بندے سے خان زمان تک


اپنی نوکری کو لات مار کر ہم ویلے تھے۔ لات جیولری فرم کے گورے مالک کو یہ بتا کر ماری تھی کہ اب میں اپنی فرم بناؤں گا۔ فرم بنانے کو کوئی سرمایہ موجود نہ تھا۔ اس کے لئے اک دوست کی موٹر سائکل کام آئی جو اٹھارہ سو روپے نصف جس کے نو سو ہوتے ہیں میں بیچ کر قانونی مراحل طےکیے گئے۔

فرم بنا تو لی تھی لیکن مست حال سوئی پڑی تھی کہ کام کیسے کرنا ہے اس کا کوئی پتہ ہی نہ تھا۔ جس دوست کی موٹر سائکل تھی اس نے دوستوں کے اک مشترکہ اجلاس میں جب فرم کی حالت پر اظہار تشویش کیا تو نہایت تفصیلی غور کے بعد فیصلہ صادر کیا گیا کہ مجھے ایک عدد ملازم رکھنا چاہیے۔ اس مریل فرم پر ایک ملازم کے بوجھ پر میرے تمام اعتراضات مسترد کر دیے گئے۔

اس اجلاس کے بعد زمان کو کہیں سے ڈھونڈ کر میرے متھے مار دیا گیا۔ دس گیارہ سال کا زمان ایک دوست کے پاس ملازم زمان کا ہی بھائی تھا اس کے سات آٹھ بھائیوں کا نام زمان تھا اور ابا کا نام بھی زمان ہی تھا۔ خان زمان میر زمان شاہ زمان رنگ زمان وغیرہ ان کے نام تھے لیکن سب ہی زمان کہلاتے تھے۔

زمان معصومیت حماقت سادگی بھولے پن اور بہادری کا اک چلتا پھرتا نمونہ تھا۔ پہلے دن چھٹی کے بعد جب وہ جا رہا تھا تو میں نے اس کو آواز دی اور وہ زہ مڑا اپنا کام کر قسم کا کوئی ڈائیلاگ مار کر بھاگ گیا۔ اگلے دن جب وہ کام پر آیا تو اس کی لتریشن کی جو اس نے بہت پر امن طریقے سے کرا لی۔

زمان سے آتی مہک نے مجبور کیا تو اس سے پوچھا کہ کب نہائے تھے تو اس کا جواب تھا پخوا یعنی کبھی نہایا تھا۔ کبھی سے کیا مراد تھی اس واقعے کا سال اور تاریخ اسے یاد نہیں تھی۔ دوسرا سوال پوچھا کہ گٹر میں نہائے تھے اس نے کہا نہیں بورڈ نہر میں اس نہر میں سیورج کے پائیپ ڈال رکھے تھے لوگوں نے بھی اور بلدیہ نے بھی۔ خیر اسے نہانے کا حکم دیا جس کی اس نے فوری تعمیل کی۔

زندگی اپنے معمول پر رواں ہو گئی فرق بس اتنا پڑا کہ زمان جب خان کہتا تھا تو اینویں اکڑنے کو دل کرتا تھا۔ دو تین ہفتے بعد گھر کی بیل ہوئی اور جب جا کر دیکھا تو غم غصے کی حالت میں اک افغان تاجک کھڑا تھا۔ حیرت ہوئی کہ اس کا ادھر کیا کام تو اس نے کہا خان ہم تمھارے ہمسائے ہیں یہ کہہ کر اسنے اپنے گھر کا پتہ بتایا جو آدھا فرلانگ دور تھا۔ ہم سے ہمسائے کی تشریح کرنے کے بعد تاجک نے الزام لگایا کہ خان تمھارے نوکر نے میرے کبوتر قابو کر لئے ہیں اور اور یہ اچھا نہیں کیا۔ زمان میرے پیچھے سے نمودار ہوا اور تاجک سے بولا کہ میں نے چرائے ہیں کیا؟ وہ بندہ بولا نہیں زمان نے دوبارہ پوچھا میں نے بھگائے ہیں؟ تو وہ بولا نہیں تو زمان نے کہا جاؤ اپنا کام کرو پھر۔

تاجک بولا خان اس نے کبوتر سیٹیاں مار مار کر آپ کی چھت پر اتار لئے ہیں میرا کبوتر واپس کر دو زندگی بھر احسان مند رہوں گا۔ زمان کو کہا کبوتر واپس کرے وہ چپ چاپ کھڑا رہا تو اس کو کان سے پکڑ کر چھت لے گیا۔ وہاں دیکھا تو چالیس پچاس کبوتر اپنی بستی آباد کر چکے تھے۔ تاجک کا کبوتر واپس کرایا زمان سے پوچھا کہ یہ باقی کس کے ہیں تو اس نے کہا پتہ نہیں کس کے ہیں خود ہی آ جائیں گے  لینے۔ لیکن خان جو ہماری چھت پر ہیں وہ تو اب ہمارے ہیں۔

کچھ دن مزید گزرے تو بیکری والا گھر پہنچ گیا کہ خان اپنے نوکر کو سمجھا لو بہت بزتی کرتا ہے ہماری۔ بس پھر یہ معمول ہو گیا گھر سے نکلتے تو کئی کیس سماعت کرنے پڑتے۔

اک دن آدھی رات کو بیل ہوئی دروازہ کھولا تو جہازوں کی ایک ڈار دھلی دھلائی کھڑی تھی۔ مجھے دیکھتے ہی نعرے بازی شروع کر دی کہ خان اپنے نوکر کو سمجھا لے ہم سارا دن محنت کر کے ایک سگریٹ کے پیسے اکٹھے کرتے ہیں سوٹا لگاتے ہیں اور پرواز ابھی ہموار ہی ہوئی ہوتی کہ زمان آ کر ہم سب پر ٹھنڈا پانی ڈال دیتا ہے۔

زمان کو اگلے دن بلا کر تفتیش کی تو اس نے چرسیوں والے معاملے میں کسی قسم کی رعائت کرنے سے صاف انکار کر دیا۔ اس نے کہا کہ خان میں نے ایک چرسی کو پورے پانچ روپے بیعانہ دیے تھے ایک نئی سائیکل چرانے کے لیے۔ وہ چرسی ان پانچ روپوں کا بھی سوٹا لگا گیا۔ اب جب تک یہ جہاز میرے لئے سائیکل نہیں لاتے جنگ جاری رہے گی ان پر پانی ڈالتا رہوں گا۔

اک دن گھر سے کلومیٹر دور واک کر رہا تھا دوست کے ساتھ تو اک مشکوک سے دکاندار نے راستہ روک لیا۔ پوچھنے ہی لگا تھا کہ کیا تکلیف ہے کہ وہ بولا خان تمھارا نوکر چھٹی کے دن میری طرف آتا ہے کل آیا نہیں۔ زمان سے تفتیش کی تو اس نے بتایا کہ ”اسے دا خر بچئے دے“ یعنی اینویں کھوتے دا پتر ہے وہ دکاندار۔ ہر اتوار اس کو جمرود سے گولیاں لا کر سپلائی کرتا ہوں۔   تو کل پولیس کے ناکے کی وجہ سے لا نہیں سکا۔   اگلے ہفتے پہنچا دوں گا زیادہ ہی بے صبرا ہو رہا ہے۔

میں گاڑی ڈرائیو کرنے کا مزا لے رہا تھا زمان پیچھے ہوشیار بیٹھا تھا۔ اچانک اس نے فرمائش کی کہ ”خان یو سو رکشے خو رالا وے وا“ یعنی خان کچھ رکشے تو کھڑکا میرے لئے۔ گھر میں رنگ کرایا تو زمان نے دیواروں پر ڈرائینگ بنا دیں اور بڑے فخر سے اپنی ڈرائنگ دکھائی اور سمجھائی کہ خان یہ تم ہو اور ساتھ میں یہ بڑے خان یعنی ابا جی بھی بنا رکھے تھے۔ اس دن میں ابا جی سے پٹتے بچا۔ رنگ دوبارہ کرانا پڑا۔

زمان کی حرکات پر غور کے لئے یاروں کا جائزہ اجلاس بلایا تو انہوں نے اس کی کارکردگی پر اظہار اطمینان کی قرارداد پاس کی کہ اس کی وجہ سے اب سب ہی مجھے خان کہتے سمجھتے اور بلاتے ہیں۔ جس پر مجھے اب فخر کرنا چاہیے کہ باقاعدہ پختون خان تسلیم کیا جا چکا ہوں۔

اسی اجلاس کے دوران ہمارے اک اصل خان نے زمان کو کہا کہ وہ ذرا اس کے گھر تک جائے اور نوکر کو بولے کہ گاڑی دھوئے کہیں جانا ہے۔ زمان فوری گیا اور تھوڑی دیر بعد واپس آ گیا اصل خان نے پوچھا کہ ہاں بتا دیا؟ زمان نے کہا بتا دیا اصل خان نے پوچھا کیا کہا میرے ملازم نے؟ زمان نے نے بولا کہ وہ کہتا کہ میرے خان کی بھی۔ ۔ ۔ ٹوں ٹوں ٹوں۔ جس رفتار سے پھر خان اپنے گھر گیا اس رفتار سے صرف بلی ہی چوہے کے پیچھے جاتی ہے کارٹون پروگراموں میں۔

پھر یوں ہوا کہ اچانک اک دن زمان نے اطلاع دی کہ اک افغان لڑکی جی جان سے ہم پر مر مٹی ہے اور ہماری خدمت میں تحائف وغیرہ روانہ کرنے والی ہے۔ اس حوالے سے ابھی سوچ بچار ہی میں مشغول تھا کہ زمان اگلے ہی دن کافی سارے تحفے لے کر پہنچ گیا۔ کسی کے یوں مر مٹنے کا خیال تو خوشگوار تھا لیکن نتائج کافی ناخوشگوار نکل سکتے تھے۔

بعد میں معلوم ہوا کہ زمان کسی حسینہ کو قاصد کی خدمات فراہم کر رہا تھا اور ساتھ اسے یہ کنسلٹنسی بھی فراہم کر رہا تھا کہ وہ جہاں سوچ رہی اس کی بجائے اگر اس کے خان یعنی مجھ پر فوکس کرے تو نتائج حوصلہ افزا ہو سکتے ہیں۔ اس پنگے سے نکلنے کی کہانی پھر کبھی۔

اک دن لوڈ شیڈنگ کے خلاف ہنگامے شروع ہو گئے۔ پولیس آ گئی لاٹھی چارج بھی ہوا۔ چھٹی کا دن تھا صورتحال کا جائزہ لینے کے لیے مشر کے ساتھ روڈ پر نکلا۔ پولیس والوں کے پاس سے گزرے تو تھانیدار صاحب غصے میں بھرے بیٹھے تھے۔ وہ فرما رہے تھے کہ یہ بچے ہیں، ان کو کیا کہیں، ایک ایک ڈنڈا بھی نہیں کھائیں گے۔ جوانوں تیار ہو جاؤ  ان کی طرف ڈنڈے لہراتے ہوئے ایک دوڑ لگانی ہے یہ بھاگ جائیں گے۔

پولیس اپنی طرف سے ان لڑکوں کی طرف دوڑ کر گئی۔ دوسری طرف سے لڑکے جھولیوں میں پتھر بھر کر بہت تیز رفتاری سے پولیس کی طرف بھاگے آئے۔ ہم بالکل درمیان میں پھنس ہی جاتے کہ اچانک اک آواز آئی۔ ”خان سیڈ تہ شہ“ یعنی خان سائیڈ پر ہو جاؤ ”الاکا دا زما خان دے“ لڑکو یہ میرا خان ہے۔ زمان کی قیادت میں جلوس پورے جوش اورجذبے سے پولیس کی طرف دوڑتا ہوا آ رہا تھا۔

تھانیدار نے زمان کا اقرار نامہ سن لیا۔ اس نے بجائے لڑکوں کی طرف جانے کے ہماری طرف دوڑ لگا دی۔ ہم سب سے آگے ہمارے پیچھے پولیس ان کے پیچھے زمان کی قیادت میں جلوس۔ بس مت پوچھیں پھر کیسے جان بچائی۔ جب سانس درست کر رہے تھے۔ مشر بولا اب پولیس کے ساتھ یہ سارا جلوس بھی تمھیں خان مان گیا ہے خان۔

لاہور سے کچھ مہمان آئے۔ وہ ہمارے پنڈ کے تھے۔ انہیں پشاور دیکھنا تھا۔ مصروفیت کی وجہ سے خود نہ جا سکا اور ان کے ساتھ زمان کو بھیج دیا۔ رات گئے تک بھی وہ سب واپس  نہ آئے تو ہماری طلبی ہو گئی ابا جی کے دربار میں۔ انہوں نے کہا کہ مہمانوں کا پتہ کروں کدھر گئے کیوں نہیں آئے۔ جب یہ سنا کہ زمان کے ساتھ گئے ہیں تو ان کا بی پی چڑھ گیا۔ ابھی مجھے عاق کرنے کا اعلان ہونے والا تھا کہ گھنٹی بجی۔ میں باہر گیا تو زمان کھڑا تھا اس سے پوچھا مہمان کدھر ہیں تو رونے لگا اور بولا کہ خان وہ مجھ سے گم گئے۔
مہمان تو کچھ دیر بعد خجل حال واپس آ گئے لیکن میرا بندے سے خان بننے کا سفر تمام ہو گیا کہ زمان کو فارغ کر دیا گیا۔

وسی بابا

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وسی بابا

وسی بابا نام رکھ لیا ایک کردار گھڑ لیا وہ سب کہنے کے لیے جس کے اظہار کی ویسے جرات نہیں تھی۔

wisi has 406 posts and counting.See all posts by wisi