قادیانی عبدالسلام، گمراہ سسر اور مومن داماد


سب سے پہلے تو پاکستان کی قومی اسمبلی کے غیور ارکان کو خراج تحسین جن کی حرارت ایمانی نے گوارا نہیں کیا کہ قائد اعظم یونیورسٹی کے شعبہ فزکس کا نام ڈاکٹر عبد السلام جیسے کسی احمدی بلکہ یوں کہئے کہ قادیانی پر ہو۔ اس کے بعد سلام اور اظہار ممنونیت حضرت کیپٹن صفدر کیلئے جو ایک بہتر نام ڈھونڈ لائے اور اتفاق رائے سے فیصلہ ہوا کہ اس شعبہ کا نام ابو الفتح عبد الرحمان منصور الخازنی کے نام پر ہو۔ پس یاد رکھنا چاہئے کہ ایسے ہی بیدار فکر نوجوان قوموں کو خواب غفلت سے جگاتے ہیں اور فکری بے راہ روی کا انسداد کرتے ہیں۔ خسر معظم نواز شریف نے شعبہ کا نام عبد السلام پر رکھنے کی جو خطائے اجتہادی کی تھی، داماد عالی مقام نے اس کی اصلاح فرمائی اور یوں ایک اجتماعی گناہ کا ارتکاب ہونے سے بچ گیا۔

معلوم ہوا کہ غیرت مند قوموں کا شیوہ ہے کہ ان کے یہاں کسی غیرمذہب والے کا نام نہ لیا جاوے۔ اس بحث نے یہاں بھارت میں ایک مسئلہ کو حل کر دیا۔ آج کل علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں بانی پاکستان محمد علی جناح کی تصویر پر ہنگامہ مچا ہوا ہے۔ معترضین کہتے ہیں کہ بانی پاکستان کی تصویر بھارتی یونیورسٹی میں کیوں لگے؟۔ خیر ہو کیپٹن صفدر اور پاکستانی قومی اسمبلی کی جس نے معترضین کے موقف کی اپنے عمل سے تائید کر دی۔ اگر پاکستان کی یونیورسٹی میں اپنے ہی ملک کے سائنسداں کا نام اس لئے نہیں لیا جا سکتا کہ ان سے مذہبی اختلاف ہے تو پھر بھارتی یونیورسٹی میں ایسے فرد کی تصویر کیوں لگے جو اسی ملک کی تقسیم سے بنے اور دوسرے ملک کے بانی ہیں۔

کیپٹن صاحب کو جن بزرگ سائنسداں کا نام سوجھا ہے وہ سلجوقی تھے۔ یہاں تو خیر ڈاکٹر عبدالسلام کا احمدی ہونا آڑے آ گیا یوں بھی برصغیر کے مسلمانوں کو سمرقند و بخارا اور نیشاپور و خراسان سے بلا کی محبت ہے۔ کبھی کبھی تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ برصغیر کے مسلمانوں کو عرب، ترک اور وسط ایشیائی ممالک کے مسلمان ہی بھاتے ہیں۔ مقامی ہیرو پیدا کرنے کے معاملے میں برصغیر کی مسلم قوم کی کوکھ یا تو بانجھ ہے یا ہم مقامی کو ہیرو ماننا ہی نہیں چاہتے۔ ذرا غور فرمائیے کہ پاکستان میں میزائلوں کے نام کن کن شخصیات پر ہیں۔ غوری، غزنوی اور بابر۔ یہ حضرات کہاں سے تعلق رکھتے تھے؟۔ محمد غوری، غور سے تھا جو افغانستان میں ہے، محمود غزنوی، غزنی سے تھا جو افغانستان کا حصہ ہے اور مغل بادشاہ بابر کا آبائی تعلق ازبیکستان سے تھا۔ اس بات سے قطع نظر کہ انہوں نے ہماری سرزمین پر حملہ کرکے یہاں حکومتیں بنا لیں یہ سوال تو کیا ہی جا سکتا ہے کہ ان کا ایسا کون سا کارنامہ ہے جس کی وجہ سے ان کی اتنی عزت افزائی ہو رہی ہے کہ ان کے نام سے میزائل منسوب کئے جائیں؟

میری کمزور عقل تو اس کی ایک ہی وجہ پاتی ہے اور وہ ہے ان کا مسلمان ہونا۔ اپنے پرائے کے اس پیمانے کو ذرا اور گہرائی سے سمجھنا ہو تو سردار بھگت سنگھ کی مثال لے لیجئے۔ 23 برس کا کڑیل جوان اور ہمت ایسی کہ ملک کی آزادی کی خاطر پھانسی پر جھول گیا۔ بھگت سنگھ جس ملک کی آزادی کے لئے لڑے وہ غیرمنقسم تھا اس لئے اصولی طور پر بھارت اور پاکستان دونوں کے لئے یہ مجاہد آزادی یکساں طور پر محترم ہونا چاہئے لیکن اس کے لئے جیسی گرم جوشی بھارت میں ہے کیا پاکستان میں ویسی ہے؟ دلچسپ بات یہ ہے کہ بھگت سنگھ کا تو تعلق بھی پنجاب کے اس حصے سے تھا جو اب پاکستان کا ہی حصہ ہے۔ اس کی پیدائش لائل پور(اب فیصل آباد) ضلع کے بانگا گاؤں میں ہوئی تھی اور لاہور میں جام شہادت نوش کیا لیکن حالت یہ ہے کہ لاہور کے ایک چوراہے کا نام بھگت سنگھ سے منسوب کرنے کے لئے مدتوں سے احتجاج ہو رہا ہے مگر کیا مجال جو پاکستانی پارلیمان، یا کوئی کیپٹن صفدر یا کوئی اور غیرت مند یہ کہے کہ اس عظیم مجاہد آزادی کے نام سے چوراہا نہیں پورا ضلع منسوب کرو۔

ہیرو بنانے کے ہمارے معیار کی ذرا ایک اور جھلک دیکھئے۔ سعودی عرب کے شاہ فیصل کے اعزاز میں لائل پور ضلع کا نام فیصل آباد کر دیا گیا۔ یہ وہی ضلع ہے جس نے بھگت سنگھ جیسا جیالا مجاہد آزادی پیدا کیا جسے شہید اعظم کہا جاتا ہے۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ لائل پور کا نام بھگت سنگھ کے نام پر رکھا جاتا لیکن قربان جائیے ہماری عرب، فارس، سمرقند اور بخارا سے انسیت کے کہ ہمیں اسلامی جمہوریہ پاکستان کے ضلع کا نام ایک بادشاہ پر رکھنے کی ہی توفیق ہوئی۔ یہاں رک کر ایک مسئلہ کو اور حل کیجئے کہ ہمارے اس مزاج کا سبب کیا ہے؟۔ دراصل ہمارے ذہنوں میں مسلم امہ کا تصور کچھ زیادہ ہی گہرائی تک دھنسا ہوا ہے۔ کیا یہ حیرتناک امر نہیں کہ ہمیں طارق بن زیاد، موسیٰ بن نصیر، خالد بن ولید اور سلطان صلاح الدین ایوبی جیسے جنگجو بہت اپیل کرتے ہیں جبکہ خود برصغیر کے بڑے مسلمان اہل علم کے نام تک ہمیں یاد نہیں۔ اس معاملہ میں کیپٹن صفدر نے اتنا تو رحم کیا کہ شعبہ فزکس کا نام صلاح الدین ایوبی، خالد بن ولید، سلمان بن عبد العزیز یا صدام حسین کے نام پر رکھنے کی تجویز پیش نہیں کی بلکہ ایک سائنسداں کا ہی نام لیا۔

تلخ نوائی کا سلسلہ چل رہا ہے تو ایک بات اور کہہ دی جائے کہ جن ممالک کے مسلمان اہل علم کو برصغیر کے مسلمان کندھے پر ڈھوئے پھرتے ہیں خود ان ممالک میں برصغیر کے مسلمان اہل علم کو کوئی اہمیت نہیں دی جاتی۔ ہم بھلے ہی ترک، عرب یا ازبیک بزرگوں کو اپنا ہیرو بنالیں لیکن ان قوموں کے یہاں فوقیت مسلم امہ نہیں بلکہ اپنی قوم کو ہی حاصل ہے۔ ہم بھلے ہی اسپین کی فتح کے قصے سنائیں، عثمانی خلافت کی حکایتیں بیان کریں یا پھر غوری اور غزنوی کی الفت میں ہلکان ہوتے رہیں لیکن اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ہم اپنے مقامی مسلمان اہل علم کو نظر انداز کرکے خود اپنی تاریخ کے ساتھ ظلم کر رہے ہیں۔ ڈاکٹر عبد السلام یا بھگت سنگھ کی شخصیت اس بات کی محتاج نہیں کہ ہم ان کے نام سے کسی چوک یا یونیورسٹی کے کسی شعبہ کو منسوب کریں لیکن جس سرزمین پر ہم رہ رہے ہیں اس کی علمی اور اخلاقی زرخیزی کے اظہار اور اس پر افتخار کے لئے ہمیں اپنے درمیان موجود اپنے ہیروں کی بھی تعظیم کرنی چاہئے۔

مالک اشتر ، دہلی، ہندوستان

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

مالک اشتر ، دہلی، ہندوستان

مالک اشتر،آبائی تعلق نوگانواں سادات اترپردیش، جامعہ ملیہ اسلامیہ سے ترسیل عامہ اور صحافت میں ماسٹرس، اخبارات اور رسائل میں ایک دہائی سے زیادہ عرصے سے لکھنا، ریڈیو تہران، سحر ٹی وی، ایف ایم گیان وانی، ایف ایم جامعہ اور کئی روزناموں میں کام کرنے کا تجربہ، کئی برس سے بھارت کے سرکاری ٹی وی نیوز چینل دوردرشن نیوز میں نیوز ایڈیٹر، لکھنے کا شوق

malik-ashter has 117 posts and counting.See all posts by malik-ashter