عورتوں کے تحفظ کی جنگ اور جلیلہ حیدر


ٹی وی پروگراموں کی Ratings طے کرتے ہوئے سب سے زیادہ اہمیت آبادی کے اس حصے کو دی جاتی ہے جو 18سال سے 25 سال کے درمیان والی عمر کے لوگوں پر مشتمل ہوتا ہے۔ اس عمر میں آپ کوئی عادت اپنا لیں تو چھٹکارا اس سے بہت مشکل ہوتا ہے۔ اشیائے صرف تیار کرنے والی کمپنیوں کی لہٰذا یہ خواہش ہوتی ہے کہ وہ اپنے برانڈز ان لوگوں سے متعارف کروائیں۔ انہیں یہ برانڈز خریدنے کی ترغیب دیں تاکہ بقیہ عمر وہ اس کے عادی رہیں۔
میشا شفیع اور علی ظفر ہمارے دو جوان گلوکار ہیں۔ ٹی وی Ratings اور اشتہاروں کے حوالے سے میں نے جس Age Bracket کا ذکر کیا ہے اس میں بہت مقبول۔ ٹی وی والوں کی خوش بختی ہوگئی کہ میشا شفیع نے ایک ٹویٹ کے ذریعے علی ظفر پر الزام لگا دیا کہ وہ انتہائی ڈھٹائی کے ساتھ اسے ہراساں کرتا رہا ہے۔
یہ ٹویٹ دیکھتے ہی ہمارے سٹار اینکرز کو یاد آگیا کہ امریکہ اور یورپ کے کئی ممالک میں ان دنوں ریگولر اور سوشل میڈیا پر Me Tooکا قضیہ بہت رش لے رہا ہے۔وقت آگیا ہے کہ وطنِ عزیز میں بھی خواتین کے حقوق کی بات شروع کردی جائے تاکہ ٹی وی کا کاروبار چلے۔
کئی دنوں تک لہٰذا ٹی وی سکرینوں پر کچہری لگی رہی۔ یہ طے کرنے کے لئے کہ میشا شفیع کا لگایا الزام کہیں بے بنیاد تو نہیں۔ یہ طے کرنے ان دونوں کے حامی اور مخالف ایک دوسرے کے ساتھ بحثوں میں اُلجھنا شروع ہوگئے۔ ان بحثوں کو نہایت منافقانہ انداز میں ہم ٹی وی والوں نے عورتوں کے ’’تحفظ کی جنگ‘‘ بناکر دکھانے کی کوشش کی۔ حالانکہ بنیادی پیغام ہماری لگائی کچہریوںکی بدولت یہ دیا گیا کہ میشا کو علی ظفر کے ساتھ اتنے برس کام کرنے کے بعد ہی وہ سب کیوں یاد آیا جس کا ذکر اس نے اپنی ٹویٹ میں کیا۔ کئی ایک ’’منصفوں‘‘ نے وہ تصاویر بھی بارہا دکھائیں جن میں میشا شفیع نے بقول ان کے ’’مناسب لباس‘‘ نہیں پہن رکھا تھا اور علی ظفر کے ساتھ ضرورت سے زیادہ قریب ہوکر چند تصاویر ہنستے مسکراتے اُتروائی تھیں۔
ابلاغ کے ہنر کو ہمیشہ ایک طالب علم کے طور پر انتہائی خلوص سے سمجھنے کی کوشش کرنے والا میں بدنصیب ٹی وی پر ’’عورتوں کے تحفظ‘‘ کی خاطر لگی کچہریوں کے ذریعے پہنچائے اس پیغام سے بہت پریشان ہوا۔ کئی بار شعوری طور پر نہ چاہتے ہوئے بھی ذہن میں یہ خیال آیا کہ شاید میشا شفیع درگزر سے کام لیتی تو ’’عورتوں کے حقوق‘‘ کا ذکراس بھونڈے انداز میں نہ ہوتا۔
ہمارے چینل مگر پاکستانی مردوں کو عورت کے احترام کی عادت ڈالنے کے مشن پر مامور ہو چکے ہیں۔ ربّ کریم سے دردمندانہ فریاد ہے کہ وہ ہماری عورتوں کو ان کی عقل سے محفوظ تر بنائے۔ عورتوں کے احترام کو یقینی بنانے کے مشن میں مبتلا ہوئے ٹی وی چینل اب گزشتہ دو روز سے رانا ثناء اللہ کی مسلسل مذمت میں مصروف ہیں۔ موصوف نے تحریک انصاف کے لاہور میں ہوئے جلسے میں شریک خواتین کے بارے میں چند ایسے لفظ استعمال کئے جو ہر لحاظ سے رکیک، بازاری اور فرسودہ سوچ کے نمائندہ تھے۔ رانا ثناء اللہ انہیں پنجابی والے ’’پولے منہ‘‘ کے ساتھ استعمال کرنے کی وجہ سے قطعاً قابلِ مذمت ہیں۔ یہ مذمت ٹی وی سکرینوں پر بھرپور انداز میں ہوئی اور بالآخر نون کے لاحقے والی مسلم لیگ کے تازہ بنے سربراہ شہباز شریف کو ان کی وجہ سے معافی کی درخواست کرنا پڑی۔ تحریک انصاف کی مگر اب بھی تسلی نہیں ہوئی ہے۔ غیرت مند مردوں کی یہ جماعت اپنی ساتھی خواتین کی بے حرمتی کو نظرانداز کرنے کو ہرگز تیار نہیں۔ عورتوں کے تحفظ کے مشن پر خود کو مامور کرنے والا میڈیا بھی یقینا اس جنگ میں ان کا بھرپور ساتھ دے گا۔
میشا شفیع اور علی ظفر کے درمیان چھڑے قضیے اور رانا ثناء اللہ کی مذمت میں کئی گھنٹے خرچ کرنے والا ہمارا بہت ہی آزاد اور بے باک میڈیا عورتوں کے تحفظ کی جنگ لڑتے ہوئے مناسب انداز میں لیکن نوٹس نہیں لے پایا کہ کوئٹہ شہر میں جلیلہ حیدر نام کی بھی ایک خاتون ہیں۔ قانون کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد انہوں نے وکالت کے ذریعے اپنی برادری کے حقوق کو یقینی بنانے کا عزم اُٹھایا۔ تعلق ان کا ہزارہ کمیونٹی سے ہے۔ یہ کمیونٹی گزشتہ کئی برسوں سے فقط مسلکی تعصبات کی وجہ سے انتہا پسندوں کے نشانے پر ہے۔ ہماری ریاست اس کا تحفظ یقینی نہیں بنا پائی ہے۔
اپنی کمیونٹی کو دیوار سے لگا دیکھتے ہوئے جلیلہ حیدر اس ہفتے کے آغاز میں کوئٹہ پریس کلب کے روبرو ایک کیمپ لگاکر تادم مرگ بھوک ہڑتال پر بیٹھ گئی۔ ہزارہ کمیونٹی کی یہ وکیل خاتون اور اس کا Cause مگر 18 سے 25 سال کے درمیان والی عمرکے نوجوانوں کے لئے اہم نہیں ۔ جلیلہ بی بی کی کوئی سٹار ویلیو نہیں نہ ہی اس کی وجہ سے نون کے لاحقے والی مسلم لیگ اور مستقبل کے وزیر اعظم نظر آتے عمران خان کی جماعت کے مابین ٹی وی سکرینوں پر ’’مہایدھ‘‘ برپا کئے جاسکتے ہیں۔ بھوک ہڑتال سے نڈھال ہوئی اس خاتون وکیل کو اکثر ٹی وی سکرینوں پر دکھایا تک نہیں گیا۔ 22 کروڑ کے اس ملک میں ہزارہ شاید ایک کروڑ بھی نہیں لاکھوں تک ہی محدود ہیں۔ان کی خواتین کے بارے میں لہٰذا فکرمند کیوں ہونا۔ ان کے تحفظ کی بات مین سٹریم میڈیا کے لئے اہم ترین ٹھہری18سے 25 سال کے درمیان والی بریکٹ کے لئے Attractive نہیں۔
Hybrid Warکے اس موسم میں محب وطن صحافیوں کو ویسے بھی کوئی خبر چلانے سے پہلے یہ سوچنا ہوتا ہے کہ اس کا ذکر قومی سلامتی کے تقاضوں کے مطابق ہے یا نہیں۔ اپنی مشکلات سے پریشان ہوئے ہزارہ کمیونٹی کے چند افراد جذبات میں آکر ہذیانی ہوجاتے ہیں۔ ہذیان کی اس کیفیت میں وہ ایسے فقرے بھی کہہ دیتے ہیں جو ملکی Image کے لئے مناسب نہیں سمجھے جاتے۔ انہیں نظرانداز کرنے ہی میں عافیت ہے۔
جلیلہ حیدریقیناً ایک خاتون ہے۔ اس کے چند حقوق بھی ہوں گے۔ ان کا تحفظ ہونا چاہئے۔ معاملہ مگر Ratings کا ہے اور اس حوالے سے 18سے 25 سال تک کی عمروالوں کیBracket۔ بدنصیب جلیلہ اس بریکٹ میں Fit نہیں ہوتی۔ ہماری توجہ سے لہٰذا محروم رہی۔
ربّ کا صد شکر کہ ہم ٹی وی والوں کی جانب سے مسلسل نظرانداز کئے جانے کے باوجود آرمی چیف کو ہزارہ کمیونٹی کی مشکلات کا احساس ہوا۔ منگل کی شب جنرل باجوہ انہیں برسرزمین جاکر سمجھنے لئے کوئٹہ پہنچ گئے ہیں۔ شاید ان کی کوئٹہ میں موجودگی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ہم ٹی وی والے ہزارہ کمیونٹی کی خواتین میں شدت سے موجود احساس عدم تحفظ کا ذکر کرنے کے لئے بھی چند Segments تیار کرکے انہیں سکرینوں پر دکھا سکیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).