دیتے رہنا ہے۔

یونیفارم کی دکان تک جاتے جاتے میں سوچ رہا تھا، کہ کچن چلانے کے لیے کس سے ادھار لیا جائے۔ پیش بندی کے طور پہ ایک دوست کو کال کی، ’ہاں جانی! سنا کیسا ہے؟ فٹ ہے؟ نا؟۔۔۔ اور سنا کام کیسا چل رہا ہے؟ جانی نے چھوٹتے ہی جواب دیا، ’بچی کا یونیفارم لینے آیا ہوں۔۔ یار تیرے پاس کچھ بچت ہے، اگلے مہینے واپس لے لیجیو؟‘۔۔۔ میں نے ’ویری گڈ‘ کہا، اور کال منقطع کر دی۔ اسی دوران بیوی دکان دار سے شکوہ کر رہی تھی کہ یونیفارم بناتے بہت گھٹیا کپڑا استعمال کیا گیا ہے۔ دکان دار کے پاس وہی گھسا پٹا جواب تھا، ’ہم تو بنا بنایا لے کر آتے ہیں۔ یہی دست یاب ہے۔‘

پینسل، ربڑ، شارپنر، کاپیوں کے کور وغیرہ پورا کرتے جیب خالی ہو گئی۔ ایسے میں سب سے چھوٹی بیٹی نے لنچ باکس اٹھا لیا، کہ مجھے یہ لے کر دیں۔ لہجے میں حلاوت انڈیلتے، اسے سمجھایا کہ پرانے لنچ باکس پہ اکتفا کرے۔ وہ ’پسر‘ گئی۔ میں نے پسروی حق کا استعمال کرتے صرف ایک تھپڑ جڑا۔ اسے آپ تشدد نہیں کہ سکتے، میں چاہتا تو دو یا تین چار ہاتھ لگا دیتا، تو آپ کا اعتراض درست مانا جاتا۔ گھر جاتے بیوی نے آہستہ سے کہا، ’بس ان کے اسکول شوز لینا رہ گئے ہیں۔‘ میں نے کار کو بہ مشکل کھمبے سے ٹکرانے سے بچایا۔ ’کچھ تو حیا کرو۔۔ کتنی بار کہا ہے، جب میں گاڑی ڈرائیو کر رہا ہوتا ہوں، مجھے شاک پہنچانے والی باتیں مت کیا کرو!‘۔ جوابا وہ بھی چلائی، ’میں نے ایسا کیا کہ دیا ہے؟‘۔۔ گھر میں داخل ہونے سے پہلے پہلے ہم پھر سے روٹھ چکے تھے۔

ظفر عمران

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ظفر عمران

ظفر عمران کو فنون لطیفہ سے شغف ہے۔ خطاطی، فوٹو گرافی، ظروف سازی، زرگری کرتے ٹیلی ویژن پروگرام پروڈکشن میں پڑاؤ ڈالا۔ ٹیلی ویژن کے لیے لکھتے ہیں۔ ہدایت کار ہیں پروڈیوسر ہیں۔ کچھ عرصہ نیوز چینل پر پروگرام پروڈیوسر کے طور پہ کام کیا لیکن مزاج سے لگا نہیں کھایا، تو انٹرٹینمنٹ میں واپسی ہوئی۔ آج کل اسکرین پلے رائٹنگ اور پروگرام پروڈکشن کی (آن لائن اسکول) تربیت دیتے ہیں۔ کہتے ہیں، سب کاموں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا پڑا تو قلم سے رشتہ جوڑے رکھوں گا۔

zeffer-imran has 323 posts and counting.See all posts by zeffer-imran

Subscribe
Notify of
guest
3 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments