میں ہزارہ ہوں تو کیا پاکستانی نہیں؟’


‘کوئٹہ میں دن کی روشنی میں جب میرے تین دوستوں کو آگے پیچھے گولی مار کر ہلاک کیا گیا کہ تب میرا اعتبار پاکستانی ریاست سے اٹھ گیا اور اپنا گھر چھوڑ کر میں امریکہ آنے پر مجبور ہو گیا۔’

یہ کہانی ہے اسحاق علی کی جو 2009 میں ملک چھوڑ کر نیویارک منتقل ہو گئے کیوں کہ ہزارہ شیعہ ہونے کی وجہ سے ان کی جان کو خطرہ لاحق تھا۔

اسحاق کوئٹہ میں سرکاری ملازم تھے اور ہزارہ شیعہ برادری کے قتل و عام پر کھلے عام اخبارات میں تنقیدی کالم بھی لکھتے تھے۔ دوستوں کی ہلاکت کے بعد انھیں بھی نامعلوم افراد نے جان کی دھمکیاں دینا شروع کر دیں جس کے بعد ان کے پاس اپنے دو بچوں اور بیوی کو کوئٹہ چھوڑ کر امریکہ آنے کے علاوہ کوئی چارہ نہ رہا۔

چھ برس کی دوری کے بعد اب ان کے بچے ان کے ساتھ امریکہ میں رہتے ہیں۔

بلوچستان میں شیعہ ہزارہ برادری پر قاتلانہ حملے اور ان کی ٹار گٹ کلنگ کا سلسلہ 1999 سے جاری ہے۔ 2005 کے بعد ان کی ہلاکتوں کے واقعات میں تیزی آئی، جس کے بعد ان کی پاکستان سے نقل مکانی کا سلسلہ جاری ہے۔ صرف گذشتہ ایک ماہ میں ہزارہ برادری کے کم سے کم نو افراد کی ہلاکت نے ایک مرتبہ پھر اسحاق کے زخم تازہ کر دیے ہیں۔

ان ہلاکتوں کے خلاف احتجاج میں پاکستان میں ہزارہ شیعہ برادری پھر سڑکوں پر نکلی۔ پانچ دن جاری رہنے والی بھوک ہڑتال تب ختم ہوئی جب 30 سالہ وکیل اور سماجی کارکن جلیلہ حیدر نے فوجی سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ سے ملاقات کی۔ ملاقات میں یقین دہانی کرائی گئی کہ ہزارہ شیعہ برادری کو تحفظ دیا جائے گا۔ جس کے بعد امریکہ میں موجود ہزارہ برادری پرامید تو ہے کہ ریاست نے بالآخر ان کی آواز تو سنی مگر یہ بھروسہ پھر بھی نہیں کہ ہزارہ برادری کے حالات میں بہتری آئے گی۔

ہڑتال

کوئٹہ میں جلیلہ حیدر نے تادمِ مرگ بھوک ہڑتال شروع کی تھی جو آرمی چیف کی یقین دہانی پر ختم ہوئی

اس سلسلے میں واشنگٹن میں مقیم ہزارہ برادری کے لیے کام کرنے والے سماجی کارکن احمد شجاع نے کہا: ‘ہزارہ برادری کے لوگ بغیر خوف و خطر کام پر نہیں جا سکتے، ہمارے بچے سکول جاتے ہوئے گھبراتے ہیں۔ یہ لوگ ہر وقت اس دہشت میں مبتلا رہتے ہیں کہ آج نشانے پر کون ہو گا۔ یہ ہزارہ برادی کے حقوق کی بدترین پامالی ہے۔’

انھوں نے مزید کہا: ‘اس سے پہلے بھی حکومت کئی بار ہزارہ برادری کو تحفظ فراہم کرنے کی یقین دہانی کرا چکی ہے مگر ان کی حالت میں کوئی بہتری نہیں آئی۔ محض ان کی لاشوں پر سیاست چمکائے گئی، اور ظاہر ہے سیاسی حکومت کے پاس صوبے کی سکیورٹی کا اختیار بھی نہیں۔ اسی لیے جلیلہ حیدر فوجی سربراہ سے ملنا چاہتی تھیں۔’

وہ کہتے ہیں: ‘یہ تاثر عام ہے کہ آج بھی فوج کے براہِ راست یا بلاوابستہ ان عناصر کے ساتھ تعلقات ہیں جو مذہبی انتشار پھیلا رہے ہیں اس لیے جب تک پاکستانی فوج ان عناصر کی جانب اپنا رویہ مکمل طور پر بدلتی نہیں تب تک اقلیتیں اسی ناانصافی اور بربریت کا شکار ہوتی رہیں گی۔’

شجاع

سماجی کارکن احمد شجاع کہتے ہیں کہ حکومت کئی بار ہزارہ برادری کو تحفظ فراہم کرنے کی یقین دہانی کرا چکی ہے مگر ان کی حالت میں کوئی بہتری نہیں آئی

پاکستان کے انسانی حقوق کے کمیشن کی تازہ رپورٹ کے مطابق کوئٹہ میں گذشتہ پانچ برسوں میں ہزارہ برادری کے کم سے کم پانچ سو سے زیادہ افراد کو ہلاک کیا گیا جبکہ چھ سو سے زیادہ لوگ حملوں میں زخمی ہوئے۔ تاہم ہزارہ برادری کا کہنا ہے کہ ہلاکتوں کی تعداد اس سے کئی زیادہ ہے۔

ان میں سے زیادہ تر حملوں کی ذمہ داری سنی انتہا پسند گروہ تسلیم کر چکے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق 2018 میں سکیورٹی فورسز پر حملوں میں 19 اہلکار ہلاک ہوئے۔

اسحاق کہتے ہیں: ‘میری ایک ہی بہن ہے جس سے میں پچھلے نو برسوں سے نہیں ملا۔ میں اپنے پورے خاندان سے کٹ کر رہ گیا ہوں، کیونکہ میں واپس نہیں جا سکتا۔ میرے بچے ڈرتے ہیں کہ اگر میں واپس گیا تو شاید زندہ واپس نہ آ سکوں۔ یہ بے بسی کیا ہمیشہ ہمارے ساتھ رہے گی؟ میں شیعہ ہوں، میں ہزارہ ہوں تو اس لیے کیا پاکستان میرا ملک نہیں؟ کیا میں پاکستانی نہیں؟’


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32292 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp