محبت کے رہنما اصول


یہ ایک ایسا موضوع ہے جس کا احاطہ عقل کے بس کا کام نہیں اور نا ہی یہاں عقل کی چال کام آتی ہے۔ محبت سچ میں ایسا نغمہ ہے جو ہر ساز پر گایا نہیں جاسکتا اور اس کے رہنما اصول کی سو فی صد کوئی گائیڈ یا تربیتی کتابچہ بھی تحریر نہیں کیا جاسکتا مگر اس تحریر میں یہ کوشش ضرور ہے کہ محبت کا موجودہ تصور جس کا اظہار ممکنہ طور پر جسمانی اور جنسی کشش سے ہی کیا جاتا ہے اس میں اور محبت کی حقیقیت میں موجود فرق کو بیان کیا جائے۔

یہاں میرا مقصد دو انسانوں کے درمیان جسمانی کشش کو برا جذبہ کہنا نہیں مگر یہ جو کچھ بھی ہے محبت نہیں ہے۔ آج محبت کے اس تصور پر بات کرنا ہے جو محبت کے کھرے اور کھوٹے کی تمیز میں مدد دے۔

جی بالکل، ادب پہلا قرینہ ہے محبت کے قرینوں میں۔ جہاں رشتوں میں باہمی ادب، احترام، لحاظ، عزت اور احساس ختم ہوجائے وہاں محبت کا وجود ممکن ہی نہیں۔ محبوب کا غلط بھی ٹھیک لگنا واقعی محبت کی تعریف ہوتی تو اللہ کبھی اپنے محبوب کو اسوہ حسنہ کامل نا عطا کرتا بلکہ ان میں بھی (نعوذباللہ) کوئی کمی رکھ کر اس کمی کی تعریف کرتا۔ انہیں اسوہ حسنہ کامل بنایا ہی اس لئے گیا کہ جب محبوب کی بات ہو تو ادب و احترام سے ہو۔ کوئی بیان کرے تو خوبی ہی بیان کرے اور دشمن بھی معترف ہوں یعنی عاشق وہ جو معشوق کی اور اپنی نسبت کو مثال بنا دے، وبال نہ بنائے۔

دوسرا سنہری اصول، اصل محبت، یہاں عشقِ حقیقی کی بات نہیں کی جارہی بلکہ محبت کی پہچان پر بات ہورہی ہے۔ اصل محبت وہ ہے جو آپ میں مثبت قوت کو جنم دے۔ آپ کے ارادے اور وعدے میں مضبوطی پیدا کرے، آپ کو لڑکھڑانے پر سہارا دے اور ڈوبنے پر کنارا دے۔ صرف آپ کی آنکھوں کی تعریف نہ کی جائے بلکہ آپ کی سوچ کو بھی پڑھا جائے۔ آپ کو اپنے سانچے میں ڈھالنے کی بجائے آپ کی شخصیت کے مثبت پہلوؤں کو اجاگر کرنے میں آپ کا ساتھ دیا جائے۔ آپ کو ماتحت بننے کے لئے تیار کرنے کی بجائے آپ میں چھپے ہوئے مضبوط شخص کو سامنے لانے میں آپ کی حوصلہ افزائی کرے، باقی مزاج کی کمی بیشی دور کرنا دونوں فریقین کی برابر کی ذمہ داری ہے۔

یاد رکھئے محبت تقاضا نہیں کرتی، ایسی محبت جو آپ میں موجود توانائی اور قوت ختم کرے اور آپ کو کسی بھی لحاظ سے کمتری کا احساس دلائے تو وہ محبت نہیں۔ وہ محبت نہیں جو آپ میں مثبت سوچ کو ختم کرکے حسد اور ہوس جیسے جذبوں کو ابھارے۔ ایسے کسی جذبے کو محبت کے ساتھ منسلک مت کیجئے گا۔

محبت کا دوسرا نام تحفظ ہے۔ آپ کو کسی بھی مرحلے پر یہ لگے کہ آپ کو پنجرے میں قید کیا جارہا ہے یا آپ کو یہ محسوس ہو کہ دوسرے کو پنجرے میں قید کرنے کی ضرورت ہے تو یہ سمجھ لیجیے کہ یہاں محبت نام کی چیز نہیں پائی جاتی۔ محبت کبھی دوری نہیں سکھاتی۔ کبھی عدم تحفظ کا احساس نہیں دلاتی۔ محبت حاصل کرنے کے جنجال میں نہیں الجھاتی، محبت بانٹنے کا نام ہے۔ اس میں نا صرف دو افراد کے درمیان عزت و احترام کا رشتہ قائم ہوتا ہے بلکہ یہ دونوں فریقین سے منسلک افراد اور اشیاء کی قدرومنزلت اور پرواہ کا نام ہے۔ جس محبت میں آپ سب کچھ تیاگ کر ایک دوسرے کو پیارے ہوجائیں وہ محبت نہیں باہمی ہوس اور کشش ہے جس کی مدت سالوں بھی ہوسکتی ہے۔

محبت جنون نہیں سکون کا نام ہے جو رشتہ آپ کو باہمی سکون کی منزل تک نہیں پہنچاتا اسے کبھی محبت مت سمجھیں۔ کیونکہ محبت چھیننے کا نہیں عطا کرنے کا نام ہے۔ آپ کے آپسی تعلقات بظاہر بہت اچھے بھی ہیں مگر اس رشتہ یا تعلق کی وجہ سے آپ کا سکون زائل ہورہا ہے، آپ کا اعتماد لڑکھڑا رہا ہے یا کسی رشتے کی آپ کو ضرورت سے زیادہ قیمت دینی پڑرہی ہے تو ایسے رشتے کو ہمیشہ کے لئے الوداع کہنے میں کوئی حرج نہیں۔ کیوں کہ محبت آپ کو ناصرف جڑ کے رہنے کا جذبہ دیتی ہے بلکہ جوڑے رکھنے کی قوت بھی عطا کرتی ہے۔

کہتے ہیں کہ دریا میں اتر کر گہرائی معلوم ہوتی ہے۔ اس طرح محبت کے دریا میں داخل ہونے کے بعد بھی اگر آپ کو ماں باپ، بہن بھائی اور دیگر رشتوں کی محبت کا احساس نہیں ہوتا اور وہ سارے آپ کو اپنی محبت کے دشمن لگتے ہیں تو جان لیں کہ ایسی محبت آپ کی بہت بڑی دشمن ہے اور ایسی محبت کرکے آپ مجبت کی اپنی نسلوں سے دشمنی پیدا کررہے ہیں۔ یہ تھے محبت کے رہنما اصول، جنہیں یہ باتیں ایک بھاشن لگیں تو مجھے یہ اعتراف کرنے میں کوئی اعتراض نہیں کہ یہ میرے ذاتی تجربے کا نچوڑ ہے اور یہ کوئی جگ بیتی نہیں ہڈ بیتی ہے۔

محبت کی آج تک کی بہترین تعریف جو میں نے سنی یا پڑھی ہے وہ یہ ہے کہ ”محبت ایک عزم ہے“۔ جی ہاں! اور اسے نبھانا بھی پرعزم لوگوں کا کام ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).