سیاست اور پاگل پن


\"junaid-uddin\"

سیاست ایسا بازار ہے جس کے اندر اگر ایک کھوکھا بھی لگ جائے تو کم از کم ایک نسل کی پرورش آسانی سے کی جا سکتی ہے اور پھر یه اس نسل په منحصر هے که اس کھوکھے کو شاپنگ مال میں کس طرح تبدیل کرناہے۔

بین الا قوامی اور امتحانی نقطه نظر سے یه بھلے غلط سہی لیکن ارض پاکستان میں اس سے یہی مراد لی جاتی ہے۔ تاریخی جائزه لیا جائے تو سیاست ہر گز ایسی نه تھی جیسی رائےاس کے بارے میں آج قائم کی جا چکی ہے۔ مثلاً قدیم مصر میں بادشاه کو خدا کا انسانی روپ سمجھا جاتا تھا، یونان میں دیوتاؤں کا بیٹا اور ایران میں خدا کا دوست بادشاہت کا منصب سنبھالتا تھا۔ یعنی عنقا (ایک خیالی پرنده) جس کے کندهے پر بیٹھتا اسے بادشاه بنا دیا جاتا۔

حضرت موسی نے سب سے پہلے اس کا خاتمه کیا اور پھر حضرت داؤد کو یہودیوں کےایک گروه نے انکی عقلی، علمی اور جسمانی خوبیوں کی بدولت بنی اسرائیل کی بادشاهی کا تاجور تسلیم کیا، اس طرح ایک جمہوری سیاسی نظام کا آغاز ہوا اور آخر میں حضرت محمد صل الله علیه وسلم نے پہلی فلاحی ریاست قائم کی، اگرچه یونان کی اسمبلی کو پہلی جمہوری اسمبلی کہا جاتا یے لیکن کسی بھی ریاست کے سربراه کے چناؤ کے لیے پہلا ڈیموکریٹک الیکٹورل کالج تیسرے اسلامی خلیفه راشد کے الیکشن کے دوران بنا جس کے الیکشن کمشنر عبدالرحمان بن عوف مقرر ہوئے (مدیر: کیا رومی سینیٹ ایک الیکٹورل کالج نہیں تھی؟)۔

ابتدائے انسانی سماجی و سیاسی شعور سے لیکر آج تک بے شمار تہذیبیں اور ریاستیں وجود میں آئیں اور انکو قائم رکهنے کے لئے ان سے بهی زیاده سیاسی نظام وضع کیے گئے لیکن کبهی سیاست کو اسقدر بدنام و رسوا نہیں کیا گیا جیسا آج پاکستان میں ہو رها هے۔

گو که یہاں سب سے زیاده بات چیت سیاست په ہوتی ہے اور تمام برائیوں کا ذمه دار بهی سیاستدانوں کو کہا جاتا هے لیکن اس کے باوجود کوئی ماں باپ نہیں چاہتا که انکی اولاد میں سے کوئی ایک اسی سیاسی نظام میں بہتری کے لیے عملی اقدام اٹھائے یعنی عملی طور په سیاست میں حصه لے۔ مگر جب کوئی سر پھرا نوجوان اس طرف آنے لگتا ہے تو اسکی حوصله شکنی ایسے کی جاتی هے که کبهی تو اس کا راشن بند کر دیا جاتا ہے اور اکثر نوبت لا تعلقی تک آ جاتی ہے۔ نتیجتاً وه اپنے شوق کے ہاتھوں مجبور ہو کر معاشی اور اقتصادی مکمل طور پر کسی سیاسی پارٹی په انحصار کرنے لگ جاتا ہے اور ایسے میں اس کی حد بندیوں میں دب کر فطری صلاحیتوں سے محروم ہو جاتا ہے۔ اس طرح معاشره ایسے قابل لوگوں سے محروم ہو کر چلتے پھرتے ترجمانوں کے رحم و کرم پر آ جاتا ہے۔

ایسے میں سیاستدانوں سے نفرت کرنے والے افراد ان سے بدله لینے کی خاطر اولاد کو افسر شاهی میں بهیجتے ہیں که دستاویزی اور کاغذی طریقه سے کرپٹ سیاستدانوں کا مقابله کر سکیں مگر اپنی کم حوصلگی کی وجه سے ادھر بهی دام فریب میں آجاتے ہیں اور اس کا نتیجه لوٹ مار، کرپشن، بیروزگاری، دہشت گردی اور بحرانوں کے ایک نه ختم ہونے والے سلسله کی شکل میں نکلتا ہے، یہی وجه ہے که بددیانت سیاستدانوں کی موجودگی میں کبهی ایماندار بیوروکریسی وجود میں نہیں آ سکتی، نه ہی ماضی میں کبھی اس طرح ہوا ہے اور حال میں اسکی مثال تیسری دنیا کے ممالک کی شکل میں واضع ہے۔

قائداعظم نے سیاست کو شرفاء کا کهیل تو کہا تها مگر ان کی وفات کے بعد ان کے کسی سیاسی جانشین میں یه وصف نظر نہیں آتا ، محض نو سال کے عرصه میں سات وزرائے اعظم کا تبدیل ہونا اور پہلی دستور ساز اسمبلی کا بغیر کوئی آئین بنائے برخواست ہونا اور جاگیرداروں اور سرمایه داروں (جو که ہرگز شرفاء نهیں ہوتے) کا سیاست کو پیسه اور طاقت کا کهیل بنانا اس کی واضع مثال ہیں۔ (مدیر: اس کلیے کی بنیاد کیا ہے کہ تمام جاگیر دار اور سرمایہ دار ہرگز بھی شرفا نہیں ہوتے؟)

اگرچه بھارت نے بہت جلد جاگیرداری جیسے ناسور سے خود کو آزاد کروا لیا لیکن پاکستان میں ان جاگیرداروں کے سوا کبهی کوئی اہم عہدے په فائز نظر نہیں آتا، اگر حنیف رامے، جمشید دستی اور شیخ رشید کو مثال کے طور پر لیا جائے تب بهی اس کا تناسب آٹے میں نمک کے برابر ہے یا شاید اس سے بهی کم۔

اس سارے منظر نامے میں مڈل کلاس آدمی کا سیاست میں حصه محض جلسه جلوسوں میں شرکت کی حد تک محدود ہو کر ره گیا هے ان میں سے بهی آدهے پیسے دے کے لائے گئے ہوتے ہیں۔ یہی مڈل کلاس لوگ ہیلمٹ سر په رکهے اور بندوق ہاتھ میں اٹھائے جغرافیائی سرحدوں کی حفاظت کی خاطر مرنے مارنے په تیار تو نظر آتے ہیں لیکن جناح کیپ پہنے ہاتھ میں پمفلٹ پکڑ کر لاوڈ اسپیکر تھامے معاشی، نظریاتی اور اقتصادی سرحدوں کی حفاظت کی خاطر خود کے لئے ووٹ مانگتے نظر نہیں آتے، اور ان کی اس عدم دلچسپی کی وجه سے سیاستدان وراثتی سیادت کے زریعه اپنی اولاد کو ان کے اوپر بٹھا دیتے ہیں، افلاطون نے کہا تھا که سیاست سے کناره کشی کا انجام یه ہو گا که تم سے نا اہل لوگ تمہارے اوپر حکمرانی کرنے لگیں گے۔ آج جو کچھ ہو رہا ہے اس کی سب سے بنیادی وجه ایک عام آدمی کی سیاست سے دوری کی ہی بدولت ہے۔

یه سلسله اسی طرح هی چلتا رہے گا جب تک اس کو عملی طور په بدلنے کے لئے اقدام نه کیے گئے جس کی بنیاد نظریه پاگل پن میں پنہاں ہے۔

نظریه پاگل پن اس معاشرے کی سیاسی ، سماجی، اقتصادی اور معاشی ڈهانچه کا بزریعه سیاست خود کے ہاتھوں میں لینے کی فکر کا نام ہے۔ پاگل پن حواس باخته ہونا نهیں بلکه ایک راسته کا انتخاب اور پوری لگن سے اس پر کاربند ہونے کا نام ہے۔ پاگل پن سے مراد ریاست یا اس کے اداروں سے بغاوت اور اس کے خلاف احتجاج (پرامن یا متشدد) نہیں بلکه تعلیمی طور پر اس کے لئے کوشش کرنا ہے۔ سیاسی پارٹیوں کا مقصد ہرگز اپنی سیادت اور ﺫاتی مفاد کے علاوه کچھ نہیں ہوتا اور موجوده صورتحال یکسر ایک لیڈر سے عاری اور ہر طرف خود غرض سیاستدانوں کے چنگل میں گرفتار نظر آتی ہے۔ چنانچه اس صورتحال میں ہر کسی کو اپنا رہنما خود بننا ہو گا۔ یه لوگ ہی ہیں جو ایک دریا کی طرح اپنا راسته خود بناتے ہیں، اور حالت کے تبدیل اور بہتر کرنے کا یہی عمل ہی انسان کو جانور سے ممتاز کرتا ہے۔

اس بات میں کوئی شک نہیں که لوگوں کے رویے کو متعین کرنے کے لئے سب سے کلیدی کردار پیسه اور زاتی ملکیت ادا کرتی ہے لیکن ایک سرمایه دار معاشرے میں ہم لوگوں کو مزید تین اقسام میں تقسیم کر سکتے ہیں، ایسا ان لوگوں کے ریاست، ریاستی اداروں اور آپس میں سماجی تعلق کی بنیاد پر کیا جاتا ہے۔

پہلی قسم قانون اور اس کے نفاﺫ کرنے والے اداروں سے منسلک افراد کی ہے، یه لوگ ریاست سے وفاداری، محب وطنی کے جزبات سے سرشار ہونے اور اس کا اظہار کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے، ان کا سماجی دائره کار انتہائی محدود ہونے کی وجه سے کسی بهی مزہبی ، سیاسی اور ادبی تحریک میں شرکت نه ہونے کے برابر ہوتی هے، اور یہی رویے اکثر ان کی اولاد میں منتقل ہو جاتےہیں۔

دوسری قسم انتہائی امیر اور غریب افراد پر مشتمل ہوتی ہے، امن و شورش کے حالات انکے ذہنی زاویے کو تبدیل نہیں کر سکتے اور اول الذکر کو بینک اور مؤخر الذکر کو پیٹ بھرنے کے علاوه کسی چیز سے غایت نہیں ہوتی اور معاشره بهی ان کے وجود سے عاری ہونے کا سا برتاؤ کرتا ہے۔

تیسری قسم کسی بهی معاشرے کا اصل آئینه ہوتی ہے، یه نظریات کے ارتقاء کی بنیاد اور اور اس میں بطور ایک کیٹالسٹ کا کردار ادا کرتی ہے۔ ایک استاد سے لیکر ادیب اور ڈاکٹر سے انجنئیر تک سب اسی کا حصه ہیں۔ یه تیسری قسم ہی موجوده تناظر میں اپنا کردار ادا کر سکتی ہے اور ایسا کرنے کے لئے توانائی بھی رکهتی ہے، اگرچه پہلے یه لوگ پریشر گروپس کے نام سے جانے جاتے تھے لیکن پچھلے کچه عرصه سے انهوں نے اپنی باگ ڈور سول سوسائٹی کے ہاتھوں میں تھما دی هے ایسا اس لئے که سول سوسائٹی کے زیاده تر اراکین خاص طور پر قیادت خود اس قسم کے افراد سے تعلق نهیں رکھتی اور سول سوسائٹی کی قیادت کے پہلی اور دوسری قسم سے تعلق رکهنے کی وجه سے رابطه اور ترجیحات کا فقدان پیدا ہو گیا ہے، جس نے اس کو بهی ایک پریشر گروپ میں بدل کے رکھ دیا ہے۔

نظریه پاگل پن ہر انسان کو اس چنگل سے چھڑا کر انفرادی طور پر سیاسی تبدیلی کے لئے جدوجہد کرنا ہے،

اس نظریے کے تحت ہر انسان کو کوشش کرنا ہو گی که وه اپنی اولاد میں سے کسی ایک کو اس ملک اور معاشره کی خاطر اعلئ سیاسی و سماجی تعلیم دلوائے اور اعلی پرورش کرے۔ بچپن سے ہی ان کو معامله فہمی اور سماجی اخلاقیات اور انکا احترام سکھایا جائے۔ یہی لوگ جب بڑے ہو کر اچهے معیشت دان، قانون دان ، انتظامی امور کے ماہر اور سائنسدان بن کر جب عملی سیاست میں آئیں گے تو اصل مقابله کی فضا پیدا ہو گی، مگر ان سب کے لئے تعلیم اور اس کے بندوبست کے لئے ایک متوازن خاندان سب سے بنیادی چیز ہے۔

پاکستان کی تمام مشکلات کا حل تعلیم کے حصول اور تعلیم یافته طبقه کے سیاست میں عملی حصه لینے میں ہی پوشیده ہے۔
اگر چه میری تمام باتیں آئیڈیل ازم پی مبنی نظر آتی ہیں لیکن یورپ کا روشنی کا دور انہی اصولوں په کاربند تها۔
سیاست کو پھر سے شرفاء کا کھیل بنانا ہو گا، بددیانت اور ہوس ﺫده طبقه کے لیے اس میں کوئی جگه نہیں ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments