تنقید ضرور مگر تعریف بھی پولیس کا حق ہے



ہمارے معاشرے کا المیہ یہ ہے کہ ہم کو صرف پولیس کی خامیاں ہی نظر آتی ہیں خوبیاں نہیں۔ ہم نے اپنی خامیاں دیکھنے والی آنکھ کو اتنا کھلا رکھا ہوا ہے کے ہم ہر اچھے کام کو چاہے وو جو بھی کرے صرف نظر کر جاتے ہیں۔ حال ہی میں آئی جی پنجاب کی جانب سے چائلڈ لیبر کے خاتمے کی اسپیشل مہم شروع کی گئی ہے۔ چائلڈ لیبر آرڈیننس کے اجرا سے تا حال صوبہ بھر کے مجموعی طور پر 5000 سے زائد بھٹہ خشت پر چائلڈ لیبر کے حوالے سے متعلقہ سی پی اوز، ڈی پی اوز، اور ایس ڈپی اوز پر مشتمل اعلیٰ حکام نے چیکنگ کی اور 1000 سے زیادہ بھٹہ خشت پر بچوں سے مشقت کے کیسز سامنے آنے پر 200 سے زائد بھٹہ خشت کو فوری طور پر سیل کیا گیا جبکہ چائلڈ لیبر میں ملوث 600 سے زائد بھٹہ خشت کے خلاف ایف ای آر درج کراتے ہوئے مجموعی طور پر 500 سے زائد مالکان اور ذمہ داران کو موقع پر گرفتار کیا گیا۔

آئی جی پنجاب کی ہدایت کی روشنی میں صوبہ بھر کے بھٹہ خشت پر بچوں سے مشقت کی ممانعت کے آرڈیننس 2016 پر تیزی سے عملدرآمد جاری ہے۔ حال ہی میں اسی سلسلے میں گزشتہ روز سٹی پولیس افسر گوجرانوالہ اشفاق احمد خان نے دیوان روڈ ایمن آباد میں قائم بھٹوں پر جاکر چیکنگ کی اور بھٹہ مالکان کو کہا کہ بچوں سے مشقت نہ کروائیں اور ان کو تعلیم حاصل کرنے دیں۔ انہوں نے کہاکہ خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف سخت کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔ بچے کسی بھی قوم کا مستقبل ہوتے ہیں، کیونکہ ملک کی باگ دوڑ آگے چل کر انہی نونہالوں نے سنبھالنی ہوتی ہے

چائلڈ لیبر دنیا بھر کے تمام مروجہ بین الاقوامی قوانین کے مطابق مجرمانہ فعل ہے جس سے نہ صرف معاشرے کی نشوونما رک جاتی ہے بلکہ اس کی اخلاقی اقدار کو بھی نقصان پہنچتا ہے۔ چائلڈ لیبر کا مطلب 14سال سے کم عمر بچوں کی جسمانی مشقت والے کاموں کی انجام دہی ہے۔ دنیا بھر میں ایک انداز ے کے مطابق 168ملین بچے چائلڈ لیبر سے منسلک پیشوں سے وابستہ ہیں۔ پاکستان میں محنت مشقت کرنے والے بچوں کی درست تعداد معلوم کرنے کے لئے آخری چائلڈ لیبر سروے1996ء میں ہوا تھا، جس کے مطابق 5سے14سال کے 40ملین پاکستانی بچے چائلڈ لیبر سے وابستہ ہیں، 2۔ 9ملین بچے دیہاتوں جبکہ 0۔ 3ملین شہری علاقوں سے تعلق رکھتے ہیں جبکہ پنجاب میں یہ تعداد 1.9ملین ہے۔

ایک سماجی سروے کے مطابق پنجاب میں اس وقت چائلڈ لیبر سے جڑے بچوں کی تعداد 40 لاکھ سے تجاوز کر چکی ہے۔ پاکستان، دیہاتوں میں ہونے والی چائلڈ لیبر میں زیادہ تر بچے بھٹہ خشت کے شعبے میں محنت مشقت کررہے ہیں۔ بھیڑ بکریاں چراتے ہیں جبکہ شہروں میں زیادہ تر چائلڈ لیبر ورکشاپوں، ہوٹلوں، خرادیے کی دکانوں اور مختلف کارخانوں میں ملتی ہے۔ تاہم شہروں کی نسبت دیہات میں چائلڈ لیبر آٹھ گناہ زیادہ ہے۔ بچے گھروں میں کم اجرت پر کام کاج کرنے پر بھی مجبور ہیں۔ پاکستان کے ہر چوتھے گھر میں بچے ڈومیسٹک لیبر کررہے ہیں۔ پنجاب بھر میں 25ہزار سے زائد بچے اینٹوں کے بھٹوں پر کسی نہ کسی حوالے سے چائلڈ لیبر کرتے دکھائی دیتے ہیں، کیونکہ وہ اپنے مزدوروالدین کے قرض یا پیشگی میں جکڑے ہونے کی وجہ سے بھٹوں پر مشقت کرنے پر مجبور ہیں ان کے والدین کو قرض میں ادائیگی کی وجہ سے اکثر اوقات ان کی مشقت کے صلے میں ایک پائی بھی ادا نہیں کی جاتی۔ اگرچہ 18سال قبل سے جبری مشقت کے قانون کے تحت اس پر پابندی عائد ہے، تاہم آج بھی غلامی کی یہ جدید شکل ہمارے بھٹوں پر موجود ہے۔

محکمہ لیبر و انسانی وسائل نے صوبہ بھر کے تمام بھٹوں پر چائلڈ لیبر کے حوالے سے سروے کروایا جس کے مطابق صوبہ پنجاب میں مجموعی طور پر6090 بھٹوں پرایک لاکھ 70ہزار بھٹہ مزدور کام کررہے ہیں جبکہ ان بھٹوں پر رہائش پذیر23ہزار بچے سکول نہیں جاتے تھے۔

بھٹہ مزدوروں کے 7ہزار بچے پہلے ہی کسی نہ کسی سکول میں تعلیم حاصل کررہے ہیں، تاہم محکمہ لیبر وانسانی وسائل پنجاب نے محکمہ سکول ایجوکیشن، لٹریسی لوکل گورنمنٹ، محکمہ داخلہ و پولیس اور دیگر اداروں کے تعاون سے 21ہزار بچو ں کو بھٹوں کی حدود سے 2کلو میٹر دائرے میں موجود سرکاری سکولوں میں داخل کروانے کی مہم شروع کی۔ سکولوں میں داخل کرائے جانے والے تمام بچوں کو حکومت پنجاب کی طرف سے مفت تعلیم فراہم کی جارہی ہے پنجاب پولیس نے بھٹہ خشت پر چائلڈ لیبر کا خاتمہ یقینی بنانے کے لئے ایک اور انتہائی اہم اقدام کیاہے۔ انہوں نے بھٹوں سے چائلڈ لیبر کے خاتمے کے لئے آرڈیننس پر ہر حال میں عملدرآمد کرانے کے مصمم ارادہ کر لیا ہے جس کے مطابق بھٹوں پر چائلڈ لیبر کروانے والے بھٹہ مالکان کاسمر ی ٹرائل ہوگا۔ جرم ثابت ہونے پر بھٹہ مالک کو 6ماہ قید اور 5لاکھ روپے تک جرمانہ بھی ادا کرنا ہوگا نیز بھٹوں پر بچوں سے مشقت کروانے والے بھٹوں کو سیل بھی کردیا جائے گا۔ ان اقدامات سے ظاہر ہوتاہے کہ پولیس نے بھٹوں سے چائلڈ لیبر کے خاتمہ کا تہیہ کرلیاہے اور اس مقصد کے لیے متعلقہ افسران کو سختی سے عملدرآمد کرنے کی ہدایت کی ہے

ضرورت اس امر کی ہے کہ بحیثیت قوم ہم بھٹوں سمیت تمام صنعتی و تجارتی اداروں سے چائلڈ لیبر کے خاتمے کے لئے موثرکردار اداکریں، کیونکہ چائلڈ لیبر کا خاتمہ صرف حکومت اور پولیس کی ہی ذمہ داری نہیں، یہ ہم سب کا مشترکہ فریضہ ہے اور آنے والی نسلوں کی بہتری کے لئے یہ ہم سب کا فرض ہے کہ بچوں کے حقوق سے متعلق شعور اجاگر کیا جائے۔ آرڈی ننس کے حوالے سے بھٹہ مالکان کے تحفظات جو بھی ہوں، تاہم کوئی بھی جواز معصوم بچوں سے چائلڈ لیبرکے حوالے سے قابل قبول نہیں ہو سکتا۔ بھٹہ مالکان کو ہر صورت میں اپنے بھٹوں سے چائلڈ لیبر کا خاتمہ کرنا ہو گا اور بھٹہ مزدوروں کو بھی حکومتی پیکیج سے مستفید ہونے کے لئے یہ سمجھنا ہو گاکہ ان کے بچوں کا درخشاں مستقبل تعلیم کے حصول ہی میں پنہاں ہے۔

صوبائی ادارے اور تمام متعلقہ سٹیک ہولڈرمربوط رابطوں اور موثر نگرانی کے ذریعے اس آرڈیننس پر عملدرآمد یقینی بنائیں۔ مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد، این جی اوز، علمائے کرام اور سیاست دانوں سمیت تمام مکاتب فکر کو مل کر کوشش کرنا ہوگی، تب ہی اس معاشرے سے چائلڈ لیبرکا خاتمہ ممکن ہوگا اور اپنے نونہالوں کے تابناک مستقبل کے حوالے سے پاکستان کا مثبت تشخص ابھرکرسامنے آئے گا۔ حکومت پنجاب اور پنجاب پولیس پاکستان بھر میں چائلڈ لیبر کے خاتمے کے لئے آرڈی ننس اور خصوصی پیکیج کے حوالے سے ایک بار پھر دوسرے صوبوں سے سبقت لے گئی ہے۔ امید واثق ہے کہ ان حکومتی اقدامات سے کم از کم بھٹہ خشت کی سطح پر چائلڈ لیبر کا خاتمہ یقینی ہو جائے گا۔

سمیع احمد کلیا

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سمیع احمد کلیا

سمیع احمد کلیا پولیٹیکل سائنس میں گورنمنٹ کالج یونیورسٹی، لاہور سے ماسٹرز، قائد اعظم لاء کالج، لاہور سے ایل ایل بی اور سابق لیکچرر پولیٹیکل سائنس۔ اب پنجاب پولیس میں خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔

sami-ahmad-kalya has 40 posts and counting.See all posts by sami-ahmad-kalya